راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت اور اکھلیش یادو
اتواریہ:شکیل رشید سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش سنگھ یادو کو ، راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت چھِن جانے کا افسوس ہے ۔ اور افسوس ہونا بھی چاہیے ، کیونکہ ایک جمہوری ملک میں بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ، یا یہ کہہ لیں کہ مودی سرکار نے ، جس غیر جمہوری اندازمیں اپوزیشن کو بے دست و پا کرنا شرو ع کیا ہے ، اس پر اکھلیش یادو جیسے جمہوریت پسند سیاست داں افسوس نہیں کریں گے ، تو کیا کوئی بی جے پی کا لیڈر افسوس کرے گا ! دو دنوں میں وہ کئی بار بول چکے ہیں کہ حکومتی اداروں پر دباؤ ڈال کر اپوزیشن کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ جمعہ کے روزانہوں نے راہل گاندھی کی رکنیت ختم کرنے کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ بی جے پی کے نہ جانے کتنے لیڈر ہیں جنہوں نے ایسے بیانات دے رکھے ہیں کہ اُن کی رکنیت جا سکتی ہے ۔ بات سچ ہے ، لیکن اکھلیش یادو سے ، اور ان ہی کی طرح اُن دوسرے سیکولر کہے جانے والے سیاست دانوں سے ، سوال ہے کہ یہ آپ لوگ اس وقت کیوں جاگتے ہیں جب چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتی ہیں ؟ اتر پردیش میں یوگی کی سرکار یہ کام ، جو اب مرکزی سرکار کر رہی ہے ، پہلے ہی سے کرتی آ رہی ہے ۔اکھلیش جی ! آج آپ راہل گاندھی کے نام کے ساتھ اعظم خان کا نام لے رہے ہیں ، لیکن اُس وقت جب اعظم خان ستائے جا رہے تھے ، جب اُن کی پارلیمینٹ کی رکنیت چھینی جا رہی تھی ، جب اُن کے بیٹے عبداللہ اعظم کی اسمبلی کی رکنیت چھینی جا رہی تھی ،تب کیوں آپ اس قدر سرگرم نہیں ہوئے تھے ؟ اعظم خان کوئی معمولی لیڈر نہیں ہیں ، سماج وادی پارٹی کو بنانے میں ان کا ایک اہم کردار رہا ہے ،لیکن وہ ایک طویل عرصہ تک کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیے جاتے ہیں ، اور سماج وادی پارٹی اور اکھلیش جی آپ خاموش رہتے ہیں ! اگر اس وقت ریاست گیر اور ملک گیر مہم چلائی جاتی ، بی جے پی اور یوگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی جاتیں ، تو حالات اس قدر خراب نہ ہوتے جس قدر کہ آج خراب ہیں ۔ کیا یوگی پر فسادات کے مقدمات کے باوجود آپ کی حکومت نے انہیں نہیںبخشا ، کیا مظفر نگرفسادات کے زعفرانی فسادی آپ کی حکومت میں آزاد نہیں رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ کیا آپ اور کیا کانگریس ، کسی نے بھی ،جب فرقہ پرستوں کے خلاف کچھ کرنے کا موقعہ تھا ، کچھ نہیں کیا ۔ اور اس لیے نہیں کیا کہ کہیں آپ کو ’ مسلمانوں کا ہمدرد ‘ نہ سمجھ لیا جائے ۔ آپ سب ’ نرم ہندوتو ‘ کا مظاہرہ تو کرتے رہے لیکن مسلمانوں کے ساتھ کبھی کھڑے نظر نہیں آئے ۔ راہل بھی ، یہی کرتے رہے ۔ افسوس یہ ہے کہ بی جے پی اور زعفرانی ٹولے کو مضبوط اور طاقتور کرنے کا کام ان سیاست دانوں نے کیا ہے ،جو اپنے سیکولر ہونے کا دعویٰ اس طرح سے کرتے پھرتے ہیں ،جیسے کہ سارا سیکولرزم ان پر ہی آ کر ختم ہو گیا ہے ۔ پھر چاہے وہ ممتا بنرجی ہوں یا کہ مایا وتی یا وہ سارے سیاست داں جو این ڈای اے کا حصہ رہے ہیں ،اور بی جے پی کو مضبوط کرنے کا سبب بنے ہیں ۔ خیر جو گزر گئی اسے بھول جانا چاہیے ، پھر سے ابتدا کرنی چاہیے ، اور ابتدا کرنے کے لیے راہل گاندھی کی رکنیت کا چھین لیا جانا ، ایک بہترین موقع ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ بی جے پی کبھی کسی کابھلا نہیں کر سکتی ۔ وہ کسی کا بھلا کرنے کی سوچ تک نہیں سکتی ہے ۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ راہل معاملہ میں سارا اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر آئے ، اور ایک ایسی تحریک شروع کرے جو واقعی ’ جمہوریت کی بقا ‘ کے لیے ہو ۔اکھلیش جی ! آپ بھی ، اس لیے کہ آج آپ ممتا کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں ، اور اپنی کھچڑی الگ پکا رہے ہیں ۔ ایک بات مزید : مسلمان خوب جانتا ہے کہ اس کا بھلا کون چاہتا ہے اور بُرا کون ، اس لیے خود کو سیکولر کہلانے والے سیاست داں یہ سمجھنے کی بھول نہ کرکریں کہ وہ ہمیشہ مسلمانوں کو الّو بنا کر ان کے ووٹ لیتے رہیں گے ۔ مسلمان یہ بھی کر سکتے ہیں کہ ووٹ ہی نہ دیں ۔ اگر ایسا ہوا تو مسلمان اپنا نقصان جھیل لیں گے مگر یہ سیکولر کہلانے والے سیاست داں کہیں کے نہ رہیں گے ۔مودی حکومت ان کا کیا حشر کرے گی یہ خوب جانتے ہیں ۔
دیویندر ستیارتھی 28 مئی 1908 کو بھدوڑ، ضلع سنگرور، پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ انہوں ے اردو میں 106 کے قریب افسانے لکھے جسے ناقدین نے پسندیدگی کا درجہ بخشا۔ تخلیقی سطح پر دیوندر ستیارتھی نے اپنے افسانوں میں افسانوی اور غیر افسانوی اصناف کی مختلف خوبیوں کو یکجا کرکے افسانوں کو ایک نئی جہت عطا کی ۔ دیوندر ستیارتھی شہرہ آفاق افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے معاصر تھے۔ ان کے موضوعات منٹو کے موضوعات سے ملتے جلتے تھے مگر ان کا اسلوب منٹو سے بالکل مختلف ہے اور ان دونوں کے افسانوں میں موضوعات کی یکسانیت کے سوا دوسری مماثلت مشکل سے ہی ملتی ہے۔ دیوندر ستیارتھی کے ہاں طنز و تمسخر کی بجائے ہمدردی اور درد کو برتنے کا احساس نظر آتا ہے۔ ان کے ایک اور ہمعصر افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی اردو افسانے کا بڑا نام ہیں۔ دیوندر ستیارتھی کے ابتدائی افسانوں پر پریم چند کا اثر واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے مگر وہ اس اثر سے جلد باہر آ گئے اور اپنا منفرد اور ممتاز اسلوب قائم کرنے میں کامیاب رہے . بلراج مین را سے بھی انہوں نے اثر قبول کیا اور ان کا اسلوب بلراج سے کافی قریب دکھائی دیتا ہے۔ عبدالسمیع نے اپنی کتاب "دیوندر ستیارتھی : شخصیت اور آثار " نگری نگری پھرا مسافر" میں لکھتے ہیں
"موضوع اور بیانیہ کا جتنا تنوع ستیارتھی کے یہاں ہے وہ کسی ایک افسانہ نگار کے ہاں شاید ہی ملے ۔"
ستیارتھی نے 2003 میں وفات پائی ۔
عالمی افسانہ فورم کے قارئین کے لیے ان کا ایک افسانہ پیش ہے
انگور پک گئے🔴دیویندر ستیارتھی
🖼️ٹایپنگ انتخاب :- احمد نعیم ۔ مالیگاؤں 🔵
بنسری اپنی کوکھ میں نہ جانے کتنے خوابیدہ سر ، نہ جانے کتنے نیم بیدار رنگ جذب کرتی ہوئی ایک اچھوتے نغمے کو جنم دیتی ہے - یہی حال تخیل کا ہے - جو دھرتی کی ہی جانب دیکھنے پر مجبور ہے - جو ہل کی لکیروں کا جائزہ لیتی ہوئی آنے والی فصلوں کی تصویر پیش کرتی ہے - میں انھیں خیالات میں کھویا ہوا تھا جبکہ مجھے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ایک شرنارتھی دکاندار کی ٹوکری میں کچھ بھٹےّ نظر آگئے - میں سچّ کہتا ہوں کہ یہ بھٹےّ دیکھ کر مجھے بےحد خوشی ہوئی - بھاؤ پوچھنے کی میں نے چنداں ضرورت نہیں سمجھی - جیب سے رومال نکال کر بچھا دیا - دکاندار نے مجھے سے پوچھے بغیر ہی ایک سیر بھٹےّ تول کر رومال پر ڈالا دیے
"کتنے پیسے ہوئے سردار جی ؟" رومال میں بھٹےّ لپیٹ کر اسے گانٹھ دیتے ہوئے میں نے پوچھ لیا -
نہ زیادہ نہ کم پورے چھ آنے
اس نے جواب دیا،.... جیب سے پیسے نکال کر میں نے اس کے ہاتھ پر رکھ دیے اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا - 'نہ زیادہ نہ کم پورے چھ آنے' دکاندار کا بول میرے دل میں برابر چبھتا رہا - یہ سب کہنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟'نہ زیادہ نہ کم ،کہے بغیر کیا اس کا کام نہیں چل سکتا تھا ؟؟بلکہ "پورے چھ آنے کہنے کے بجاے ،چھ آنے ،کہنا ہی کافی ہوتا - ہمارے لوگ کتنے بیکار الفاظ استعمال کرتے ہیں ،کتنے بیکار رنگ انڈلیتے ہیں! نہ جانے میرے تخیل کو کیا سوجھا کہ چلتے چلتے یوں محسوس ہوا کہ میں کسی گانو میں پہنچ گیا ہوں اور کوئی پوچھ رہا ہے ____اس رومال میں کیا ہے بھٹےّ ؟؟الٹے بانس بریلی کو! بھٹوں کو یہاں گانوَ میں پہلے ہی کیا کچھ کمی تھی کہ یہ تکلیف اٹھائی...... جیسے میں من ہی من میں بری طرح شرمندہ ہوگیا اور یہ سوچ کر کہ یہ بھٹےّ وہ بھٹےّ تو ہرگز نہیں جو اپنے ہاتھوں سے توڑ کر سیدھے کھیت سے لائے گئے ہوں بلکہ یہ تو چھ آنے سیر والے بھٹےّ ہیں ، میں بری طرح لاجواب ہوگیا - جی میں تو آیا کہ واپس جاکر یہ بھٹےّ سردار جی کی ٹوکری میں پھینک آؤں اور کہوں ________یہ پورے چھ آنے سیر والے بھٹےّ میرے کام کے نہیں ،مجھے تو وہ بھٹےّ چاہیے جو جن کا ذکر ِ خیر لوک گیت میں بھی گونج اٹھا ہے _______"میرا یار مکیّ دی راکھی ،ڈب وچ لیا وے جھلیاں! ،(میرا محبوب مکئی کے کھیتوں کا رکھوالا ہے وہ اپنی دھوتی کی پھینٹ میں بھٹےّ چھپا کر لاتا ہے) لیکن میرے پاؤں پیچھے کی طرف پلٹنے کے عوض آگے کی طرف بڑھتے چلے گئے - گھر پہنچ کر میں نے ان بھٹوں کو آگ پر بھوننے کی تاکید کی ، کوئلوں کی آگ پر بھونے ہوے بھٹےّ ،اور وہ بھی پورے چھ آنے سیر والے بھٹےّ ،محبوب کی دھوتی کی پھینٹ میں چھپا کر لائے ہوے بھٹےّ نہیں ، پھر بھی بہت مزے دار لگے -
اگلے روز میں سردار جی کی دکان پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جس ٹوکری میں کل بھٹےّ تھے آج انگور گھچے پڑے ہیں ، میں نے ہنس کر کہا - "ہم تو بھٹوںّ کے گاہک ہیں سردار جی!" انگورؤں کے نہیں - "
" بنے ٹھنے بھٹوں نے آپ کا کیا سنوار ہے اور بیچارے انگوروں نے کیا بگاڑا ہے "؟؟دکان دار نے ہنس کر پوچھ لیا -
میں اس کا کیا جواب دے سکتا تھا ؟ہاں میں نے اتنا ضرور کہا" اب انگور ہی لینے پڑیں گے - ہم تو اس ٹوکری سے یارانہ گانٹھ چکے ہیں سردار جی "!
دکان دار کی آنکھوں میں ایک چمک تھرک اٹھی - بولا شکر ہے واہگورو کا کہ ابھی تک ایسے گاہک موجود ہیں آپ ہمارے گا نو آئے ہوتے تو میں آپ کو اتنے انگور کھلاتا کہ آپ کی طبیعت خوش ہوجاتی -" آپ چاہیں تو اس ٹوکری سے بھی مجھے پیٹ بھر انگور کھلا سکتے ہیں سردار جی میں نے اچھل کر کہا" لیکن یہ وہ انگور تو نہیں ہیں جو آپ کو اپنے گانو میں کھلا سکتا تھا وہ انگور اور تھے ،یہ اور انگور ہیں "-
دوکان دار کی آواز میں جدائی کے سر گونج اٹھے جو بنسری کے نغمے میں رنگ بھر دیتے ہیں
میں نے کہا "کیوں ان انگوروں میں بھی تو رس ہوگا یہ بھی میٹھے ہوں گئے"
" آپ بھی کیا بھولی باتیں کرتے ہیں جی! دوکان دار نے گویا تخیل کی کوچی تیزی سے تصویر پر پھیرتے ہوے کہا -" یہ انگور بھلا ان انگوروں کا کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں ؟"-
میں انتظار میں تھا کہ وہ انگوروں کا بھاؤ بتاے میں کس قدر خوش ہورہا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ پورے تین روپے سیر کا بھاؤ بتاے گا شاید ڈھائی روپے سیر پر ہی مان جاے گا -
وہ کہہ رہا تھا "لاکھوں خوشبویں اپنی کوکھ میں چھپا کر رکھنے والی دھرتی تو پیچھے رہ گئی جس پر انگور پیدا ہوتے ہیں"
مجھے دوکان دار کی ناامیدی اچھی نہیں لگی آخر وہ کیا ثابت کرنا چاہتا ہے ،یہ بات میں سمجھ نہیں سکتا تھا - میں نے کہا "آخر یہ انگور اسی دھرتی سے آئے ہوے ہیں پہلے بھی اسی طرح آتے تھے اتنا کیا فرق پڑ گیا! بہت فرق تو پڑ بھی نہیں سکتا - "جی ہاں یہ تو ٹھیک ہے" وہ کہہ رہا تھا" "بہت فرق نہیں پڑ سکتا - آپ سچ کہتے ہو لیکن کبھی میں ان ہاتھوں سے انگور اگاتا تھا"
"آپ انگور اگاتے تھے سردار جی! "
" میں نے پوچھا
"کیسے اگاتے تھے انگور ؟کچھ ہمیں بھی تو بتاؤ بھولے بادشاہ سردار جی"
"اب وہ دھرتی پیچھے رہ گئی جہاں میں نے چن چن کر انگور کی بیلیں لگائی تھیں - ہوسکتا ہے آپ کو آج یقین بھی نہ آے - آج آپ کو یقین آ بھی کیسے سکتا ہے ؟آج ہم اپنے گھر کے بادشاہ نہیں رہے ________آج ہم فٹ پاتھ کے دکان دار بن گئے ہیں! "
"یقین کیسے آئے گا سردار جی" ؟آپ کو جھوٹ بولنے کی کیا پڑی ہے ؟لیکن ایک بات تو بتاؤ ،کیوں وہ انگور کی بیلیں یہاں نہیں لگائی جاسکتیں ؟"
میں نے دیکھا دوکان دار کے چہرہ پر ایک رنگ آرہا تھا ، ایک رنگ جارہا ہے ، شاید وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ سرکار اس سلسلے میں کیا کرنا چاہتی ہے وہ جانتا تھا کہ وہاں کی آب و ہوا کو یہاں نہیں لاسکتی جو انگور کی فصل کے لیے بےحد ضروری ہے
میں نے اس کا حوصلہ بڑھا نے کے لئے کہا "سائنس دانوں کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ نئے حالات کو دیکھتے ہوے اس دھرتی پر انگور کی سہولت مہیا کرنے میں ہماری مدد کریں سرکار ان سے ضرور مدد لے گی -"
کئی گاہک آئے ، کئی گئے میں ڈٹ کر کھڑا رہا - بازار میں بہت بھیڑ تھی نہ جانے کتنی آوازیں اس شور میں خلط ملط ہورہی تھیں
میں دوکان دار سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اگر سچ مچ اس کا اپنا باغیچہ تھا تو وہ یہ کیوں نہیں بتاتا کہ انگور کی بیلوں پر بور آتے دیکھ کر اس کا دل کس طرح اچھل پڑتا تھا - پھر جب یہ بور کچےّ دانوں میں بدل جاتا تو اسے کتنی خوشی ہوتی تھی - جس جس درخت پر انگور کی بیلیں چڑھتی تھیں وہ اسے کتنے پیار ے لگتے تھے اور جب کہیں کہیں پھل کے بوجھ سے بیلیں نیچے کو ڈھلک آتی تھیں تو وہ اس کے دل پر کیسا جادو سا ہو جاتا تھا ایسے ایسے نہ جانے کتنے سوالات میرے ہونٹوں سے پلٹ گئے میں نے اتنا بھی نہ پوچھا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ جب بور کچےّ دانوں میں بدل جائے تو ایسی دھوپ پڑے جس سے دانوں کا رنگ بدل جائے میں یہ بھی پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ دھوپ کیسی ہوتی ہے جو اپنی طاقت سے سبز دانوں کو کچھ کچھ سرخی مائل کر دیتی ہے -
انگور لوں یا نہ لوں ، بس یہی سوال ہوتا تو میں نے کھبی کا فیصلہ کرلیا ہوتا ، لیکن میرا ذہین تو تخیل کے تانے بانے سے الجھ کر رہ گیا - کوئی اور وقت ہوتا تو شاید میں یوں بالکل نہ سوچتا - سامنے ٹوکری میں انگور پڑے تھے - اپنے ذہن کو ایک جھٹکا دے کر یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ ابھی اور کتنی دیر لگے گی
وہ کہہ رہا تھا "یہ انگور اتنے میٹھے تو نہیں ہو سکتے جتنے کہ میرے اپنے باغیچے والے انگور!"
"لیکن ہے تو یہ بھی انھیں انگور ں کے بہن بھائی!"
میں نے کہا "وہ انگور ان سے ذرا زیادہ سرخی مائل نظر آتے ہوں گے ، ذرا زیادہ رسلیے ہوں گے!"
دوکان دار نے اس کا کچھ جواب نہ دیا اتنے میں ایک گاہگ آگیا وہ اُس سے باتیں کرنے لگ گیا اس کے سامنے وہ ان انگورؤں کی بےحد تعریف کرتا چلا گیا اور آخر آدھ سیر بیچنے میں کامیاب ہوگیا
میں نے کہا" آدھا سیر انگور میرے لیے بھی تول دو ، سردار جی! چھوڑو یہ باتیں کہ وہ انگور اور تھے اور یہ انگور اور ہیں!"
انگور لے کر میں نے رومال میں رکھ لیے اور پوچھا
" کتنے پیسے ہوے سردار جی ؟"
"نہ زیادہ نہ کم ، پورا ڈیڑھ روپیہ!"
ڈیڑھ روپیہ اس کے ہاتھ پر رکھ کر میں اپنے گھر کی طرف چل پڑا -
اگلی صبح اس کی دوکان پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پھر اس کی ٹوکری میں انگوروں کے عوض بھٹےّ پڑے ہیں شاید وہ سمجھ گیا کہ میں شکایت کرنے آیا ہوں وہ کہہ رہا تھا
" میں نے انگور بیچنے کا خیال نکال چھوڑا ہے اپنے دل سے - لے لو نٹ کھٹ بھٹےّ جتنے چاہو ، چھوڑو بیچارے انگوروں کا خیال جو کھٹے بھی نکل سکتے ہیں -"
میں نے اس کا من رکھنے کے لیے کہا
"لیکن تمہارے انگور تو بہت میٹھے ہیں -"
"میں کیسے یقین کرلوں" ؟وہ کہہ رہا تھا
"یہ انگور ان انگور ان انگوروں کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں ؟وہ انگور جن کی بیلیں مجھے بار بار پکارتی تھیں ______آؤ سردار جی ، انگور پک گئے! وہ انگور اب میں کہاں سے لاؤں"
"بھٹےّ اپنی جگہ ہیں سردار جی ، انگور اپنی جگہ ، میں نے کہا
"انگوروں پر آپ کی ناراضگی تو ٹھیک نہیں -"
وہ جھٹ ساتھ ساتھ والی دکان میں گیا اور وہاں سے انگوروں کی ٹوکری لیتا آیا اس کی آنکھوں میں چمک تھی شاید وہ کہنا چاہتا تھا کہ انگور آخر انگور ہیں خواہ وہ کسی قدر کم میٹھے ہی کیوں نہ ہوں - گحھچے اٹھا اٹھا کر مجھے دکھاتا رہا میں سمجھ گیا کہ اس کے تخیل میں اس کے باغیچہ کی تصویر ابھر رہی ہے اور وہاں کی ایک ایک بیل کہہ رہی ہے - _________انگور پک گئے!
شاید وہ کہنا چاہتا تھا کہ ایک دن آے گا - یہاں بھی بیلوں پر بور آے گا - ، یہاں بھی وہ چن چن کر انگوروں کی بیلیں لگاے گا - یہاں بھی بیلوں پر بور آے گا ،یہاں بھی یہ بور کچے ّ دانوں میں بدل جاے گا اور پھر کچے دانوں پر دھوپ پڑے گی - انگور کے دانے سرخی مائل ہوتے چلے جائیں گے اور پھر گویا دھرتی خود اپنے منھ سے پکار اٹھے گی _____انگور پک گئے!
--------------------
🔴(آج کل" نئی دہلی دسمبر 1948)
مرتبہ 🔵عبد السمیع دہلی
__________
جون ایلیا کی انوکھی غزل ایک انوکھی ردیف میں::
یہ غم کیا دل کی عادت ہے؟ نہیں تو
کسی سے کچھ شکایت ہے؟ نہیں تو
ہے وہ اک خوابِ بے تعبیر اس کو
بھلا دینے کی نیت ہے؟ نہیں تو
کسی کے بن ،کسی کی یاد کے بن
جیئے جانے کی ہمت ہے؟ نہیں تو
کسی صورت بھی دل لگتا نہیں ؟ ہاں
تو کچھ دن سے یہ حالت ہے؟ نہیں تو
ترے اس حال پر ہے سب کو حیرت
تجھے بھی اس پہ حیرت ہے؟ نہیں تو
وہ درویشی جو تج کر آ گیا تو
یہ دولت اس کی قیمت ہے؟ نہیں تو
ہم آہنگی نہیں دنیا سے تیری
تجھے اس پر ندامت ہے؟ نہیں تو
ہوا جو کچھ یہی مقسوم تھا کیا
یہی ساری حکایت ہے ؟ نہیں تو
اذیت ناک امیدوں سے تجھ کو
اماں پانے کی حسرت ہے ؟ نہیں تو
تو رہتا ہے خیال و خواب میں گم
تو اس کی وجہ فرصت ہے ؟ نہیں تو
وہاں والوں سے ہے اتنی محبت
یہاں والوں سے نفرت ہے؟ نہیں تو
سبب جو اس جدائی کا بنا ہے
وہ مجھ سے خوبصورت ہے؟ نہیں تو
جون ایلیا
__________
ریزہ ریزہ بہار بھی، مَیں بھی !
خواہشِ زلفِ یار بھی، مَیں بھی !
لمحہ لمحہ، صدی صدی جیسے
اُف! تِرا انتظار بھی، مَیں بھی !
قصرِ جاناں سے صبح لَوٹے ہیں
حضرتِ ذی وقار بھی، مَیں بھی !
کیا زمانے کو منہ دکھائیں گے
نغمۂ داغ دار بھی، مَیں بھی !
نیل کی وادیوں سے پھر اٹھّے
کوئی شعلہ شعار بھی، مَیں بھی !
تیری آمد کے منتظر سب ہیں
موسمِ خوشگوار بھی، مَیں بھی !
🍁 *منصـــــور اکبر* 🍁
🔵انتخاب 🔴تنویر اشرف مالیگاؤں
تنـــــــــویـــــــر اشــــــــرف