اصلاحی مضمون
تحریر مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ
سنہ۸/ھجری میں مکہ فتح ہوا٬تو قبیلے کےقبیلے مسلمان ہونے لگے،اورجوق در جوق لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہونےلگے٬یہ وہی مکہ ہے جہاں کےباشندگان کے ظلم وستم سے تنگ آکر حضورﷺاور آپ کے صحابہ کرامؓ کومدینہ ہجرت کرنی پڑی،آج اسی مکہ مکرمہ میں محض دس سال کے عرصے کے بعد آپﷺاپنے صحابہؓ کے ساتھ فاتحانہ داخل ہورہے ہیں، یہ سب کچھ محض فضل خداوندی ،حضورﷺکی اور آپ کے صحابہ کرامؓ کی شب و روز کی محنت و جدو جہد ،تبلیغ دین کی راہ میں پیش کی گئی،بیش بہا قربانیوں اور خصوصاً آپ کے اخلاق کریمانہ کانتیجہ تھا٬آج اسلام دشمن طاقتیں میڈیا کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ کرتی ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے،حالانکہ سچائی یہ ہے کہ اسلام تلوار نہیں٬اخلاق کے زور پر اور اپنی اعلیٰ تعلیمات کی بنیادپرپھیلا ہے،جس تلوار نے دنیا کے انسانوں کے دلوں کو فتح کیا٬وہ لوہے اور فولاد کی بنی ہوئی نہیں تھی،وہ تو اخلاق محمدیﷺکی تلوار تھی٬اور وہ عمدہ اخلاق یہی تھے :ظالموں کو معاف کردینا،ذاتی انتقام نہ لینا،گھر والوں کے ساتھ شفقت کامعاملہ کرنا،باہر والوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا٬غریبوں کی مدد کرنا٬محتاجوں کی خدمت کرنا،بیماروں کی مزاج پرسی کرنا٬بیواؤں کی خبر گیری کرنای٬یتیموں کا سہارا بننا،اور انسانیت کی خدمت کے لئے خود کو وقف کردینا٬گویا یہ زندگی اپنی نہیں،دوسروں کی ہے ۔ یہ ساری اچھی خوبیاں اور اعلیٰ اخلاق مکمل طورپرآپﷺکے اندر موجود تھے ۔مکہ مکرمہ کی فتح اور لوگوں کا فوج در فوج اسلام میں داخل ہونا،آپﷺکے اخلاق کریمانہ کا نتیجہ تھا۔ قرآن کریم میںﷲپاک کا ارشاد ہے: اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔(سورہ قلم،آیت:۳)آپﷺاخلاق کے اعلیٰ پیمانے پر قائم تھے ۔ جب مکہ فتح ہوا اس موقع پر سارے مجرمین جو آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں دیاکرتے تھے ۔ وہ لوگ جو حضرت سمیہؓ کے قاتل تھے٬حضرت بلالؓ کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹنے والے تھے،حضرت عمار ابن یاسرؓ٬حضرت خباب ابن ارتؓ کو انگاروں پر لٹانے والے٬اور حضورﷺکی بڑی صاحبزادی حضرت زینبؓ کو نیزہ مار کر اونٹ سے نیچے گرانے والے اور ان کو شہید کرنے والے تھے ۔ایسے تمام جانی دشمن اور باغیانِ اسلام آج سر جھکائے آپﷺکے سامنے کھڑے تھے ۔اور ہزاروں صحابہ کرام کی تلواریں ان کی گردن اتارنے کی منتظر تھیں،کہﷲکے رسولﷺکی زبان سے اشارہ ملے اور ان مجرموں کو قتل کر کے ان کے انجام تک پہنچادیاجائے ۔ جوش سے بھرے ہوئے ایک صحابیؓ کی ایک زبان سے اس موقع پر یہ جملہ نکلا:’’اَ لْیَوم یَوْمُ الْمَلْحَمۃِ،اَلْیَوْم تُسْتَحَلُّ الْکَعْبَۃُ‘‘کہ آج تو بدلے کا دن ہے،آج خون بہایاجائے گااور کعبہ کی حرمت کچھ دیر کے لئے اٹھالی جائے گی۔ﷲکے پیارے نبیﷺنے جب یہ سنا تو ارشاد فرمایا: اَلْیَوْم یَوْمُ الْمَرْحَمَۃِ،یعنی آج بدلہ لینے کا دن نہیں٬بلکہ رحم کرنے کا دن ہے،آج کا دن معاف کرنے اور انتقام نہ لینے کا دن ہے۔ سارے مجرمین سر جھکائے منتظر کھڑے ہیں کہ آج ان کی زندگی کا کیا فیصلہ کیاجائے گا۔حضورﷺنےان سے پوچھا :بتاؤ! تمہارے ساتھ کیاسلوک کیاجائے؟ انہوں نے کہا: آپ شریف باپ کے شریف بیٹے ہیں٬اور کریم بھائی ہیں،اور ہمیں آپ سے شرافت ہی کی امید ہے٬حضور ﷺ نے فرمایا: ’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں، آج میں بھی تم سے وہی کہوں گا جو میرے بھائی یوسفؑ نے اپنے مجرم بھائیوں سے کہا تھا، لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ آج تم سے کوئی باز پرس نہیں کی جائےگی ،اِذْھَبُوْاوَاَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ جاؤ! آج تم سب کے سب آزاد ہو
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جودلوں کوفتح کرلے وہی فاتح زمانہ
افسانہ
قابل مذمت
نورمحمد برکاتی ۔ مالیگاؤں
رمضان کے مبارک مہینے کے باعث مرکزی حکومت نے کشمیر میں سیزفائر کا اعلان کیا تھا حالانکہ یہ یک طرفہ اعلان تھا لیکن اس کا بھی فائدہ ہوا اور پہلا عشرہ بنا کوئی کشیدگی کے گزرگیا آج دوسرے عشرے کا پہلا جمعہ تھا اور جمعہ ہونے کے باعث مسلمانوں کی بڑی تعداد کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں نماز ادا کررہی تھی ۔تاریخی جامع مسجد کا علاقہ عام طور پر حساس علاقوںمیں شمار کیا جاتا تھاجہاں سے تشدد آسانی سے بھڑک جایا کرتا تھا چناں چہ نمازکے اوقات میں یہاں بہت سی فوجی تکڑیوں کو پیٹرولنگ کرنا پڑتی تھی ہر تکڑی کا وقت طئے تھا جس کے مطابق وہ تکڑی پیٹرولنگ کرتی تھی میری تکڑی کی پیٹرولنگ جمعہ کی نماز کے بعد ہوا کرتی تھی چناں چہ میں نے تیاری کی اور اپنی تکڑی کی جیپ میں جاکر بیٹھ گیاڈرائیور سکھبیر ،ہرک چند،لال سنگھ،بیریندر اور دوسرے فوجی پہلے ہی سےگاڑی میں موجود تھے میجر چندر کانت کاانتظار ہورہا تھا جوکہ تیزی سے جیپ کی جانب آرہا تھا وہ جلد ہی جیپ تک آگیا اوراس کے جیپ میں بیٹھتے ہی سکھبیر نے گاڑی اسٹارٹ کی اور جامع مسجد کی راہوں پر جیپ کو دوڑا دیا۔جلد ہی ہم جامع مسجد کے قریب پہنچ گئے لیکن ہم نے دیکھا کہ جامع مسجد کے اہم دروازے کے پاس عوام کا جم غفیر جمع ہے اور وہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر اور چیخ چیخ کر حکومت کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔کچھ مظاہرین کے ہاتھوں میں اینٹیں اور پتھر بھی تھے۔سکھبیر نے گاڑی کی رفتار انتہائی سست کردی بلکہ یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ اس نے جیپ صرف اسٹارٹ ہی رکھی تھی۔ ہم سبھی جانتے تھے کہ اس نے گاڑی کی رفتار کیوں اتنی سست کی ہے ۔ماضی میں بارہا تلخ تجربات ہوئے تھے جب ہماری جیپ پر مظاہرین نے پتھراور اینٹ کی برسات کی تھی۔چناں چہ سکھبیر کے گاڑی کی رفتار انتہائی کم کرنے پر ہرک چند نے میجر چندر کانت سےکہا۔ ۔ ۔
‘‘میجر۔۔۔۔میری مانیں تو دوسرے راستے سے واپس چلتے ہیں۔۔۔۔مظاہرین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔۔۔’’
‘‘اگر ان کی تعداد زیادہ ہے تو کیا ہم اپنی ڈیوٹی سے منہ موڑ لیں گے ہرک چند۔۔۔۔۔۔’’میجرچندر کانت نے تلخ لہجے میں کہا۔
‘‘بالکل نہیں سر۔۔۔۔۔بالکل نہیں ۔۔۔میں تو صرف اس لیے کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔’’
‘‘کہ تمہیں کوئی بھی جسمانی نقصان نہ ہو اور تم محفوظ رہتے ہوئےاپنے ٹھکانےپر پہنچ جاؤ ۔۔۔۔۔ہیں نا۔۔۔۔’’
‘‘بالکل نہیں سر۔۔۔۔۔۔ میں تو بس یہ چاہ رہا تھا کہ ٹکراؤ کی نوبت نہ آئے کیونکہ ٹکراؤ میں نقصان دونوں جانبین کا ہوتا ہے۔۔۔’’
‘‘ہرک چند اب ٹکراؤ ہو یا نا ہو ہمیں تو اپنی ڈیوٹی نبھانی ہے۔۔۔۔۔’’
‘‘سر ۔۔۔۔۔کیوں نہ انھیں مظاہرین میں سے کسی کو پکڑ کر جیپ کے آگے باندھ دیا جائے ۔۔۔۔۔اس کے بندھے ہونے سے مظاہرین جیپ پر پتھراؤ نہیں کریں گے۔۔۔۔۔’’بیریندر نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
‘‘یہ بزدلی ہوگی کہ ہم اپنے تحفظ کے لیے کسی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کریں۔۔۔۔’’میجر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
‘‘لیکن میجر سریندرنے تو یہی حکمت عملی اختیار کی تھی۔۔۔’’ ہرک چند نے کہا۔
‘‘دیکھو میجر سریندر نے جو کیا وہ خود اس کا ذمہ دار ہے اور ہماری حکومت خود جانتی ہے کہ اس قسم کی حرکت بزدلی تو ہوسکتی ہےمگر حکمت عملی نہیں ہوسکتی لیکن حکومت اس کا اظہار سرکاری طور پر نہیں کرسکتی کچھ مسائل کی وجہ سے ۔۔۔۔۔سمجھے تم ۔۔۔۔’’
‘‘جی ۔۔۔تو پھر کیا کیا جائے۔۔۔۔۔’’ہرک چند نے کہا اور ہم سبھی سوالیہ نظروں سے میجر کی جانب دیکھنے لگے ۔
‘‘ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں گے ۔۔۔۔۔سکھبیر تم جیپ کی رفتار کو تیز کرو۔۔۔۔۔مسجد کے دروازے کے پاس جیپ کی رفتار مزید تیز کردینا تاکہ ہم ٹکراو سے بچ سکیں’’۔
‘‘اوکے سر۔۔۔’’سکبھیر نے کہا اور جیپ کی رفتار بڑھا دی ۔جیپ جیسے ہی جامع مسجد کے دروازے کے پاس پہنچی ہماری جیپ پر پتھر اور اینٹ آنے شروع ہوگئے ہم سبھی کو ایک دو پتھر اور اینٹ لگ چکے تھےکہ اچانک پتھراو سے بچنے کے لیے سکھبیر نے جیپ کی رفتار بہت زیادہ بڑھادی لیکن جیپ کے آگے بھیڑ اتنی تیزی سے ہٹ نہ سکی جس کے نتیجے میں دو نوجوان جیپ کے نیچے آگئے۔ہم جیپ سے فورا کودے اور اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے ۔وہ تو خیر ہو کہ ہمیں زیادہ دوڑنا نہیں پڑا کہ فوج کی ایک دوسری گاڑی ہمیں مل گئی جس کی مدد سے ہم اپنے ٹھکانے واپس لوٹ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن میجر چندر کانت و سکھبیر کے خلاف کورٹ آف انکوائری کا حکم صادر ہوا ۔جس میں تحقیقات کے بعد ان دونوں کو کلین چٹ دی گئی میں حیرت زدہ سا میجر چندرکانت کے پاس گیا اور ان سے اس معاملے میں بات کی۔۔۔۔۔
‘‘بہت مبارک ہو سر۔۔۔۔۔۔آپ کو اور سکھبیر کو کلین چٹ مل گئی ۔۔۔۔۔۔لیکن سر ایسا کیسے ممکن ہوگیا ۔۔۔۔۔جیپ کے نیچے آنے والے دونوں ہی شہری مرگئے تھے پھر کیوں کورٹ آف مارشل کی سفارش نہیں کی گئی؟؟؟؟’’
‘‘کیونکہ وہ نوجوان کشمیری تھے۔۔۔۔۔۔۔’’میجر چندر کانت نے جواب دیا۔۔۔۔۔
___________________
غزل
الطاف ضیاء مالیگاؤں
وہ عیب نہیں مجھ میں ہنر ڈھونڈ رہے ہیں
دشمن مری دیوار میں در ڈھونڈ رہے ہیں
میں پاس تھا انکے تو مری قدر نہیں تھی
اب مجھ کو اٍدھر اور اٌدھر ڈھونڈ رہے ہیں
سورج کا گلا کاٹ کے شمشیر ٍ انا سے
کچھ لوگ چراغوں میں قمر ڈھونڈ رہے ہیں
ہر موڑ پہ موجود ہے صیاد یہاں پر
معصوم پرندوں کو شجر ڈھونڈ رہے ہیں
دریا میں اترنے کا سلیقہ نہیں جنکو
نادان ہیں ساحل پہ گہر ڈھونڈ رہے ہیں
ہم لوگ نمازوں کے بھی پابند نہیں ہیں
اور اپنی دعاؤں میں اثر ڈھونڈ رہے ہیں...
____________
غزل
اسد ہاشمی مالیگاوں
وہ آج وعدے سے اپنے اگر مکر جائیں
تو دل میں جتنے ہیں ارمان سارے مرجائیں
کسی طرح کی بھی زحمت نہ دیں زمانے کو
شریف لوگوں سے کہیئے کہ خود سدھر جائیں
یہاں سوالوں جوابوں کا سلسلہ ہے شروع
یہ اختتام کو پہنچے تو ہم بھی گھر جائیں
لبوں پہ روک کہ رکھو ہنسی کے فوارے
نہ ا شک بن کے کہیں رخ پہ یہ بکھر جائیں
ہمیں نہ ہوگا تعجب تمہاری دید کو جو
یہ چاند تارے زمیں پر اگر اتر جائیں
ہزار نظریں ترستی ہے اس نظر کو اسدؔ
کہو کہ ڈال کہ ہم پر وہ اک نظر جائیں
16/3/2021