حافظ محمد غفــــــران اشرفی
(جنرل سکریٹری سنّی جمعیة العوام)
📱 *[7020961779 /Malegaon]
روزہ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے۔اگر کوئی اِس کا انکار کرے تو کافر اور اگر جان بوجھ کر چھوڑ دے تو سخت گنہ گار ہوگا۔کسی کا روزہ ہماری زیادتی کی وجہ سے چھوٹتا ہے تو ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہم اُس میں کس قدر گنہ گار ہوں گے۔ماہ رمضان میں بہت سے کاریگر،مزدور روزہ رکھ کر لوم چلاتے ہیں نیز نماز اور تلاوت قرآن کا اہتمام بھی کرتے ہیں،اِس کے علاوہ اور بھی دیگر محنت کے کام کرتے ہیں سہ پہر تین چار بجے تک مزدور محنت اور لگن کے ساتھ کام کرلیتا ہے مگر جیسے جیسے دن ڈھلتا جاتا ہے ویسے ویسے اُس کے بدن کی طاقت بھی جواب دینے لگ جاتی ہے۔اور جو پُھرتی دن کے پہلے اور دوسرے حصے میں کام کرنے کی ہوتی ہے وہ دن کے اخیر حصے میں روزہ رکھنے کی وجہ سے نہیں رہ پاتی۔جس کی وجہ سے مزدور کچھ کام کرتا ہے اور کچھ ادھورا چھوڑدیتا ہے۔اِس پر کچھ دکاندار،کارخانے دار لوگ اپنے ماتحت مزدوروں کو سرزنش کرتے ہیں اور سخت و سست باتیں کہتے ہیں۔اخیر کار مزدور اپنی نوکری جانے کے خوف سے مجبور ہوکر روزہ،نماز اور تلاوت قرآن جیسی اہم عبادات چھوڑنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔حالانکہ مزدور کو مذکورہ اعمال ترک کرنے کا فیصلہ ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔لیکن پھر بھی اُس نے فیصلہ کرلیا تو انسانیت کی خاطر اگر کارخانے دار یہ سوچ لیں کہ مزدوروں کی سہولت کے لیے اور روزہ داروں کی رعایت کی خاطر ماہ رمضان میں چند میٹر کم چلوائیں اور عصر تک کارخانہ بند کردیں تو ان شاء اللہ رزاق کائنات رزق میں اُس سے زیادہ برکت کا نزول فرمائے گا۔روزہ کا دورانیہ ان دنوں کم و بیش تیرہ سے چودہ گھنٹے کا ہوتا ہے۔اب ظاہر سی بات ہے ایک انسان روزہ بھی رکھے اور محنت و مشقت بھی کرے تو دن کے اخیر حصے تک اُس میں طاقت باقی نہیں رہ جائے گی۔اِس لیے کارخانے دار اور دیگر ایسے پیشے سے تعلق رکھنے والے جن کے یہاں محنت اور مشقت کے کام ہوتے ہیں وہ مزدوروں کے ساتھ کچھ رعایت کرتے ہوئے ڈیوٹی کم کردیں تو مزدور بھی آسانی سے اپنے روزے،نماز اور تلاوت قرآن جیسی عبادات کو دلجمعی کے ساتھ مکمل کرسکیں گے۔اِس کے باوجود اگر کوئی اپنے ماتحت مزدوروں پر زیادتی کرتا ہے تو اِس سلسلے میں احادیث طیبہ میں جو وارد ہوا ہے اسے ملاحظہ فرمائیں چنانچہ حضرت ابو مسعود انصاری کہتے ہیں، ایک دفعہ میری ایک لونڈی بکریاں چرا رہی تھی کہ کچھ دیر وہ بکریوں سے بے پرواہ ہو گئی، اس کی بے پرواہی سے بھیڑیا آیا اور ایک بکری لے گیا۔ میں دیکھ رہا تھا، میں لونڈی کے پاس گیا اور غصے میں اسے زور سے تھپڑ مارا اور کہا بے پرواہ بیٹھی ہوئی ہو، بھیڑیا بکری لے گیا ہے۔ جب زور سے تھپڑ مارا تو پیچھے سے آواز آئی، ابو مسعود! اس کو تھپڑ مارنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ تم سے طاقتور بھی کوئی ہے جو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ نیچے والے پر ظلم کرتے ہوئے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ میرے اوپر بھی کوئی ہے۔اِس لیے دوکان کے مالکان اور کارخانے دار حضرات اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے ماہ رمضان میں ڈیوٹی کا وقت کم کردیں۔اللہ سب کے رزق میں برکتیں عطا فرمائے۔