شامنامہ ۱۹ اپریل ۲۰۲۲ء
مٹتی نہیں تاریخ سے کوئی بھی عبارت “مغلوں کا جھوٹ تاریخ سے ہٹایا جا رہا ہے اب اگلے مرحلے میں ان کا سچ بتایا جائگا۔” یہ ٹویٹ ہے دلی بی جے پی ترجمان کپیل مشرا کا-
اس طرح کے بے شمار ٹویٹس اور بیانات ہمیں پڑھنے اور سننے ملینگے جو سی بی ایس ای کے نصاب میں کی گئی ترمیم سے متعلق ہے- حکومت کی جانب سے نصابی نظام اور مواد میں ترمیم، تخفیف و تبدیلی کی جاتی رہی ہے- ۲۰۲۲ء میں این سی ای آر ٹی کی جانب سے نصاب میں بدلاؤ کا اعلان کیا گیا تھا- اس پر عمل درآمد کے لئیے سائنس ، ہندی اور تاریخ و سیاسیات کے نصاب میں ترمیم کی گئی ہے- اتر پردیش حکومت نے اس نئے نصاب پر عمل در آمد کا اعلان بھی کردیا ہے-یاد رہے سی بی ایس ای کا نصاب ملک کی کل اٹھارہ ریاستوں میں اپنایا جاتا ہے اور پانچ کروڑ طلبا ء اس نصاب کے ذریعے تعلیم حاصل کرتے ہیں- ۲۰۱۸ء میں اس وقت کے وزیر تعلیم نے نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان اعلان کیا تھا جس کے مطابق طلبا ء کی سہولت کے لئے پچاس فی صد نصابی بوجھ کم کئے جانے کی تجویز پیش کی گئی تھی-لیکن اب اس پر عمل درآمد کے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ نیت و مقاصد سے متعلق شک و شبہات پیدا کرتے ہیں-سال ۲۰۲۳ ء سے سی بی ایس ای بارہویں جماعت کے تاریخ و سیاسیات کے نصاب میں جو تبدیلی کی گئی وہ اس طرح ہے- بارہویں جماعت میں تاریخ کی تین کتابیں پڑھائی جاتی ہیں- دوسری کتاب سے جو موضوعات ہٹاۓ گئے ان میں تاریخ کا وہ دور ہے جو بابر کی ہندوستان آمد ۱۵۲۰ء سے شروع ہوتا ہے- مشہور ماہر تاریخ عرفان حبیب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ “اس طرح پورے دو سو سال کی تاریخ کو غائب کرنے کی کوشش کی گئی ہے- اور یہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے طلبا ء کی حق تلفی کے مترادف ہے- مغلوں کی تاریخ کے مطالعے کے بغیرہندوستان کی تہذیب و تمدن اور یادگار کو جاننا ممکن ہی نہیں-شیواجی، مہارانا پرتاب اور دیگر ہندوستانی راجاؤں کی تاریخ مغلوں کی تاریخ کے بغیر کیسے پڑھائی جا سکتی ہے-؟شیواجی کے کارنامے اورنگ زیب کے تذکرے کے بغیر بیان نہیں کئے جاسکتے - ہلدی گھاٹی کی لڑائی کا ذکر اکبر کے بغیر نہیں ہو سکتا-” بارہویں جماعت کے سیاست کے نصاب میں جن نکات کو ہٹایا گیا ہے ان میں گجرات فسادات سے جڑے موضوعات جیسے قومی انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ اور اٹل بہاری واجپائی کی نریندر مودی کو راج دھرم نبھانے کی نصیحت شامل ہے- گاندھی جی کے قتل سے متعلق تاریخ کو نئے نظریات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے- مذکورہ تمام نکات کس سوچ اور منصوبے کے تحت نصاب سے ہٹائے گئے ہیں با آسانی سمجھا جا سکتا ہے- دلچسپ ہے کہ اندرا گاندھی کے دور حکومت میں لگائی گئی ایمرجنسی کا واقعہ بھی اب نئے نصاب میں شامل نہیں ہے- اسے سمجھنے کی ضرورت ہے- مبصرین موجودہ سیاسی ماحول کا کہیں نہ کہیں ایمرجنسی سے موازنہ کرتے ہیں- جب ایک طالب علم ایمرجنسی کے واقعے کا مطالعہ کرتا ہے تو ان حالات کا سامنا کرتے ہوئے جمہوریت کے بچائے رکھنے کے لئے کیا کوششیں کی گئیں اور اس کے کیا نتائج ہوئے اسے بھی سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے-موجودہ نسل ان نظریات سے جس قدر لاعلم رہے موجودہ سیاسی نظام کے لئے اتنا بہتر ہے- یہاں سی بی ایس سی کے ڈائریکٹر دنیش پرساد سکلانی کا بیان بڑا دلچسپ ہے - ان کا کہنا ہے کہ کوو ڈ کے دوران جو حالات پیدا ہوئے اس کے نتیجے میں طلبا ء کی ذہنی کیفیت کی بنیاد پر نصاب میں یہ تبدیلی ناگزیز تھی-“ ۲۰۲۲ء میں جب نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ طلبا ء کے اندر تنقیدی و تخلیقی صلاحیت پیدا کی جائے- اور جب تک طلبا ء مثبت و منفی ، اچھے و برے، صحیح و غلط اور حق و باطل سے روبرو نہیں ہوں گے ان میں یہ صلاحیتیں پروان چڑھنا ممکن نہیں- یہ سچ ہے کہ کم عمر طلبا ء کے ناپختہ ذہنوں میں جن نظریات و سوچ کا بیج بو دیا جاتا ہے اسی بنیاد پر ان کی شخصیت تشکیل پاتی ہے- لیکن کیا اسکو لی نصاب میں تبدیلی تاریخ کو بدل سکتی ہے؟
یہاں بالی ووڈ میں بنائی جا رہی” مضحکہ خیز “ تاریخی فلموں کا ذکر بھی بے جا نہیں ہوگا۔ تاریخ کو توڑ مروڑ کر انٹرٹینمنٹ اور محض ایک طرفہ بہادری پیش کرنے کے مقصد سے جھوٹی کہانیاں اور کردار فلموں میں پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے- ان حالات میں بالخصوص اساتذہ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنی طلباء کو تاریخی کتب ، روداد اور سوانح حیات وغیرہ کے مطالعے کی ترغیب دیں - ماہرین تاریخ کے ذریعے تحریر کی گئیں سیکڑوں کتابیں عوامی و نجی کتب خانوں میں موجود ہیں- اس ڈیجیٹل دور میں تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے قاری کے لئے حقائق کی روشنی میں تاریخ کا مطالعہ کرنا بہت مشکل نہیں- ہاں لیکن جس منصوبہ بندی کے ساتھ سماج کے ہر شعبے میں تبدیلی لانے کی کوشش ہو رہی ہے ایک سیکولر ذہن رکھنے والے شہری کا اپنے اور آنے والی نسل کے مستقبل سے متعلق فکر مند ہونا لازمی ہے
مٹتی نہیں تاریخ سے کوئی بھی عبارت
تاریخ لکھے گی کہ لکھا کاٹ رہے ہیں
تحریر : عامر ی عظمت اقبال 9970666785
__________________
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 517 : سکینہ کی چو ڑیاں
افسانہ نگار : زہرہ سعید (افغانستان)
مترجم : خالد فرہاد (سیالکوٹ)
جب میں دس سال کی تھی، میری ہم عمر ایک سہیلی تھی جس کا نام سکینہ تھا۔ جب ہم دوست تھیں، اس وقت میرے خاندان میں چھ بیٹیاں تھیں۔ تب تک میرے دونوں چھوٹے بھائی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ سکینہ سات شادی شدہ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ اس کا گھر ہمارے مکان کے بالکل سامنے تھا۔ اس کے ابا بہت سخت تھے اس لئے سکینہ کو گھر سے باہر زیادہ دیر تک کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب وہ اپنے گھر کا کام نپٹا لیتی، اس کی ماں تبھی اسے ہمارے گھر کے احاطے میں آنے دیتی، جبکہ اس کے ابا اس وقت قیلولہ کر رہے ہوتے۔
ایک خشک برساتی نالہ تھا جو ہمارے گھروں کو جوڑتا تھا۔ سال میں محض دو بار اس میں پانی آتا اور وہ بھی کم کم ہی۔
نالے کے بغل میں سکینہ کے گھر کی دیوار میں ایک تنگ روزن تھا۔ یہ اس کے رینگ کر گزرنے کے لئے کافی تھا۔ اسے میری بڑی بہن نے سکینہ کے لیے دریافت کیا تھا۔ سکینہ کا باپ جب خراٹے لینے لگتا، وہ ہماری طرف رینگ آتی اور ہمارے ساتھ کھیلتی کودتی۔
میرے والد اکثر کاروباری دوروں پر باہر رہتے۔ بچوں کو وقت نہ دے سکنے کے سبب وہ اپنے ہر بچے کے لیے تھیلا بھر کر کھلونے لاتے۔ انہوں نے آنگن میں ہمارے لیے ایک چھوٹا سا کھلونا گھر بنا رکھا تھا۔ ہم اسے ان کھلونوں سے بھر دیتے جو وہ ہمارے لیے لاتے تھے، ننھے چمکیلے کھلونے، کھانا بنانے کے برتن، گڑیوں کے استعمال کے لیے بنے ننھے پیالے، اور چوبی اعضاء والی پارچہ جات سے بنی گڑیا۔
ہمارے کھیلوں میں فرضی ضیافت کے لیے پتے، بیر، گھاس اور دھول اکٹھی کرنا شامل ہوتا۔ ہم اپنی گڑیوں کو یوں اٹھائے رہتے گویا وہ ہمارے بچے ہوں اور ہم کمال مہارت سے اپنی ماؤں کی نقل کرتے۔ ہم ساتوں کا اپنی ہی دنیا میں مگن دن بیت جاتا۔ تنہا ایک آواز جو ہمارے کھیل میں مخل ہوتی وہ سکینہ کے ابا کے کھانسنے کی آواز تھی۔ یہ ہمیں ہمیشہ اس بات کی خبر دیتی کہ وہ جاگ گئے ہیں اور جلد ہی سکینہ کو ڈھونڈ نکالیں گے۔
سکینہ کی کلائیاں اور ٹخنے خوبصورت چوڑیوں اور پازیبوں سے بھرے رہتے تھے۔ میں اور میری بہنیں اس کے کنگنوں کو بہت پیار کرتی تھیں کیونکہ ہمیں کبھی کوئی ایسی چیز پہننے کی اجازت نہیں تھی جس سے بہت شور ہوتا ہو۔ ہم اپنے ابا کی موجودگی میں گنگنا اور گا بھی نہیں سکتی تھیں۔ لہٰذا ہم سبھی چھ بہنیں اس کے کھنکھناتے گہنوں سے حیران تھیں، جنہیں پہننا ہمیں ممنوع تھا۔ اس کی نقل کرتے ہوئے ہم اپنی کلائیوں اور ٹخنوں کے گرد بیلیں لپیٹ لیتی تھیں۔ کم از کم، اپنی خیالی دنیا میں ہی سہی، ہم سکینہ کی چوڑیاں اور پازیبیں پہن سکتی تھیں۔
ایک رات ہمیں اس کے گھر سونا پڑا کیونکہ ہمارے والدین کو اچانک ایک سفر پر جانا پڑ گیا۔
سکینہ کی ماں، ہماری دادی کے آ جانے تک میری بہنوں اور میری نگہداشت کے لیے راضی ہو گئی۔ یہ صرف دو دن کے لیے تھا۔ پہلی رات، سکینہ نے اپنی چوڑیاں اور پازیبیں اتار دیں تھیں۔ چونکہ سب سو رہے تھے، میں سکینہ کے زیورات پہننے کی اپنی خواہش کو دبا نہ سکی۔ میں اس کے خوابیدہ چہرے کے قریب گئی اور سرگوشی میں کہا، “سکینہ؟ سکینہ؟ کیا میں انہیں پہن لوں؟ سکینہ؟ میں انہیں تھوڑی دیر کے لیے ہی پہنوں گی۔” اس نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ میں نے اسے بے دلی سے ہی جگایا تھا تاکہ کہیں وہ منع نہ کر دے۔
اپنے ضمیر کے مطابق میں نے پوچھنے کا تردد کیا تھا تاکہ میں اس کے گہنے پہننے پر خود کو قصوروار محسوس نہ کروں۔
ایک کونے میں جا کر میں نے اس کی چوڑیاں اور پازیبیں پہن لیں۔ وہ میری جلد پر کتنی پیاری لگ رہی تھیں۔ کتنی بھاری ! لیکن وہ اس کے لیے ہی تھیں، جتنی بار میں نے ہاتھ پاؤں ہلائے وہ کھنک اٹھیں۔
“چھن! چھنن! چھن!” جب میں سو رہی اپنی بہنوں کے اوپر سے گزری تو وہ میرے ہاتھوں پیروں میں وہ بج اُٹھیں۔
“چھن! چھنن! چھن!” چلنے اور ہاتھ ہلانے نے مجھے اچانک اہم اور بامعنی ہونے کا احساس کرایا۔ میں عقبی دروازے کے پاس رک گئی اور آگے پیچھے چلنے لگی۔ میں نے اپنے پاؤں کو ہلکا سا پٹکا اور چوڑیوں کے ایک ساتھ ٹکرانے کی آواز سنی اور یخ زیورات کو اپنی جلد کو گرماتے ہوئے محسوس کیا۔
“چھن! چھنن! چھن!” اس جھنجھناہٹ کے دوران میں نے محسوس کیا کہ میں نے کافی زیادہ پانی پی لیا تھا اور اب اس کا خمیازہ بھگتنے کا وقت آ گیا تھا۔ میں اکیلے رات کو باہر جانے سے ڈرتی تھی لیکن میں اپنے معمولی جرم کے سبب کسی اور کو جگا بھی نہیں سکتی تھی۔
میں نے ہمت مجتمع کی اور اکیلی ہی کمرے سے باہر نکل گئی۔
“چھن! چھنن! چھن!” میں نے کم از کم اتنی چوڑیاں کھنکائیں کہ یہ آواز صحن میں ٹہلتے یا درختوں کی شاخوں سے لٹکتے کسی جن کو ڈرا کر بھگانے کے لیے کافی تھی۔
“چھن! چھنن! چھن!” اس آواز نے مجھے خوش کر دیا اور میں بھول ہی گئی کہ اس اندھیرے میں مجھے رفع حاجت کے لیے بیت الخلا کی تلاش ہے۔
“چھن! چھنن! چھن!” آخرکار چہل قدمی سے ہونے والی مدھر آواز سے میں سکینہ کی طرح ہی محظوظ ہو رہی تھی۔
“چھن! چھنن! چھن!” لیکن سکینہ اپنی چوڑیوں کی آواز کو اپنے ابا کی آہٹ پا کر بند کرنے کی سعی کیوں کرتی تھی؟ اور کبھی کبھی انہیں دیوار کے روزن میں کیوں رکھ دیا کرتی تھی ؟
“چھن! چھنن! چھن!” کیا وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہم ان کے ساتھ کھیلیں؟
“چھن! چھنن! چھن!” کیا اس کا خیال تھا کہ ہم انہیں توڑ دیں گی؟
“چھن! چھنن! چھن!” اچانک گہری خاموشی کے درمیان تین گولیاں چلنے کی آواز فضا میں گونجی اور گویا آسمان تین ٹکڑوں میں منقسم ہو گیا۔ میں فرش پر لڑھک گئی اور میرا پیشاب کپڑوں میں خطا ہو گیا۔
سکینہ کے ابا چھت پر سے پشتو میں چلائے، “تم اکیلی کہاں جا رہی ہو سکینہ؟ فوراً واپس جاؤ ! تمہاری ماں تمہارے ساتھ کیوں نہیں ہے؟”
گولی چلنے کی آواز سے سارا گھر جاگ گیا تھا۔ میں نادم و شرمسار، میری سبھی بہنوں، سکینہ، اس کی ماں اور اس کے ابا کو بھی میرے جرم کا پتہ چل جائے گا۔ میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں بمشکل دری میں کہا، “انکل، یہ میں ہوں شریں گل۔ میں کسی کو جگانا نہیں چاہتی تھی۔ مجھے جلدی تھی۔”
“شریں گل؟” سکینہ کے پریشان باپ نے کہا، “اوہ ! مجھے معاف کرنا میری جان، تم سکینہ کی طرح لگ رہی تھیں اور مجھے غصہ آ گیا کیونکہ اسے اندھیرے میں تنہا باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ تمہیں اپنی کسی بہن کو ساتھ لینا چاہیئے تھا۔”
سکینہ اور اس کی ماں ہنس رہی تھیں کیونکہ انہوں نے ہی سب سے پہلے میرے خوفزدہ چہرے کو دیکھا تھا۔ جلد ہی میری پریشان بہنیں بھی ہنسنے لگیں بلکہ سب سے بڑی بہن نے مجھے گلے لگا لیا۔ میں اس ساری ہنسی ٹھٹھول کے دوران ہلنے کی جراٴت نہ کر سکی۔ میں اپنے لہنگے سے ڈھکی زیر پا گیلی زمین کو دکھا کر مزح میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
میں چہرے کو اپنی ہتھیلیوں میں چھپائے وہیں کھڑی رہی اور انگلیوں کے درمیان سے جھانکتی رہی۔
اس رات، میں نے سکینہ کا چوڑیوں کی آواز کو دبانے یا انہیں چھپانے کا راز جان لیا۔ جب وہ چوڑیاں پہنے ہوتی، اس کے ابا کو معلوم ہو جاتا کہ وہ کہاں ہے۔ کیونکہ ماں کی چوڑیوں کی جھنجھناہٹ اس کی چوڑیوں سے بالکل الگ تھی۔
جب دادی ہمیں سکینہ کے گھر سے واپس لینے آئیں تو انہیں سارا ماجرا سنایا گیا۔ بالعموم افسردہ رہنے والی میری دادی تب تک ہنستی رہیں جب تک کہ ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں آ گئے۔ میں ندامت کے باعث سکینہ کی کپڑوں والی الماری کے پیچھے جا چھپی، حتیٰ کہ دادی نے مجھے آ لیا۔ میری خوش بختی کہ سکینہ نے مجھے اپنے زیورات پہننے کے لیے معاف کر دیا تھا۔ دراصل اس نے کہا کہ مجھے پوچھ لیتی تو وہ خود انہیں میری کلائی میں پہنا دیتی۔ وہ میری بہترین سہیلی تھی اور اس واقعہ نے ہمیں باہم مزید قریب کر دیا۔
گھر آ کر دادی نے مجھے تھوڑا ڈانٹا اور پھر کریانہ کی خریداری کے لیے اپنے ساتھ لے گئیں۔ انہوں نے کہا کہ میری سزا یہ ہے کہ دوکان سے گھر تک سودا اٹھا کر لے جاؤں۔ ہم جب بازار پہنچے تو ترکاری فروش کی بجائے وہ مجھے سیدھا اس ناٹے منیار کے پاس لے گئیں جو چوڑیاں اور پازیب بیچتا تھا۔ باتوں سے حیران و ششدر، میں نے تحریص سے ہر دو کلائیوں میں چمکیلی گلابی چوڑیاں پہن لیں اور اپنی دادی کا ہاتھ چوم لیا۔
دادی خود بھی خوش تھیں۔ انہوں نے میری ہر بہن کے لیے ایک ایک سیٹ خریدا۔ جب ہم گھر لوٹیں اور سب میں تحائف تقسیم کئے تو میں اور میری بہنیں اتنی شادمان تھیں کہ بمشکل ہم اس خوشی پر قابو رکھ سکیں۔ اپنے گھر کے ہر کمرے میں ہم چوڑیاں کھنکاتی گھوم رہی تھیں۔ ہم نے سکینہ کے گھر کے پاس چوڑیاں کھنکھنائیں اور اسے پکارا۔ ہماری چوڑیوں کی جھنجھناہٹ کے سبب وہ اب مسلسل چوڑیاں پہنے رہ سکتی تھی اور اس کے ابا اسے پہچان نہ پاتے۔ ہمارے آنگن میں اتنا شور ہوتا کہ انہیں پتہ نہ چلتا کہ سکینہ گھر کا کام کرنے کی بجائے ہمارے ساتھ کھیل میں مشغول ہے۔
میں اور میری بہنیں جانتی تھیں کہ یہ تب تک چلے گا جب تک ہمارے والدین لوٹ نہیں آتے۔ ہمارے والدین کی تیز کھنکھناہٹ کے درمیان ہی آمد نے ہمیں حیران کر دیا۔ پہلے پہل میرے ابا بہت مشتعل ہوئے اور انہوں نے اپنی چھ چنچل بیٹیوں کو مار پیٹ کر ادھ موا کرنے اور چوڑیوں کو توڑ پھوڑ کر ایک گیند بنا دینے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ ہم سب رنگے ہاتھوں پکڑی گئیں تھیں اور ان کے غیض سے ڈری ہوئیں تھیں لیکن دادی نے اپنی چھڑی کی ایک فوری حرکت سے ابا کا ہاتھ روک کر ہمیں بچا لیا۔ پھر انہیں بڑے آرام سے بتایا کہ سکینہ کے گھر کیا ہوا تھا۔ میری ندامت کا سبب بننے والی یہ تفصیل بتانے سے بھی انہوں نے گریز نہیں کیا کہ کیسے میں نے سکینہ کے ابا کے ڈر سے اپنے کپڑے گیلے کر لیے تھے۔ کسی طرح دادی کی کہانی نے ان کا غصہ دور کر دیا اور اب ہمارے والدین مسکرا رہے تھے۔
ہمارے ابا نے ہمیں چوڑیاں پہننے کی اجازت دے دی اور ان کے شور کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ البتہ ہم بہنوں کو معلوم تھا کہ ایک دن جب ہماری کانچ کی یہ چوڑیاں ٹوٹ جائیں گی وہ انہیں دوبارہ خرید کر نہیں دیں گے۔
سال گزرتے رہے، میں اور سکینہ اچھی سہیلیاں بنی رہیں۔ میری شادی سے ایک رات قبل اس نے چوڑیوں کا قصہ میرے ہاتھوں میں مہندی لگانے آئی خواتین اور لڑکیوں کو مزید دلچسپ بنا کر سنایا۔ وہ سب محظوظ ہوئیں۔ میں نے گھونگھٹ میں منہ چھپا لیا لیکن مجھے بھی اس کہانی نے دوسروں کی طرح بہت لطف دیا۔ کسی طرح یہ کہانی میرے خاوند کو بھی پتہ چل گئی۔ شاید ان کی چھوٹی بہن نے ان کے گوش گزار کر دی تھی۔ ہمارے ماہِ عسل کی دوسری شب انہوں نے مجھے سونے کی چوڑیوں کے دو سیٹ اور ایک جوڑی پازیب کا تحفہ دے کر چونکا دیا۔ میں ان کے اس تحفے سے مسحور تھی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں میری خوشی درکار ہے اور وہ میرے بازوؤں کو کلائی سے کہنی تک چوڑیوں سے بھر دینا چاہتے ہیں۔ میں اب سوچتی ہوں کہ یہ تحائف سکینہ کے ابا سے ملی تربیت کا ثمر تھے۔
(انگریزی سے ترجمہ : خالد فرہاد)
English Title : Sakeena’s Bangles
مصنفہ کا تعارف:
زہرہ سعد (Zohra Saed)
زہرہ سعید بروکلین میں مقیم ایک افغان امریکی شاعرہ اور افسانہ نویس ہیں۔ وہ 1975 میں جلال آباد، افغانستان میں پیدا ہوئیں۔ افغانستان کے اندر 1978 میں جب کمیونسٹ بغاوت ہوئی تو زہرہ سعید کا خاندان سعودی عرب میں تھا، بعد ازاں وہ امریکہ میں پناہ گزیں ہو گیا۔ زہرہ سعید ہنٹر کالج میں عرب امریکی ادب پڑھاتی ہیں اور فی الحال سٹی یونیورسٹی آف نیویارک گریجویٹ سینٹر سے ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔ وہ ‘افغان کمیونکیٹر’ کی مدیر ہیں۔ ان کی یہ Sakeena’s Bangles کہانی افغان رسالے ‘لیمر آفتاب’ اپریل ستمبر 1999 کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔
_____________
" خمسہ بر غزلِ جون ایلیا " .
رفاقت کیا اذیت ہے ؟؟ نہیں تو!
مجھے تم سے محبت ہے ؟؟ نہیں تو!
مجھے کیا خوفِ فرقت ہے؟؟ نہیں تو!
"یہ غم کیا دل کی عادت ہے ؟ نہیں تو!
کسی سے کچھ شکایت ہے ؟ نہیں تو! "
دعا کے بِن ، کسی فریاد کے بِن ،
بدن میں رُوح کی بُنیاد کے بِن ،
بدن کی قید میں صیاد کے بِن ،
"کسی کے بِن ، کسی کی یاد کے بِن
جیے جانے کی ہمت ہے ؟؟ نہیں تو ! "
مِری وحشت سے خِلقت بھی ہے لرزاں!!
خُدا بھی ہو گیا ہے مجھ سے نالاں..
مِرے سینے میں اِک آتش ہے پنہاں!!
"کسی صورت بھی دل لگتا نہیں؟ ہاں!!
تو کچھ دن سے یہ حالت ہے؟ نہیں تو! "
نہیں ہے مجھ کو بھی کسی سے نفرت ،
ہیں سب غم جانتا ہوں رازِ قدرت ،
ہے میرے دکھ سے غافل ، وائے خِلقت!!
"تِرے اِس حال پر ہے سب کو حیرت ،
تجھے بھی اِس پہ حیرت ہے؟ نہیں تو! "
میں اپنی کر کے پھر تفسیر اُس کو ،
دِکھا دوں اُس کی میں تصویر اُس کو ،
مِلائے مجھ سے پھر تقدیر اُس کو ،
"ہے وہ اِک خوابِ بےتعبیر ، اُس کو
بھلا دینے کی نیت ہے ؟؟ نہیں تو ! "
اِک آنسو نے یہ مجھ پر رمز کھولی ،
اِک آیت میں چُھپی ہیں رمز ساری!!
سو خود میں جھانک کر یہ بات پوچھی ،
"ہم آہنگی نہیں دنیا سے تیری..
تجھے اِس پر ندامت ہے؟؟ نہیں تو! "
سبھی غم مجھ سے ہی مرقوم تھا کیا ؟؟
تو میں ہی صبر کو ملزوم تھا کیا ؟؟
میں ' آیةِ صبر ' کا مفہوم تھا کیا !؟؟
"ہوا جو کچھ یہی مقسوم تھا کیا ؟؟
یہی ساری حکایت ہے ؟؟ نہیں تو! "
دلِ مُضطر کی فریادوں سے تجھ کو ،
شبِ ہجراں کی تعبیروں سے تجھ کو ،
سکوتِ شب کی سب یادوں سے تجھ کو ،
"اذیت ناک امیدوں سے تجھ کو ،
اماں پانے کی حسرت ہے؟؟ نہیں تو! "
میں پھر یہ کہہ رہا ہوں کر کے جرات ،
مِری ہر بات میں ہوتی ہے حکمت ،
عطا کیا چیز ہے؟ کیا شے ہے محنت؟
"وہاں والوں سے ہے اِتنی محبت ،
یہاں والوں سے نفرت ہے ؟ نہیں تو! "
وہ یارو چھوڑ کر جو کیا گیا ہے ،
کلیجہ میرا منہ کو آ گیا ہے!!
یہ منظر روح کو دہلا گیا ہے!
"وہ درویشی جو تج کر آ گیا ہے !!
یہ دولت اسکی قیمت ہے؟؟ نہیں تو! "
ہُوا ماضی کے کسی باب میں گُم!
کبھی رنج و الم کی تاب میں گُم!
یہ دنیا ہے حبابِ ناب میں گُم!
"تُو رہتا ہے خیال و خواب میں گُم!
تو اِسکی وجہ فرصت ہے؟ نہیں تو! "
مجھے وحشت سے کچھ حاصل ہوا ہے؟؟
مِرا دشمن خُدا سے بھی بڑا ہے!؟؟
مِرے دل میں کبھی بھی شک رہا ہے؟؟
"سبب جو اِس جدائی کا بنا ہے!
وہ مُجھسے خُوبصورت ہے؟؟؟ نہیں تو !! "
_________
نظم: شاعر اور مزدور🔴علی زیرک
بہت خون تھوکا
[مگر شاعری میں]
بہت خواب دیکھے
[مگر دوسروں کے]
اصولوں کی سل سے بندھی خواہشوں کابھی نوحہ کریدا
کتابیں لکھیں ؛ شعر ، غزلیں بہت پھیکی نظمیں
دلائل کا غوغا ، کہیں رائگانی کی زنجیر کھینچی
کہیں صرف پستان اور ناف تک ہی ہنر کی درانتی چلائی
مگر کارخانے کے اندر بندھے ریوڑوں سے
پسینے کی بدبو ، گھنے جوہڑوں سے شناسا نہیں تھا
کبھی بس کی چھت پر ٹھٹھرتے ہوئے تند جاڑے میں کھیسی کی بکل
کبھی ایک روٹی پہ دون توکل
کبھی صرف پانی کے دوگھونٹ پینا
کبھی حلق میں اک ادھڑتی طلب پر بجھے سگریٹوں سے جھڑی آگ سینا
کواڑوں کے پیچھے چھپے روگ جینا
بہت ہی کٹھن ہے
یہ شبدوں کی شوکت جو اردو کےچولہے پہ رکھے بڑے دیگچے میں
برس ہا برس سے "گڑکتی" رہی ہے
اسے میں اتاروں ، سڑک پر پساروں
بجھی آنکھ والے لرزتے لڑھکتے ہوئے ایک مزدور کو دگنی اجرت پہ رکھوں
اور اگلی صدی تک دبا کے لتاڑوں
______