*قدرت کے انمول شاہکار، سیاحت کا عظیم مرکز، خوبصورتی میں بے مثال نینی تال*
*---۰=۰---۰=۰---۰=۰---۰=۰---۰=۰---۰=۰---*
*اترا کھنڈ کی قانونی و جمہوری راجدھانی نینی تال میں گذارے ایک دن کی روداد*
*نینی تال(احرار نیوز نیٹ ورک) 28,اپریل:* 24,اپریل کی صبح ٹھیک 8,بجے مالیگاؤں سے اجمیر کی سمت روانگی ہوئی رات میں تقریباً 10, بجے اجمیر میں مقام کیا۔ صبح سویرے اٹھ کر فریش ہوئے ناشتہ کیا اور درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی زیارت کی تارہ گڑھ، انا ساگر جھیل، ڈھائی دن کا جھونپڑا (مسجد) وغیرہ کی پر حاضری کے بعد شام میں تقریباََ 5,بجے دہلی کیلئے روانہ ہوئے۔ دیر رات دہلی جامع مسجد کے قریب ایک گیسٹ ہاؤس میں مقام کیا دوسرے دن صبح اٹھ کر جامع مسجد، مینا بازار، چاندنی چوک کا نظارہ کرنے کے بعد مغل حکمراں شاہجہاں کی شاہکار تعمیر لال قلعہ کی سیر کی۔ لال قلعہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ دیکھا بھالا ہے اب دیوان عام اور دیوان خاص اور تخت طاؤس کے علاوہ متعدد تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ میوزیم کے نام پر جدت پسندی ، لال قلعہ اور مغل حکمرانوں کی تاریخ کو فراموش کرنے کی غرض سے میوزیم اور نمائش کے نام پر نیتاجی سبھاش چندر بوس، جلیانوالہ باغ سانحہ اور 1857 سے 1947 تک کی تاریخی دستاویز کو کمپیوٹرائزڈ سسٹم اور جدید تیکنک کے ذریعہ اجاگر کیا گیا ہے۔
اس کے بعد دہلی درشن کیلئے روانگی ہوئی جس میں راج گھاٹ(مہاتما گاندھی کی سمادھی) شکتی استھل (اندرا گاندھی کی سمادھی) ویربھومی(راجیوگاندھی کی سمادھی) مہاتما گاندھی، لال بہادر شاستری میوزیم، انڈیا گیٹ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ، قطب مینار، خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، سپریم کورٹ، پٹیالہ کورٹ، فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم، اندرا گاندھی انڈور اسٹیڈیم پارلیمینٹ ہاؤس، راج بھون وغیرہ دیکھنے کے بعد گیسٹ ہاؤس پر واپس ہوئے عشائیہ کی ضیافت سے فارغ ہوکر تھوڑا آرام اور پھر اگلے سفر کی تیاری کرنے لگے۔
رات تقریباً 12,بجے جامع مسجد دہلی سے نینی تال کی سمت روانگی ہوئی۔ نئی دہلی سے فورٹریک، سکس ٹریک سڑکوں اور فلائی اوور برج کے جال کے بعد پیچ در پیچ راستوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ معلوم ہوتا تھا ہم لوگ صرف اونچائی کی طرف بڑھ رہے ہیں اس طرح رات میں تقریباً 5,بجے (بوقتِ فجر) نینی تال پہونچ گئے۔ نینی تال سے متصل تلی تال نامی مقام پر ایک مسجد کے قریب ایک گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا۔ صبح کے گیارہ بجے تک فریش ہوکر نینی تال کی سیر کیلئے نکل پڑے۔ واضح رہے کہ شمالی ہندوستان کی ریاست اتراکھنڈ کی راجدھانی دوہرا دون سے 285 کلو میٹر (177,میل) اور ہندوستانی کی راجدھانی دہلی سے 345,کلو میٹر (214,میل) کے فاصلے پر ہمالیہ کی ترائی میں کماون کے مقام پر آباد شہر کا نام نینی تال ہے۔ ہندی میں نین کے معنی آنکھ اور تال کا مطلب جھیل ہوتا ہے ہمالیہ کی پہاڑیوں کے درمیان گھری ایک بہت بڑی جھیل جس کی شکل آنکھ جیسی ہے اس آنکھ کی مانند جھیل کے نام پر اس خوبصورت شہر کا نام نینی تال رکھا گیا ہے۔ نینی تال ریاست اتراکھنڈ کی دوسری راجدھانی ہے جس میں گرمیوں کے اجلاس کا ا نعقاد کیا جاتا ہے علاوہ ازیں اتراکھنڈ کی ہائیکورٹ اور گورنر ہاؤس (راج بھون) بھی یہیں پر ہے اسلئے اس مقام کو دوسری راجدھانی کا درجہ دیا گیا ہے۔
نینی تال سطح سمندر سے 1,938 میٹر (6,358 فٹ)بلندی پر واقع ہے۔ آنکھ کی شکل کی جھیل کا رقبہ تقریباً دو میل پر محیط ہے۔ یاد رہے ڈرون کیمرہ سے دیکھنے یا اونچی پہاڑیوں سے لی گئی تصویروں کے مطابق کچھ لوگوں نے اس جھیل کو آنکھ کی شکل کے علاوہ آم (Mango) اور کاجو کی شکل سے بھی تشبیہہ دی ہے۔ جن پہاڑیوں سے یہ جھیل گھری ہوئی ہے ان کی سب سے بلند اور اونچی چوٹی کا نام نینا ہے ہندو عقیدت مندوں کے مطابق اس بلند ترین چوٹی پر جو دیوی براجمان ہے اس دیوی کانام نینا دیوی ہے اور نینی تال اسی کے نام سے منسوب ہے۔ بلند ترین نینا چوٹی 2,615 میٹر یعنی 8579, فٹ اونچی ہے۔ شمال میں دیو پاتھا کی چوٹی ہے جو 2438 میٹر اور 7,999 فٹ اونچی ہے جبکہ مغرب میں آیارپاتھا نامی چوٹی 2,278 میٹر مطلب 7474 فٹ اونچی ہے۔ جنوب میں ایک وسیع میدان ہونے کی وجہ سے لوگ باگ آسانی سے اس جھیل کا نظارہ کرسکتے ہیں۔
نینی تال کو جھیلوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ نینی جھیل کے علاوہ دوسری سب سے بڑی جھیل بھیم تال ہے۔ جو تلی تال کے قریب پائی جاتی ہے۔ اس جھیلوں میں اتراکھنڈ حکومت اور نینی تال مینسپل کونسل کی اجازت سے کشتی رانی کے ذریعہ سیاحوں کو تفریح کا سامان مہیا کیا جاتا ہے نینی تال سات پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے ان سات پہاڑوں کے نام دیو پاتھا، آریا پاتھا، بانڈی (ہانڈی) ،نینا، الما، لاریا (کانٹا) اور شیر کا ڈنڈا ہیں۔ نینی جھیل کے بالکل قریب میں وسیع میدان سے متصل جگہ پر ایک خوبصورت مسجد ہے جو نینی تال کی جامع مسجد سے منسوب ہے۔ واضح رہے کہ انگریزوں کے دور حکومت میں نینی تال اور اطراف کے فوجی مسلمانوں کی عبادت کیلئے یہ مسجد 1882ء بمطابق 1300ھجری میں ایک جھونپڑے کی شکل میں تعمیر کی گئی تھی بعد ازاں سے خوبصورت عمارت میں تبدیل کیا گیا یہ مسجد تقریباً ڈیڑھ سو سال پرانی ہے۔ جس کا رقبہ 400 بائے 600 پکسل میٹر پر محیط ہے۔ اس مسجد کا نظام رضا کلب کے زیر اہتمام چلتا ہے۔ نینی تال میں صرف دو مسجدیں ہیں ایک جامع مسجد نینی تال اور دوسری مسجد تلی تال ہے۔ تلی تال مسجد سے متصل ایک مسلم مسافر خانہ ہے۔ اس مسجد کے ایک ٹرسٹی جو قریب میں ہی کرانہ دکان کے مالک ہیں نے بتلایا کہ مسجد تلی تال کی تاریخ بھی 100,برسوں سے زائد ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد کی تعمیر نو کے وقت میں نے خود اس کے ڈاکیومینٹ دیکھے ہیں۔
نینی تال میں سیاحت اور تفریح کیلئے کئی مقامات ہیں جن میں مختلف جھیلوں کے علاوہ سب سے اونچی چوٹی پر ٹاور بنایا گیا ہے جو گھومتا ٹاور ہے، پہاڑیوں کے درمیان روپ وے ٹرالی کا لطف بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ اسی مقام پر بچوں کی تفریح کیلئے مختلف گارڈن اور پارک بنائے گئے ہیں۔ قریب میں ہی ایک چڑیا گھر بھی ہے جہاں مختلف قسم کےجنگلی جانور اور خوبصورت پرندے ہیں نینی تال سے مختلف مشہور شخصیات وابستہ رہی ہیں ۔ جم کاربیٹ، مصنف، اور تحفظ پسند، نینی تال میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی تعلیم بھی یہیں ہوئی تھی۔ آس پاس کے جم کاربیٹ نیشنل پارک کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے جو کہ ہندوستان کا پہلا نیشنل پارک بھی ہے۔ انوپ جلوٹا، ایک مشہور کلاسیکی گلوکار اور کرکٹر منیش پانڈے نینی تال میں پیدا ہوئے۔ میجر سومناتھ شرما، ہندوستان کے پہلے پرم ویر چکر ایوارڈ یافتہ اور لیجنڈ اداکار امیتابھ بچن نے نینیتال کے شیروڈ کالج میں تعلیم حاصل کی ۔
آج، نینیتال ہر وہ چیز پیش کرتا ہے جو ایک بہترین چھٹی کے لیے درکار ہے۔ بہت سارے ہوٹل اور ریزورٹس پہاڑی کنارے پر قائم ہیں۔ مال روڈ ایک مصروف شاپنگ ہب ہے۔ کیفے اور ریستوراں مقامی اور عالمی دونوں قسم کے کھانے پیش کرتے ہیں اور جنگلات کے بے شمار پگڈنڈی ہیں جو آس پاس کے زمین کی تزئین کے شاندار نظارے پیش کرتے ہیں۔ آپ جھیل میں پیڈل کر سکتے ہیں یا قصبے میں گھوڑے پر سوار ہونے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔ نینیتال ایک مشہور گرم ہوا کے غبارے اور کوہ پیمائی بھی ہے نینی تال کی مکمل تفریح اور سیاحت کیلئے ایک ہفتہ کا وقت بھی کم پڑسکتا ہے۔
_________
افسانہ
افواہ
ابرار مجیب
برائے تنقید و تبصرہ
میرے خلاف ایک نہ ایک افواہ جنم لے لیتی ہے اور چاروں طرف گشت کرنے لگتی ہے، یہ افواہیں کون پھیلاتا ہے، یا کون لوگ پھیلاتے ہیں مجھے نہ تو علم ہے اور نہ ہی اس کوئی اندازہ لگا سکتا ہوں۔ اپنے تعلق سے پھیلی ہوئی افواہ کا علم بھی مجھے کسی دوسرے کے ذریعہ ہوتا ہے، جب وہ شخص اس پھیلی ہوئی افواہ کے بارے میں مجھ سے تفتیش کرتا ہے کہ آخر ماجرا کیا ہے، یہ بات کیوں گشت کررہی ہے۔ کیا وجہ تھی کہ میں نے یہ حرکت کی، اب اس حرکت کے ازالہ کی صورت کیا ہے یا میں اس غلطی سے عہدہ بر آ کیسے ہوو،ں گا وغیرہ وغیرہ۔ پہلے تو میں اس افواہ کے متعلق سن کر ہی ششدر رہ جاتا ہوں، جو بات میرے وہم وگمان میں نہ تھی وہ سارے شہر کو پتہ ہے، اوپر سے تابڑ توڑ سوالات ، میں ان سوالات کا آخر کیا جواب دے سکتا ہوں؟ جب کہ اس قسم کی افواہ کا کسی بھی سطح پر میری ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ابھی ہفتہ بھر پہلے کی با ت ہے ، شہر میں اچانک ایک پراسرار خاموشی رقص کرنے لگی ۔ لوگ ایک دوسرے سے نظریں بچا کر گزر جاتے تھے، ایک دوسرے سے برائے نام گفتگو رہ گئی تھی ، ایک عجب شک وشبہہ کا ماحول تھا۔ یہ ماحول بہت دھیرے دھیرے بنا تھا، ا س کی کوئی خاص وجہہ سمجھ میں نہیں آ ئی۔ میں اسی سلسلے میں غلطاں وہ پیچاں تھا کہ ایک جاننے والے نے آکر کہا یہ شہر کا ماحول آپ کی وجہ سے خراب ہورہا ہے۔ میری وجہ سے ، میں حیران رہ گیا، آخر شہر کی پراسرار خاموشی اور شک وشبہہ کی فضا کو بنانے میں میرا کیا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ میں تو چپ چاپ گھر سے نکلتا ہوں ، آفس جاتا ہوں، شام تک فائلوں میں سر کھپاتا ہوں اور واپس گھر آجاتا ہوں، ہاں کبھی سبزی یا پھل اور مٹھائی خریدنے کے لئے ادھر سے ہی بازار چلا جاتا ہوں۔ گھر آکر منہ ہاتھ دھو کر ایک پیالی چائے پیتا ہوں اور صبح کا اخبار اٹھا کر برآمدے میں رکھی کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ اس دن جب میں برآمدے میں آکر بیٹھا ، اسی وقت وہ شخص آگیا جس نے مجھے یہ خبر دی تھی کہ شہر میں پراسرار خاموشی کا سبب میں ہوں۔
ــ'' بھائی یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ـ''
''جی ہاں۔'' اس نے میرے قریب کھسک کر مدھم لہجہ میں کہا۔'' سب لوگ آپ ہی کے بارے میں بات کررہے ہیں۔''
''میرے بار ے میں۔'' میں نے تعجب سے پوچھا۔ پھر بولا۔'' بھائی اس معاملے سے میرا کیا تعلق ہے؟ـ''
'' لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے محلہ سے جانے کا ارادہ کرلیا ہے، اور یہ بات آپ نے سب کے سامنے کہی تھی۔''
'' ایک تو ایسا کچھ میں نے کہا نہیں، اگر کہا بھی ہے تو اس سے شہر کی پراسرار خاموشی کا کیا تعلق؟''
'' یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ، یعنی آپ کے اس فیصلے کا شہر کے ماحول سے کوئی تعلق ہی نہیں؟''
'' بھائی محلے سے مکان خالی کرنے کے بارے میں ، میں نے کبھی کوئی بات ہی نہیں کی۔ پتہ نہیں کون یہ افواہ پھیلا رہا ہے۔'' میں نے ناگواری کا اظہار کیا۔'' دوسری بات یہ کہ اس سے شہر کے ماحول کا کیا تعلق؟''
'' عجیب آدمی ہیں آپ بھی، ارے آپ کی وجہہ سے دوسرے لوگ بھی ہوشیار ہوگئے ہیں اور وہ بھی اپنا اپنا مکان خالی کرنے کے بارے میں سوچ رہے جو آپ کی طرح ان کے محلوں میں رہتے ہیں۔ــ''
'' یہ کیا بات ہوئی، لوگ خواہ مخواہ مجھے بدنام کررہے ہیں۔''
'' بدنام نہیں کررہے ہیں ان کا خیال ہے کہ آپ کو اندر کی بات کا پتہ ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟
اندر کی بات کا تو مجھے پتہ نہیں تھا لیکن اند ر ہی اندر میں اضطراب کا شکار ضرور ہوگیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے یہ بات کسی سے نہیں کہی تھی، سامنے بیٹھے شخص پر مجھے بے انتہا غصہ آنے لگا ، لیکن غصہ کو پیتے ہوئے میں نے سوچا اس شخص کا کیا قصور ہے، یہ تو مجھے پھیلی ہوئی افواہ کی جانکاری دے رہا ہے۔ میں نے تھوڑی دیر اور اس سے گفتگو کی اور چائے پلا کر اسے رخصت کردیا۔ اس نے جو خبریں دی تھیں وہ خوف میں مبتلا کردینے والی تھیں۔ اس نے بتایا کے میرے مکان خالی کرنے کے فیصلے کے دو دنوں کے بعد چوک پر ایک سمیلن ہوا تھا اور اس میں سادھو سنتو ں کے علاوہ کچھ راج نیتا بھی شامل تھے۔ اس کے بعد دوسرے محلوں سے بھی لوگ اپنا بوریا بستر باندھنے لگے ۔ اسے اس بات پر حیرت تھی کہ میں نے مکان چھوڑنے کی بات بتانے کے باوجود ابھی تک اپنا مکان نہیں چھوڑا تھا جب کہ معاملہ اب بے حد نازک ہوچلا تھا۔ بہت دیر تک میں غور کرتا رہا کہ شاید میں نے مکان چھوڑنے کی بات کسی سے کہی ہو، لیکن مجھے کچھ یاد نہیں آیا، یاد آتا بھی کیسے ، آخر مکان خالی کرنے کوئی وجہ بھی تو ہوتی ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میں نے یہ بات کسی سے نہیں کہی تھی، اپنے گھر والوں سے بھی نہیں۔ میں کرسی پر پھیل کر بیٹھ گیا اور ایک سگرٹ سلگا کر پینے لگا۔ منہ سے نکلتے دھوئیں کے مرغولوں کو دیکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ ایک رات میں نے خواب میں دھوئیں کے گھنے بادل دیکھے تھے، یہ بادل زمین سے اٹھ رہے تھے اور گھنے دھوئیں کے غبار میں چہرے اور مکانات بے حد دھندلے نظر آ رہے تھے، اسی وقت میں سوچا تھا کہ یہ مکان خالی کرکے کسی محفوظ جگہہ پر چلا جاو،ں۔ اب خواب میں کئے گئے ارادے کو کوئی دوسرا کیسے جان سکتا ہے؟ مجھے پورا یقین ہے میں نے اپنے خواب میں کئے گئے ارادے کا اظہار ہرگز ہرگز کسی سے نہیں کیا تھا۔
شہر کی اس عجیب صورت حال نے مجھے اندر سے بے حد پریشان کردیا تھا، ایک ایسی بات جس سے میر ا قطعی کوئی تعلق نہیں تھا پورے شہر کے لئے پریشانی کا با عث بن گئی تھی، میں نے سوچنا شروع کیا کہ اس خطرناک صورت حال سے شہر کو باہر نکالنے کا کیا طریقہ ہوسکتا ہے،؟ کیا میں اعلان کردوں کہ میں نے کبھی بھی محلے سے مکان خالی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا؟ لیکن اب اس اعلان کا کیا فائدہ ؟ میرا نام تو اب ہزاروں قسم کی افواہوں کی گرد میں کہیں دب گیا تھا، لوگ متحرک ہوچکے تھے اور مختلف محلوں سے لوگوں کی مراجعت کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا، پھر کیا کیا جائے، بہت غور و خوض کے بعد مجھے ایک راستہ نظر آیا، کیوں نہ مقامی تھانے میں جاکر یہ بات بتادوں کہ شروع میں میرے تعلق سے جو خبریں پھیلائی گئی تھیں وہ محض افواہ تھیں اور یہ کہ میں اب بھی اسی محلے میں اپنے مکان میں بیوی کے سا تھ رہ رہا ہوں۔ یہ ایک بہتر آئیڈیا تھا ۔ میں فوراـ' تھانے کے لئے روانہ ہوگیا۔
'' کیا بات ہے؟'' تھانیدار نے مشکوک نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے سوال کیا؟
'' جی، اپنے بارے میں مجھے کچھ کہنا ہے۔'' مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بات کی شروعات کہاں سے کروں۔
'' کوئی رپورٹ لکھوانی ہے ؟''
'' جی نہیں، بس میں اپنے بارے میں ایک حقیقت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔''
'' حقیقت کا اظہار!'' تھا نیدار نے غور سے میرا جائزہ لیا ، پھر میز پر پڑے ہوئے ڈنڈے کو اٹھا کر ہاتھوں میں لیا اور اسے بڑے دھیان سے دیکھتے ہوئے اس نے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر اپنی ٹانگیں پھیلا دیں۔
'' اچھا تو پھر؟'' اس نے ایک ہاتھ سے ڈنڈے کو گھماتے ہوئے پوچھا۔
''میرے بارے میں کچھ لوگوں نے غلط افواہ اڑا کر شہر کے ماحول کو خراب کردیا ہے۔'' کسی تمہید کے بغیر میں نے کہا۔
''کون سی افواہ؟'' تھانیدار نے ڈنڈا میز پر رکھتے ہوئے مجھے جواب طلب نظروں سے دیکھا۔
'' یہی کے میں محلے سے مکان خالی کررہا ہوں۔ــ''
'' کیا؟'' تھانیدار چونک گیا، پھر اس نے پوچھا ۔ ''تمہارا نام کیا ہے؟''
میں نے اپنا نام بتایا تو اس نے بہت لمبی ہوں کہی پھر گہری نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔'' کون سا محلہ ہے؟''
میں نے محلے کا نام بتا یا تو وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا پھر سخت لہجہ میں بولا۔'' تم نے اب تک مکان خالی نہیں کیا؟''
''یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب ، میں بھلا مکان خالی کیوں کروں ؟'' میں نے تعجب سے کہا۔
تھانے دار کچھ دیر تک مجھے گھور تا رہا پھر گہری سانس لے کر بولا۔'' دیکھو تمہارے بھلے کے لئے کہہ رہا ہوں۔ دوسرے محلے سے بھی لوگ اپنا اپنا مکان خالی کرنے لگے ہیں، حالات مسلسل بگڑ رہے ہیں ، بلکہ بگڑ چکے ہیں جتنی جلد ہوسکے مکان خالی کرکے چلتے بنو۔''
اب تھانے دار سے کوئی توقع فضول تھی، میں جب تھانے سے باہر نکل رہا تھا تو تھانے دار نے انتہائی دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا کہ میں جتنی جلدی ممکن ہو مکان خالی کردوں ورنہ وہ کچھ نہیں کرسکے گا، کچھ نہ کرنے کی دھمکی سے میں بخوبی آگاہ تھا ، میں نے کوئی جوا ب نہیں دیا اور چپ چاپ سڑک پر آگیا، باہر اندھیر ا تھا ، شاید لوڈ شیڈنگ، اوپر شہر کے مشرقی حصے میں آسمان سرخ ہورہا تھا۔ اس شہر میں دفعتاـــ'' پورا آسمان ہی سرخ ہوجاتا تھا، اس کی وجہ شاید وہ اسٹیل پلانٹ تھا جس کا پگھلا ہوا سلیگ راتوں میں ڈمپ کیا جاتا تھا۔ آسمان کے سرخ ہوتے ہی شہر میں گرمی بڑھ جاتی تھی اور لوگ پیاس محسو س کرنے لگتے تھے، مجھے بھی پیاس محسوس ہوئی لیکن آس پاس کوئی ریسٹورنٹ نہیں تھا
جہاں سے پانی لے کر پی لیتا، سوچا اب گھر پہنچ کر ہی پانی پی سکوں گا۔ اوپر بے شمار پرندے سرخ روشنی کے حصار میں قید پرچھائیوں کی صورت بے چینی سے پھڑپھڑاتے نظر آرہے تھے ۔ یہ پرندے بھی روشنی کے عذاب میں مبتلا ہیں ، ایک مسلسل سراب کی کیفیت ، انہیں حیرت ہوتی ہوگی کہ اچانک اندھیری رات میں تیز روشنی کیسے پھیل جاتی ہے، یا صبح صادق کا منظر کیوں کر پیدا ہوجاتا ہے اور پھر تھوڑی ہی دیر میں وہی اندھیری رات۔ مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی ، اس لئے میں تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا گھر کی جانب بڑھنے لگا، اچانک مجھے احسا س ہوا کہ چاروں طرف ایک عجیب سا سناٹا پھیلا ہوا ہے، سڑکوں پر ٹرافک نہ ہونے کے برابر تھی، لوگ بھی بہت کم نظر آرہے تھے، ہاں آوارہ کتے ادھر ادھر بھاگتے ضرور نظر آرہے تھے۔ عام طور سے آوارہ کتے اتنے سویرے سڑکوں پر اودھم نہیں مچاتے تھے لیکن آج وقت سے پہلے چھا جانے والے سناٹے کی وجہ سے یہ بھی متحرک ہوگئے تھے، مجھے خیال آیا کہ کہیں کوئی ان میں سے اچانک مجھ پر حملہ آور نہ ہوجائے لیکن گھر تک پہنچتے پہنچتے ایسا کچھ نہیں ہوا، ایک دو بار ان کا غول مجھے چھو کر گزرا لیکن مجھ پر بھونکا نہیں۔
مکان کے دروازے کے سامنے کئی لوگ کھڑے ہوئے تھے، میرے اندر خوف کی ایک لہر دوڑ گئی، میں ان لوگوں کو نظر انداز کرتا ہوا گھر میں داخل ہوگیا ، اندر بیوی صوفے پر بیٹھی ٹی وی پر نیوز دیکھ رہی تھی، مجھے اندر آتا دیکھ اس نے میری طرف دیکھا ، مجھے محسو س ہوا اس کی آنکھوں میں خوف کے سائے تیر رہے ہیں۔ یوں بھی وہ اکثر خوف کی کیفیت میں مبتلا رہتی تھی اور اس کی وجہ تھی ہارر مووی اور خوفناک ناولوں سے اس کی دلچسپی ۔ پچھلے مہینے کی بات ہے اس نے بہت ضد کرکے مجھ سے برام اسٹوکر کا ناول ڈرایکولا منگوایا تھا، ناول پڑھنے کے دوران اگر کھڑکی ہوا کے جھونکے سے کھڑکھڑاتی تو اسے محسوس ہوتا کہ چمگادڑیں کھڑکی کے شیشہ پر سر پٹخ رہی ہیں، کئی با ر اس نے مجھ سے کھڑکی مضبوطی سے بند کرنے اور پردوں کو ٹھیک سے برابر کرنے کے لئے کہا تھا، اس نے کئی دفعہ اس خوف کا اظہار بھی کیا تھا کہ کھڑکی یا دروازوں کی جھریوں سے دھوئیں کی شکل میں ڈرایکولا اندر آسکتا ہے، ایک بار وہ ایک دوڑتے ہوئے چوہے کو دیکھ کر بری طرح چیخ پڑی تھی، جب میں نے پوچھا کیا اسے چوہے سے بھی خوف محسوس ہوتا ہے تو اس نے بتایا نہیں دراصل ڈرایکولا چوہے کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے، اس دن اس نے مجھ سے منت کی تھی کہ میں اسے لہسن کے پھول اور چرچ سے مقدس روٹیاں لا دوں ۔ پہلے تو مجھے ہنسی آئی لیکن اس کی ذہنی کیفیت کو دیکھتے ہوئے مجھے لگا یہ چیزیں اس کی نفسیاتی گرہ کو کھولنے میں معاون ہوں گی۔ مقدس روٹیوں کا انتظام تو میرے ایک عیسائی دوست نے کردیا لیکن سبزی مارکیٹ میں
لہسن کے پھول کہیں نہیں ملے، گھر آکر میں نے بیوی سے جھوٹ کہہ دیا کہ عیسائی پادری کا کہنا ہے کہ مقدس روٹی کے ساتھ اگر لہسن کے پھول نہ ہوں تو لہسن کو کچل کر کمرے میں ڈال دینا کافی ہوگا، دراصل ڈرایکولا لہسن کی بو سے بھاگتا ہے خواہ وہ بو پھول سے آئے خواہ خود لہسن سے۔ اسے میری بات کی سچائی پر یقین آگیا، اس نے لہسن کچل کر کمرے میں جگہہ جگہہ رکھ دیا ، اس کی بو میرے لئے ناقابل برداشت تھی ، بلکہ مجھے محسوس ہونے لگا تھا کہ میں ہی دراصل ڈرایکولا ہوں اور مجھے فورا' گھر چھوڑ کر بھاگ جانا چاہیئے۔ ان انتظامات سے میری بیوی بہت حد تک پرسکون ہوگئی تھی، لیکن ایک دن اس نے فرمائش کی کہ گھر میں ایک صلیب کا ہونا بھی ضروری ہے، میں بری طرح چونک پڑا، میں نے اسے سمجھایا لوگ کیا کہیں گے ہمارے گھر میں صلیب۔ لیکن وہ بضد رہی ، اس نے کہا کہ ہمارا مقصد شیطان کو دور رکھنا ہے ، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ، خیر میں نے اسے ایک صلیب بھی لاکر دے دی تھی جسے اس نے کمرے کی دیوار پر ٹانگ دیا تھا۔ بہرحال ان دنوں میری بیوی بالکل نارمل تھی اور حالیہ دنوں میں نہ تو اس نے کوئی ہارر مووی دیکھی تھی اور نہ ہی کوئی ناول پڑھا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں خوف کے سائے ایسے ہی تھے جیسے اس کے ذہن میں تصوراتی ڈرایکولا پھر سے زندہ ہوگیا ہو۔
ــــ'' کیا با ت ہے؟'' میں نے بیوی کی بغل میں بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
'' تم نے سنا نہیں؟'' اس کی آنکھوں کا خوف کچھ اور گہر ا ہوگیا۔
'' کیا نہیں سنا، صاف صاف بتاو،۔'' مجھے جھنجھلاہٹ ہونے لگی، ایک تو تھانے دار کے رویے کی وجہ سے میں پہلے ہی پریشان تھا اوپر سے یہ سپنس پیدا کررہی تھی۔
''وہ لوگ آئے ہوئے ہیں اور تمہارا ہی انتظار کررہے ہیں ، کیا باہر انہوں نے تم سے کچھ کہا نہیں ۔''
بیوی نے اسرار برقرار رکھا اور میری جھنجھلاہٹ غصہ میں تبدیل ہونے لگی۔ میں نے یاد کیا باہر کچھ لوگ کھڑے ہوئے تھے، لیکن یہ لوگ مجھ سے ملنے آئے ہیں یہ بات میرے لئے تعجب خیز تھی، اور اگر وہ ملنے آئے تھے تو انہوں نے مجھ سے کچھ کہا کیوں نہیں، شاید میں بہت تیزی سے اندر آگیا تھا اور انہیں کچھ کہنے کا موقع نہیں ملا یا وہ چاہتے تھے کہ پہلے میں گھر کے اندر جاکر بیوی سے گفتگو کرلوں، پتہ نہیں ۔
''تم بتادو، کیا بات ہے؟'' میں نے غصہ کو دباتے ہوئے پوچھا۔
ـ''وہ بغیر سر والا، ادھر محلے کے جنوبی حصے میں، بغیر سر والا دوڑ رہا تھا اور اس کی گردن سے خون کے فوارے ابل رہے تھے۔''میری بیوی تھوک نگلتی ہوئی بے حد خوفزدہ آواز میں بولی۔ '' کچھ دیر دوڑنے کے بعد وہ گر گیا، یہ لوگ جو ہمارے دروازے پر کھڑے ہیں اسے جھنڈے میں لپیٹ کر لے جانے کے لئے آئے ہیں، انہوں نے بتایا مجھے، کچھ لوگ سر کی تلاش بھی کررہے ہیں۔'ـ' بولتے بولتے اس کی سانسیں ناہموار ہوگئیں ۔
''کیا۔'' میری چیخ حلق میں گھٹ کررہ گئی۔
ہڑبڑا کر کر میں باہر آگیا ، وہ لوگ ابھی تک موجود تھے، ان میں سے ایک آگے بڑھ کر میرے قریب آگیا اور پھسپھسا تی ہوئی آواز میں بولا۔'' آپ ابھی تک یہیں پر ہیں، آپ کو تو سب سے پہلے یہاں سے نکل جانا چاہئیے تھا، آپ کو تو صورت حال سے آگاہی تھی۔''
''کون سی صورت حال؟'' میں نے غصہ میں پوچھا۔
''محلے کے جنوبی حصے کا واقعہ آپ کو پتہ ہے؟''
''ابھی میری بیوی نے بتایا ہے۔''
''پھر؟''
''میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔'' میں نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے کہا۔
''دیکھئے بھائی ہم نے اسے جھنڈے میں لپیٹ لیا ہے۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ آپ سے سختی سے کہہ دیا جائے کہ آپ مکان خالی کردیں ورنہ ۔۔۔۔۔ بار بار ہم جھنڈے لے کر آنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتے۔''
کچھ دیر تک وہ لوگ آپس میں گفتگو کرتے رہے پھر مجھے اشارہ کرکے چلے گئے۔ میں سخت تشویش میں مبتلا ہوگیا تھا۔ حالات واقعی قابو سے باہر ہوچکے تھے۔ بغیر سر والے کے دوڑنے کا واقعہ انتہائی خطرناک تھا، میری بیوی بے حد خوفزدہ ہوچکی تھی اور مجھے اس طرح دیکھ رہی تھی کہ میں کوئی فیصلہ لینے کے قابل ہی نہیں ہوں۔ میں نے انتہائی ٹھنڈے دل سے صورت حال پر غور کرنا شروع کیا ، محلے کے جنوبی حصے میں جو واقعہ پیش آیا تھا اس کے بعد صورت حال کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ تھا اور یہ جھنڈے کا استعمال تو بے حد خوفناک تھا۔ بیوی کا خیال تھا کہ ہمیں جلد از جلد مکان خالی کردینا چاہئیے اور یہ لوگ جس جگہہ لے
جانا چاہتے ہیں وہاں چلے جانا چاہئیے۔ موجودہ منظرنامے میں مکان خالی کردینا مجھے بھی مناسب لگ رہا تھا لیکن جہاں جانے کے لئے کہا جا رہا تھا اس جگہہ کے بارے میں ، میں مشکوک تھا۔ بیوی نے کہا چل کر دیکھ لینے میں کیا حرج ہے، بہرحال میں نے مکان خالی کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔
وہاں عبادت گاہ کے سامنے ایک بہت بڑا میدان تھا، جس میں ٹینٹ لگائے گئے تھے، ہمیں بھی ایک ٹینٹ دے دیا گیا۔ مختلف محلوں سے آکر لوگ یہاں ٹینٹوں میں جمع ہوگئے تھے۔ عبادت گاہ میں وقت کے مطابق عبادت جاری تھی اور جھنڈوں میں لپٹے لوگوں کو لاکر چبوترے پر رکھنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ پھر انہیں وہاں سے ایک ہجوم چوک پر لے جاتا، نعرے لگتے ، عہد وپیمان ہوتے اور انہیں جھنڈے سمیت گاڑ دیا جاتا۔
ایک صبح میری چارپائی کے گرد لوگوں کا ہجوم جمع تھا، میں بے حد حیران ہوا کہ ماجرا کیا ہے، ٹینٹ کے ایک کونے میں میری بیوی زور زور سے رو رہی تھی اور کچھ عورتیں اسے سنبھالنے میں لگی تھیں۔ چارپائی کے ارد گرد کھڑے لوگ میری موت کے بارے میں گفتگو کررہے تھے، ساری سازش میری سمجھ میں آگئی راتوں رات کچھ لوگوں نے میری موت کی افواہ پھیلا دی تھی۔ مجھے اسی لئے یہ علاقہ مشکوک لگ رہا تھا اور میں یہاں آنا نہیں چاہتا تھا، میرا شک سو فیصد درست ثابت ہوا۔ چارپائی کے گرد کھڑے لوگ کہہ رہے تھے کہ اگر میں مکان پہلے ہی خالی کردیتا تو آج زندہ ہوتا، انہیں مجھے جھنڈا میں لپیٹنا نہیں پڑتا، لیکن ہونی کو بھلا کون ٹال سکتا ہے۔ میں اندر ہی اندر غصے سے کانپ رہا تھا، میں چیخ چیخ کر کہنا چاہ رہا تھا کہ میری موت کی خبر افواہ ہے، میں زندہ ہوں لیکن میری آواز شاید بے انتہا غصہ کی وجہہ سے باہر نہیں نکل رہی تھی اور چارپائی کے ارد گرد کھڑے ہوئے لوگ بھی میری طرف توجہ نہیں دے رہے تھے۔
تھوڑی دیر بعد کچھ لوگوں نے مجھے نہلانا شروع کیا ، نہلا کر مجھے سر سے لے کر پیر تک جھنڈے میں لپیٹ دیا گیا، پھر عبادت گاہ کے چبوترے پر رکھ کر سب لوگ عبادت میں مصروف ہوگئے۔ عبادت سے فراغت پاکر ان لوگوں نے مجھے اٹھا لیا، کسی نے زور سے کہا اسے چوک پر لے جاکر رکھا جائے، کسی دوسرے نے سوال کیا اسے کیوں؟ کئی آوازیں ابھریں ارے ہمیں دکھانا ہے کہ ہم
ایسی باتوں سے نہیں گھبراتے۔ مجھے لے کر وہ چوک پر پہنچ گئے اور جھنڈے میں لپٹے میرے وجود کو ایک اونچے چبوترے پر رکھ دیا گیا۔
جھنڈے میں لپٹا میں ، سمجھ نہیں پا رہا ہوں کی اپنی موت کی افواہ کا سدباب کیوں کر کروں؟
________
🌹غ---------ز-------ل🌹
آگ لگی ہے تن من میں
بھیگے بھیگے ساون میں
عیب نہ ڈھونڈو درپن میں
جھانکو اپنے دامن میں
تنہا تنہا جا نا ہے
اپنے اپنے مدفن میں
چاروں طرف شادابی ہے
کون آیا ہے گلشن میں
دل ٹوٹا تو آیا ، ناں
آنسو آنکھ دامن میں
کس کے غم میں ڈوبے ہو
اکمل اپنے مسکن میں
ظہیر اکمل
مالیگاؤں
موبائل نمبر8237623902
__________
عزیز بھائی ارشاد انجم کی ایک غزل احباب کی خدمت میں
*غزل*
حقیقتوں کی طرف لوٹنے نہ پایا ہے
جو شہرتوں کہ حسیں دائرے میں آیا ہے
مری نہیں تو کم ازکم تُو قدر کر اس کی
کہ انتظار مجھے تیرے پاس لایا ہے
یہ عاشقی بھی عجب کھیل ہے مقدر کا
ہماری مات ہوئی تب سمجھ میں آیا ہے
ہمارا دل وہ چمن ہے کہ اس میں تیرےبعد
بہار میں بھی کوئی پھول کھِل نہ پایا ہے
عجیب بات ہے اُس شخص کے رویّے میں
جو ایک بار ملا بھولنے نہ پایا ہے
*ارشادانجم*مالیگاؤں
8087134299