کرکٹ کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں انگلینڈ سے ہوا۔ مانا جاتا ہے کہ یہ کھیل انگریزوں نے ایجاد کیا۔گویا یہ لکڑی بھی انگریزوں کی لگائی ہوئی ہے۔ انگریز دنیا میں جہاں جہاں گئے کرکٹ بھی ساتھ لے گئے۔وہاں کے لوگوں کو گیند بلہ تھما کر کام سے لگا دیا اور خود وہاں کی دولت لوٹنے میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔جب یہ کھیل ختم ہوا تو معلوم ہوا کہ کھیل تو ختم ہوچکا ہے۔ساری دولت تو لٹ چکی۔انگریز جب اپنا کھیل ختم کر کےاپنے ملک واپس گئے تو ساری تو دولت لوٹ کر لے گئے مکر کرکٹ کو مقامی لوگوں کے لیے وقف کردیا۔اور دیکھا جائے تو انگریزوں کے جانے کے بعد وقت کی دولت کے علاوہ بچا ہی کیا تھا۔۔۔۔۔۔اسی لیے اکثر ترقی یافتہ ممالک کرکٹ نہیں کھیلتے، مگرپسماندہ ممالک کے لوگوں کا پسندیدہ کھیل ہے۔
کرکٹ سے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ"کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جسے گیارہ بے وقوف کھیلتے ہیں اور گیارہ لاکھ بے وقوف دیکھتے ہیں۔"مگر ہم اس بات سے قطعئی متفق نہیں ہیں۔ہمارا خیال ہے کہ"اسے گیارہ لوگ کھیل کر گیارہ لاکھ لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کرکٹ نوابوں کا کھیل ہے۔اسے کھیلنے میں جس قدر وقت اور سرمایہ درکار ہے وہ نوابوں کے پاس ہی ہوتا ہے۔ھم تو کہتے ہیں کہ اسے دیکھنے کے لیے بھی نوابوں جیسی فرصت درکار ہے۔پہلے نواب لوگ کرکٹ کھیلتے تھے اب بہت سے لوگ کرکٹ کھیل کر نواب ہوگئے ہیں۔وقت جیسی قیمتی دولت کا ضیاع جس عالیشان ،عظیم الشان اور بڑے پیمانے پر کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے سے ہوتا ہے کسی اور کھیل سے ممکن نہیں۔کرکٹ ایسا کھیل ہے جسے ایک دن سے ایک ماہ تک کھیلا جا سکتا ہے اور کھیل بغیر کسی نتیجے کے بھی ختم ہو سکتا ہے۔
جب ترقی یافتہ ممالک کے لوگ چاند اور مریخ پر جانے کا منصوبہ بناتے ہوں گے تو یقیناً پسماندہ ممالک کے لوگ وہاں کرکٹ کھیلنے کا خواب ضرور دیکھتے ہوں گے۔
کرکٹ کے لئے لگنے والے لوازمات،خرچ اور وقت کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غریبوں کے بس کا کھیل نہیں۔اگر کسی طرح لوازمات مل جائیں تو گیارہ بے کار غریب کہاں دستیاب ہوں گے۔ہم غریبوں کو تو "گلی ڈنڈا "ہی بس کرتا ہے۔درخت سے ایک ٹہنی توڑی،ایک حصے سے گلی بنالی اور کھیل شروع۔نہ اسٹڈیم کی ضرورت،نہ کسی ساز و
سامان کی۔نہ امپائر،نہ اسکورر کی۔جب تک جی چاہا کھیلا جب جی چاہا کھیل ختم۔ہینگ لکے نہ پھٹکڑی رنگ چوکھا۔
عجیب مصیبت یہ ہے کہ اب تو خواتین بھی کرکٹ کھیلتی ہیں۔اور صرف کرکٹ ہی کیا ہر کھیل کھیلتی ہیں۔اور صرف کھیل ہی نہیں ہر میدان میں خواتین مردوں کے "ہم پلہ و ہم بلہ" نظر آتی ہیں۔اب ان بے چاریوں کو کون سمجھائے کہ قدرت یہ نازو ادا،یہ حسن و جمال اور نزاکت کرکٹ کھیلنے کے لئے نہیں دئیے ہیں۔انہیں تو چوکی بیلن کا کھیل ہی بھلا معلوم ہوتا ہے۔
دنیا میں کرکٹ ایسا واحد کھیل ہے جس میں دنیا جہان کے سازوسامان درکار ہوتے ہیں۔سر کے لئے ہیلمیٹ،تھائی گارڈ،لیگ گارڈ،بیک گارڈ،آرم گارڈ، ایبڈومنل گارڈ،ایلبو گارڈ،ہینڈ گلوز،جوتے اور نہ جانے کیا کیا۔ اتنے حفاظتی سازوسامان کسی ملک کی فوج کے پاس بھی نہیں ہوتے ہوں گے۔ ہمارے خیال میں اگر اتنے سازوسامان کسی ملک کی فوج کو دیۓ جائیں تو پوری دنیا فتح کرنا کچھ مشکل نہیں۔۔۔۔۔۔