اگر کسی شخص کو ماہ رمضان میں کسی قسم کی بیماری لاحق ہو جائے۔ چنانچہ شریعت نے مذکورہ شخص کو چھوٹ دے رکھا ہے۔ اس حالت میں روزہ نہ رکھے۔ لیکن شریعت کے مطابق جیسے ہی وہ شخص جسمانی طور پر تندرست ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اسے سال بھر کے کسی بھی مہینے میں چھوڑے ہوئے روزے پورے کرنے ہوں گے۔
شریعت میں جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دین اسلام کی پیروی کرنے والے کو شریعت کے مطابق روزہ رکھنا ہوتا ہے۔ لیکن جو شخص جسمانی طور پر مشغول ہو، کسی بیماری میں مبتلا نہ ہو، یا کسی قسم کے سفر پر نہ ہو اور وہ روزہ نہ رکھے۔ تو شریعت میں ان کے لیے الگ شرط ہے۔ جس کے مطابق مذکورہ شخص کے لیے سزا رکھی گئی ہے۔ شریعت کی رو سے یا تو وہ شخص ایک روزہ توڑنے یا چھوڑنے کے بدلے 60 مسکینوں کو کھانا کھلائے گا یا اسے مسلسل 60 روزے رکھنے ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کسی وجہ سے اس دوران میں کوئی دن نہ رکھ سکے تو شروع سے ہی روزہ رکھنا پڑے گا۔نوجوان موبائل سے دور رہیں، عبادت کریں:
مفتی اسد قاسمی نے کہا کہ رمضان کے مقدس مہینے میں اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ شریعت کے مطابق روزہ دار کو عبادت بھی کرنی چاہیے اور روزہ بھی رکھنا چاہیے۔ انہوں نے خاص طور پر نوجوانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آج کا نوجوان جس طرح موبائل کی دنیا میں دیوانہ ہو رہا ہے۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں نوجوان موبائل سے دور رہیں اور اللہ کی عبادت کریں۔