دیوی کے ملّے تک کھڈا کھدائی میں 65 دِن لگ گئے ، موتی باغ ناکے کا روڈ 25 دن میں کانکریٹ لیول پر
قلم اُٹھانے پر مجبور
عبدالحلیم صدیقی
مالیگاؤں ، ۲۶؍ اپریل :
جونا آگرہ روڈ کی پختہ تعمیر کو پَنوتی لگی ہے ۔ اب لگتا ہے اس تعمیراتی کام کی تکمیل کیلئے بادشاہ شیر شاہ سوری کو پُنر جنم لینا پڑے گا۔ جس نے آج سے 800 سال قبل دہلی سے لاہور تک کی سڑک دو سال میں تعمیر کروائی تھی ۔ لیکن مالیگائوں کی 2 کلو میٹر کی آگرہ روڈ پچھلے 25 سالوں سے کھنڈر بنی ہوئی ہے۔
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے کہ مصداق 20 فروری 2023 کو فاران اسپتال کے سامنے سے دیوی کے ملّے تک کے دوسرے فیز کا کھدائی کام شروع ہوا جو مہربان ٹھیکیدار (آنند کنسٹرکشن ناسک ) نے 2 مہینے میں بھی پورا نہیں کیا ۔ کیا یہ موہن جودارو اور ہڑپا کی کھدائی ہورہی ہے ! یا بات کچھ اور ہے ؟
آگرہ روڈ کی تعمیر یکم اپریل سے ٹھپ پڑ گئی ۔ 16 کروڑ کے بجٹ والے اس سیکنڈ فیز کی تعمیر کا آغاز 20 فروری کو ہوا تھا۔ ناسک کے آنند کنسٹرکشن لمیٹیڈ نے روڈ کی کانکریٹ تعمیر 3 ماہ میں مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس لحاظ سے 45 دِنوں میں ایک سائیڈ مکمل کرکے دوسری سائیڈ کا کام شروع ہوجانا تھا۔ لیکن فاضل ٹھیکیدار کمپنی دو مہینے میں ایک طرف کا کھڈا بھی مکمل نہیں کرسکی۔ دوسری طرف رمضان کے پہلے ہفتہ میں روڈ کا کام بند کردیا گیا۔ جس کے سبب ماہ ِ مقدس میں عوام بالخصوص ٹوپی، داڑھی اور حجاب والوں کو بے تحاشہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ۔ نہ جانے کتنے حادثات ہوئے ، کتنی مائیں بہنیں ، کتنے بزرگ اوبڑ کھابڑ راستے پر گر پڑکر آج اپاہج کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مشرقی آگرہ روڈ کی تعمیر کا اچھا بھلا کام روک کر نہ جانے کس کے فرمان پر ٹھیکیدار کمپنی نے مغربی مالیگائوں میں موتی باغ ناکہ سے موسم پل تک کے سیمنٹ کانکریٹ روڈ کا آغاز رمضان کے پہلے ہفتہ میں شروع کیا۔اور صرف 25 دنوں کے بعد آج جب ہمارے نمائندے نے جائزہ لیا تو ڈائمنڈ لانس سے لے کر دیوی کے ملّے اور نیشنل پمپ کا تعمیری کام بند پایا گیا۔ کانکریٹ کی آٹومیٹک مشین ایسے لپیٹ کر رکھ دی گئی جیسے فرعونِ وقت کی لاش احرامِ مصر میں لپیٹ کر رکھی گئی ہے ۔دوسری طرف موتی باغ ناکے والا روڈ زور و شور سے کانکریٹ ہورہا ہے ۔ حیرت ہے کہ رات میں بھی کام چالو پایا گیا ۔ اور مشرقی آگرہ روڈ کا کام صرف کھڈا کھود کر کھڑی بچھا کر چھوڑ دیا گیا۔ سارے مزدور غائب ، ساری مشنریاں اُٹھا کر شفٹ کردی گئیں !کام بند ہونے سے اَن گنت حادثات ہوئے ۔ رمضان اور عید کے موقع پر چھوٹے کاروبار والے تباہ ہوگئے۔ سیر و تفریح کیلئے نکلنے والوں کی گاڑیاں پنکچر ہوتی رہیں ۔ اس صورت حال پر لب کشائی کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ عوام کو بدحالی میں زندگی گذارنے ،اوبڑ کھابڑ راستوں پر چلنے کی عادت سی ہوگئی ہے ۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ شکوہ شکایت کی بھی توفیق نہیں ہورہی ہے ۔نہ ہی اس بد نصیب روڈ پر کوئی ڈھونگی احتجاج تک نہیں کررہا ہے ۔
راقم الحروف کا تلخ تجربہو و تجزیہ رہا ہے کہ جب کبھی بھی مشرقی مالیگائوں میں کوئی بڑا تعمیری فنڈ منظور ہوتا ہے تو اس کے ہم پلّہ مغربی مالیگائوں میں بھی فنڈ منظور ہوجاتا ہے ، ادھر تو بینر بازی ،پوسٹر بازی اور اخبار بازی کے ذریعے کریڈیٹ کی ہوڑ لگ جاتی ہے فائلوں میں محفوظ رکھے ہوئے میمورنڈم نکال کر سوشل میڈیا پر شیئر کیئے جاتے ہیں دوسری طرف برادرانِ وطن کے علاقوں میں کام مکمل ہونے کے بعد بھی کوئی کریڈیٹ لینے نہیں پہنچتا ۔
شرمناک بات یہ ہے کہ موتی باغ ناکہ کے سامنے یکم اپریل کو سیمنٹ کانکریٹ روڈ کی کھدائی شروع ہوئی اور آج 25 اپریل کو موتی باغ ناکہ سے نانا وٹی پٹرول پمپ تک کا روڈ کانکریٹ لیول پر پہنچ چکا ہے ۔یعنی 25 دن میں روڈ فائنل ہونے جارہا ہے ۔ جبکہ مشرقی سمت کے پَنوتی مالیگائوں کا روڈ 45 دنوں کے بعد بھی کھنڈر کا کھنڈر ہی ہے ۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ مغربی مالیگاؤں کا کانکریٹ روڈ بنانے کیلئے مشرقی حصے کی ساری مشنری ، مزدور اور لوازمات جہیز میں دے دیئے گئے ۔ اور پچھلے 27 دِنوں سے مشرقی مالیگائوں والے روڈ کا تعمیری کام ٹھپ پڑا ہوا ہے یہ شاید اس لئے ہے کہ مشرقی قیادتیں بے اثر ہوچکی ہیں ۔ عوام بھی بے حس اور ظلم و ستم برداشت کرنے کی عادی ہوچکی ہیں ۔ کچھ لوگوں کا پیٹ تو مذہبی بیانات سے ہی بھر جاتا ہے ۔
اوبڑ کھابڑ راستوں کی وجہ سے گاڑیوں کے ٹائر پنکچر ہونا عام شکایت ہے ۔ ٹو وہیلر اور رکشا والوں کے شاک اَپ خراب ہوتے ہیں ان تمام تکالیف پر عوام کا کروڑوں ، اربوں روپیہ کا سرمایہ ضائع ہونے کے باوجود آگرہ روڈ کی تعمیر نامکمل رکھنے کے پیچھے کیا کوئی سازش کام کررہی ہے؟ 80ٹَکا ٹیکس ہاؤس ٹیکس ، آکٹرائے ، LBT،GSTاور اِنکم ٹیکس تک بھرنے والے مشرقی علاقے کی عوام کل بھی بَدحال تھی آج بھی بَدحال ہے آگے بھی رہے گی ۔ مالیگائوں میونسپلٹی سے لے کر کارپوریشن تک کے خزانے کو مشرق کے مقابلے میں مغرب میں بے دریغ خرچ کیا جاتا ہے۔شہر کو جوڑنے والے سبھی روڈ راستے آج اپنی ستم ظریفی پر ماتم کنعاں ہیں ۔چاہے وہ نئی تہذیب سے چندن پوری گیٹ تک کاراستہ ہو! چاہے مالدہ ہائ وے سے جمہور ہائی اسکول تک کار وڈ ہو ! چاہے پوار واڑی ہائی وے سے بڑا قبرستان تک کا روڈ ہو ! چاہے اسٹار ہوٹل سے فارمیسی کالج تک کا راستہ ہو! اور درے گائوں سے فاران اسپتال تک کا جونا آگرہ روڈ ہو ۔ہر راستہ چِلّا چِلّا کر کہہ رہا ہےکہ میں اَندھ بھکتوں اور مذہبی جنونیوں کی راہگذر ہوں ۔
جبکہ ندی کے اُس پار چِکنے چِکنے راستے ، صفائی ستھرائی ہمارا منہ چڑاتی ہے
غضب ہے جناب -نیشنل ہائی وے پر فلائی اوور کی منظور ی کا کریڈیٹ لینے کو اتاولے ہونے والے مشرقی مالیگائوں کے اہم داخلی راستوں کو دُرست کروانے سے قاصر ہیں ۔
ان کیلئے بشیر بدر کا ایک شعر نذر ہے
تم آسمان کی بُلندیوں سے جلد لوٹ آنا
ہمیں زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے
یعنی ہمیں سلیمانی چوک تا پوار واڑی راستے کی تعمیرکرنی ہے یہ ایسا راستہ ہے جہاں کے استعمال کنندگان برسہا برس سے ہر الیکشن میں مذہب اور برادری کے نام پر استعمال ہورہے ہیں لیکن ان کو ڈھنگ کی ایک سڑک تک میسر نہیں ہے ۔ لال مسجد کا افتتاح کرنے کیلئے مولانا ارشد مدنی صاحب جب اس راستے سے گذرے تو ان کے چاروں طبق روشن ہوگئے اُنھوں نے کھسیّا کر گاڑی میں پلٹ کر پوچھا کون گدھا یہاں کا لیڈر ہے ؟ جواب مِلا حضرت یہ میونسپلٹی کا کام ہے ۔سوال ہوا کہ میئر کس کا ہے؟ جواب ملا ، اپنا ہی ہےمگر سُنتا نہیں ۔اور یہ شکایت شروع دِن سے چل رہی ہے کہ کوئی سُننے والا نہیں ہے پھر بھی لاکھوں کا مجمع رہتا ہے ۔ اور جو کچھ چھچھند چل رہےہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی کچھ نہیں ہونے والا ہے۔
کیا اس شہر کو مسلم اکثریت کی سزا دی جاتی ہے ؟؟
کیا ہم اپنی بدحالی کیلئے خود قصور وار نہیں ہیں ؟؟
کیا آنے والے دِنوں میں یہ صورت حال تبدیل ہوگی؟؟
کیا اندھی عقیدت اس شہر کو کھنڈر بناکر چھوڑے گی ؟؟
کیا کام ٹھپ ہونے کا کریڈیٹ لینے کیلئے بھی تشہیری جنگ ہوگی ؟؟(باقی آئندہ)