عتیق احمد ،،،آپ کس جانب ہیں ؟؟؟
اصل میں یہ سوال ہی میں نے غلط کرلیا، پورے ہندوستان میں صرف یوپی، اور عتیق کے آبائی گاؤں کے علاوہ، انگلیوں پر گننے اتنے ہی مسلمان ہونگے جو عقیق احمد قتل پر خوش تو نہیں کہونگا، لیکن عقیق احمد کو حق بجانب نہ قرار دیتے ہونگے،
حالانکہ حقائق کہے دور نہیں، پہلی بات تو میرا عتیق احمد مرحوم کی کوئی برائی کرنے کا موڈ نہیں، مجھے اس سے اس کے اہل خانہ سے فطری طور پر ہر مسلمان کی طرح ہمدردی ہے، اصل میں ہم نے نبی کریم کی اس حدیث کا کچھ اپنے مفاد کے حساب سے جان بوجھ کر مطلب نکال لیا ہے، جس میں کہا گیا ہیکہ اپنے مرحومین کی برائی نہ کرو، انکو صرف اپنے اچھے کاموں سے یاد کرو، یہاں یہ بات ضرور سمجھنے کی ہیکہ، حدیث میں برراعی نہ کرنے کو کہا گیا ہے، لیکن ہم چار قدم آگے بڑھ کے اپنے مرحومین کو مسیحا، ہیرو اور رحمت اللہ علیہ بنانے پر تل جاتے ہیں ،یاد رہے اسکی بھی اجازت نہیں، مسلمان حق پرست ہوتا ہے، ہر وقت ہر حال میں، معاملہ چاہے، اپنو کے درمیان ہو یا غیرو کے،
ظلم ظلم ہوتا ہے، چاہے کوئی کافر مومن پر کرے، یامومن کافر پر کرے، دونوں کیلئے یکساں قانون ہے، مسلمان کبھی کسی ظالم کا بیجا طرف دار نہیں ہوسکتا، چاہے اسکا دل کتنا بھی جھکاؤ رکھے، میرے کہنے کا مقصد قطعی یہ نہیں کہ، عتیق احمد کو برا سمجھنے لگے یا اس سے نفرت کا اظہار کریں، میرامقصد صرف نظریات کی تعمیر ہے، کہ ہم ایمانداری سے غیر جانب داری سے سوچنا شروع تو کردیں، پھر اسکی برکتیں خدا آپکو خود دکھا دیگا، آپ کے زہن اور سوچ کو خدا وہ وسعت دیگا، کہ دنیا آپکو بونی نظر آنے لگے گی،
یقین جانئے لاکھوں میں سے چند لوگوں کو سوچنا آتا ہے اور ان لاکھوں میں، میں تعلیم یافتاوں کی کثرت ہے، کہنے کا مطلب کسی کی ڈگری، اور عہدہ دیکھ کر یا نہ سمجھ لینا کہ یہ جو کہہ رہا ہے سہی ہوگا، اور خاص طور پر، خاص طور پر، مزہبی رہنماؤں کی بات سے فورا مثاثر نہ ہوجایا کرو، یا بلا سوچے سمجھے، انکی بات کو شریعت کی تعلیم یا خدا رسول کا حکم نہ سمجھ لیا کرو، ملاوں کی اکثر یت، خود بھی گمراہ ہوتی ہے، اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتی ہے،مجھے سب سے زیادہ قلبی لگاؤ ہے تو اہل مدارس سے لیکن مجبورا مجھے ہر بار انکا ذکر منفی انداز میں نا چاہتے ہوئے بھی کرنا پڑجاتا ہے، کیونکہ عوام کی اکثریت انہی کی باتوں سے متاثر ہوتی ہے، اگر میرے دعوے کی تصدیق کرنا ہےتو، پچھلے ایک ہفتے کا دیندار طبقے کا پروفائل چیک کرلیں،،
خدا کو انصاف کرنا ہے، وہ سب جانتا ہے، عقیق احمد کے چاہنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، اور نفرت کا اظہار کرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں، میں صرف مسلمانوں کی بات کررہا ہو، ہزاروں مسلمان ہیں جو عتیق احمد سے سخت نفرت کرتے ہیں، حالانکہ انصاف کا پلہ ایک جانب جھکا ہوا ہے، اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ، عتیق احمد سے نفرت یا بیزاری کا اظہار کیا جائے، یقینا، اس کے اہل خانہ پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے، اسکے بچے یتیم ہوگئے، بحیثیت مسلمان ہم کو اس سے اس کے اہل خانہ سے ہمدری ہے، اور اگر نہیں ہوگی تو، ہمارے مسلمان ہونے پر ہی شک کھڑا ہوجائیگا،
عتیق کی بدولت ہی مسلمان کی جانب فرقہ پرست آنکھ آٹھانے سے ڈرتے تھے، اگر عتیق احمد سے کچھ اونچ نیچ ہو عی ہوتو، اللہ، متاثرین کے دلوں کو نرم کرے، انکو بہترین تلافی عطا کردے، اور عتیق احمد اور اس کے مرحوم اہل خانہ کے اچھے کاموں کی ودولت اسکے، برے کاموں کی تلافی کردے، اور اسکی مغفرت کرے، بے شک اللہ بہترین معاملہ کرنے والا ہے، لیکن، عتقی احمد کا سوگ سوشل میڈیا پر منانے کی ضرورت نہیں۔۔ورنہ دنیا و آخرت دونوں ہی جگہ پکڑ میں آنے کے امکان ہیں، بقیہ آپ سوچ آپکی مرضی۔
____________
افسانہ *آس*
قلمکار :- نورالدین نور (مالیگاؤں ، مہاراشٹر ،انڈیا)
آپ آگۓ! کیسا رہا جی آپکا انٹرویو ؟؟ جیسے ہی حسن گھر میں داخل ہوا اسکی رفیقہ حیات نمرا نے سوال کیا - تھکا ماندہ حسن اپنی وفا شعار بیوی کے لبوں پر رقص کرتی مسکراہٹ میں کھو گیا - کچھ توقف کے بعد پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ، ہممم اچھا ہی رہا، انہوں نے کہا ہے کہ وہ رابطہ کریں گے - ابھی اور بھی امیدوار انٹرویو کیلئے باقی ہیں - کہتے ہوئے وہ پاس رکھی نیم خستہ حال کرسی پر ڈھیر ہوگیا - آنکھیں موند کر اپنی اکھڑی سانسیں درست کرنے لگا - بچّے اسکول سے نہیں آۓ ابھی ؟ اس نے پوچھا ، وقت ہو چلا ہے آتے ہی ہوں گے کہتے ہوئے نمرا نے اسے شربت کا گلاس تھما دیا - اس نے مسکراتی ہوئی نگاہوں سے اپنی بیوی کی ستائش کی اور شربت پینے لگا - شربت کے ہر ایک گھونٹ کے ساتھ تلخ غموں کو یکے بعد دیگرے نگلتا رہا - نمرا باورچی خانے میں مصروف ہوگئی اور وہ تصورات کی وادی میں کھو گیا - صبح کے انٹرویو کی یادوں نے شربت کے ذائقہ میں تلخی گھول دی تھی - شربت ختم کرکے اس نے گلاس میز پر رکھا اور چند ساعتوں میں ہی وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا -
حسن معاشی طور پر ایک نچلے درمیانی طبقے کا فرد تھا - شریف النفس تھا ، عمر تقریباً 36 سال ، آنکھوں پر عینک جازب نظر لگتی تھی - متانت و سنجیدگی ہمہ وقت چہرے سے جھلکتی تھی - متناسب و پرکشش داڑھی جسمیں سیاہ و سفید بالوں کا سنگم ، کانوں کے اطراف ہلکی سی چاندنی اور جھکے ہوئے شانے اسکی بڑھتی عمر کی چغلی کھاتے تھے - یوں وہ اپنی عمر سے زیادہ کا دکھائی دیتا تھا - اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشے سے معلم تھا - گزشتہ 9 برسوں سے مختلف نجی اسکولوں میں خدمات انجام دیتا چلا آرہا تھا - محلے کے معتبر افراد میں اسکا شمار ہوتا تھا - معاملات کے حل کا وہ ایک ایسا دریا تھا جس سے لوگ خوب فیض اٹھاتے تھے -
بچوں کی اسکول سے واپسی اور سلام کی آواز پر خوابیدہ حسن بیدار ہوا- بچے ہی اسکی کل دولت تھے - بیٹی شمائلہ ہفتم جماعت میں تھی اور بیٹا انذر جماعت چہارم میں تھا - دونوں بچے سرکاری اسکول میں زیرتعلیم تھے - اس نے بیدار ہوتے ہی برجوش انداز میں بچوں کے سلام کا جواب دیا - انھیں گلے دے لگا کر دعائیں دیں - وہ جب بھی اپنے بچوں کے معصوم چمکتے دمکتے چہروں کو دیکھتا تو یکسر اپنے سارے غم بھول جاتا تھا - سورج شفق کی لالی کو سپرد آسماں کر کے مغرب کی سنگلاخ پہاڑیوں میں غائب ہو چکا تھا - کچھ دیر بعد موذن صاحب کی صداۓ اللہ اکبر سے سماں گونج اٹھا - وہ فوراً اپنا حلیہ درست کرکے انذر کو اپنے ہمراہ لیۓ تیز قدموں سے مسجد کی جانب روانہ ہوا- فرض نماز کے بعد وہ طویل دعا میں مصروف رہا ، اسکی نیم روشن آنکھیں نمناک تھیں - دعا ختم کرکے ایک یقین کے ساتھ سنت نماز ادا کرنے کیلئے کھڑا ہوگیا - اچانک ہی وہ غش کھا کر کٹی پتنگ کی مانند لہرا کر گر پڑا - بغل میں ہی محلے کے دستگیر چاچا کا جواں سال بیٹا فارق تسبیح میں مشغول تھا - حسن فارق کے شانوں پر ہی گرا تھا اسی وجہ سے اسے زیادہ چوٹ نہ آئی - فارق نے اسے سنبھال کر لٹا دیا اور اسکے بدن کو جنبش دیتے ہوئے تشویش بھرے لہجے میں پکارا ، کیا ہوا حسن بھائی ؟وہ تو حواس سے بیگانہ ہوا جارہا تھا اسے فارق کی آواز دور سے آتی ہوئی معلوم ہوئی - تھوڑی دیر میں وہ مکمل بے ہوش ہوچکا تھا - گرنے کی آواز اور فارق کی پکار سن دوسرے مصلیان بھی جمع ہوگئے - دستگیر چاچا بھی نماز سے فارغ ہوچکے تھے فوراً جائے وقوعہ پر پہنچے - چند افراد اٹھا کر اسے مسجد سے باہر لے آۓ اور آٹو رکشا کے ذریعے قریب کے اسپتال لیجایا گیا - تھوڑے علاج و معالجے کے بعداسے ہوش آیا - خود کو اجنبی جگہ پاکر ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا - دستگیر چاچا نے فوراً تھام لیا اور دوبارہ لٹادیا - نرمی سے کہا لیٹے رہو بیٹا ، اب کیسا لگ رہا ہے تمھیں ؟ اس نے چاچا کے سوال کو نظر انداز کر کے پوچھا ، میں یہاں کیسے آپہنچا ؟میں تو مسجد.... اور انذر کہاں ہے ؟ دستگیر چاچا اور فارق نے واقعہ بتایا - کچھ دیر رک کر دستگیر چاچا نے پوچھا ، کیا بات ہے حسن ابھی تو کچھ خاص عمر بھی نہیں اور تمھیں یوں غش آنے لگے ؟ اسکے کے چہرے پر کئی رنگ آکر گزر گۓ - ہونٹ کپکپا کر رہ گئے-مگر الفاظ ندارد ہاں آنکھوں نے بہت کچھ کہہ دیا - دو باریک سی نہریں آنکھوں سے نکل کر رخساروں کے نشیب وفراز سے گزرتی ہوئی قمیص کے کالر میں جذب ہو گئیں - چاچا نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا - وہ کچھ سوچنے لگے پھراسکی کی جانب متوجہ ہوۓ تو اسکی آنکھوں میں التجا اور چہرے پر کئی سوالات نظر آۓ - چاچا نے کہا کوئی کی خاص بات نہیں ہے بیٹا ڈاکٹر نے کہا ہے تمھیں آرام کرنے کی ضرورت ہے - نرس نے ڈاکٹر کے آنے کی اطلاع دی - دستگیر چاچا دیر تک ڈاکٹر کی کیبن میں مصروف رہے - باہر نکلے تو پیشانی پر گہری تشویش کے آثار تھے- یہی سوال بار بار ذہن میں اٹھتا کہ آخر نروس بریک ڈاون کیوں ہوا ؟حسن کو کیا صدمہ ہوا ہے ؟؟؟
اسی ادھیڑ بن میں حسن کو ڈسچارج کرواکر گھر لے آۓ تھے - حالانکہ فارق نے اطلاع دے دی تھی کہ حسن بالکل ٹھیک ہے مگر جب تک وہ گھر نہیں پہنچا وہ بے قرار رہی - چند گھنٹے اسے صدیوں کی مانند لگے - رات گہری ہوتی جارہی تھی - چاند اپنے پورے شباب پر تھا - اپنے شوہر کو دیکھتے ہی نمرا کا چہرا دودھیا چاندنی میں چاند سے بھی زیادہ روشن ہو گیا - حسن کو گھر میں پہنچا کر دستگیر چاچا نے اسے زیادہ سے زیادہ آرام کرنے اور سخت غم و غصہ سے بچنے کا مشورہ دیا - اور اپنے گھر روانہ ہوگئے -
رات خیریت سے گزری - دواؤں کے زیراثر وہ دیر تک سوتا رہا - دن چڑھے بیدار ہوا تو بچے اسکول جاچکے تھے - ناشتہ کے بعد نمرا نے اسکے آگے اخبار رکھ دیا اور ایک اشتہار کی جانب مسکراتے ہوئے اشارہ کیا -
جلی حروف میں لکھا تھا
*فوری ضرورت استاذ*
سن رائز ہائی اسکول میں ایک قابل اور تجربہ کار استاز کی ضرورت ہے - امیدوار کا انگریزی زبان و ادب اور گرامر سکھانے میں ماہر ہونا لازمی ہے
مکمل سرکاری اسامی*
*نوٹ :- قابلیت اور تجربہ کو ترجیع دی جائے گی*
اشتہار پڑھتے ہی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا - وہ تصورات کے لامتناہی سمندر کی گہرائی میں غرق ہوگیا - گزشتہ روز امداد قوم ہائی اسکول کے انٹرویو کی ایک فلم اسکے تصورات میں چلنے لگی - اپنے چہیتے اساتذہ کو انٹرویو لینے والی ٹیم میں دیکھ کر وہ کتنا خوش ہوا تھا - انہوں نے ہمیشہ ایمانداری اور جفاکشی کا درس سکھایا تھا - مگر - انٹرویو کے وقت دستاویزات کی فائل ایک جانب رکھ کر بس ایک ہی سوال پوچھا تھا - آپ کتنا دے سکتے ہیں؟ وہ تو سکتے کی حالت میں استاذ محترم کو بس دیکھتا رہ گیا تھا - اسے خاموش دیکھ کر ان میں سے ایک نے کہا ، دیکھۓ حسن سر آپ اگر دس لاکھ دے سکتے ہیں تو ٹھیک ہے- آپکی قابلیت کو دیکھ کر چئرمین صاحب راضی ہوگئے ورنہ کئی امیدوار اس سے زیادہ پر بھی تیار ہیں -وہ ابتداء سے ہی خاموش تھا - بنا کچھ کہے اپنی دستاویزات کی فائل اٹھائی اور ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح بوجھل قدموں آفس سے نکل آیا تھا اور گھر آتے ہی دستاویزات کی فائل کوڑے دان میں پھنک دی تھی - وہ تصورات میں کھویا ہوا تھا اچانک زور سے بولنے لگا ، نہیں سر ، میں نہیں دے سکتا ، کہاں میری ماہانہ دس ہزار تنخواہ اور کہاں دس لاکھ، ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا - اسکے ہذیانی قہقہے بلند ہوۓ - اچانک بالکل خاموش ہوگیا پھر بولا ، سر یہ آپ کہہ رہے ہیں - آپ تو- نہیں - مگر کیسے - ہاں ہاں آج کل تو سبھی کے ہاتھ میز کے نیچے دراز ہوتے ہیں بیچارے معزز افراد علی الاعلان تو کہہ نہیں سکتے - قابلیت ، ایمانداری ، جفاکشی سب کتابی باتیں ہو کر رہ گئی ہیں-اسکی تیز آواز سن کر نمرا دوڑتی ہوئی آئی ، کئی آوازیں دیں لیکن وہ اب بھی ہذیانی کیفیت میں ہی تھا - مسلسل کہے جارہا تھا بس اب اور نہیں - بہت ہو چکا اب اور کوئی انٹرویو نہیں دینا- بالکل بھی نہیں- نمرا کا گبھراہٹ کے مارے برا حال تھا اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیا کرے - اس نے حسن شانوں کو پکڑ کر زور جھنجھوڑ دیا اور چنیخ پڑی حسن ....- حسن ہذیانی کیفیت سے نکل آیا - سراسیمہ نمرا سامنے کھڑی کانپ رہی تھی - لپک کر اسے بانہوں میں بھر لیا ، کچھ دیر دونوں ایکدوسرے کے شانوں کو بھگوتے رہے اور پھر نارمل ہوگۓ - نمرا باورچی خانے میں چلی گئی - تب ہی بچے اسکول سے لوٹ آۓ - انھیں دیکھ کر حسن کی بانچھیں کھل اٹھیں - بچوں کو گلے سے لگایا اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خوب پیار کرتا رہا - کچھ دیر گہری سوچ میں گم رہا پھر آہستہ سے اٹھا اور کوڑے دان کی جانب چل پڑا
________________
ناچیز کی ایک غزل اہلِ ذوق کے حوالے:
جنوں کے ساتھ یاری ہو گئی ہے
عجب سی ہوشیاری ہو گئی ہے
جسے ذرخیز کہتا تھا مزارع ،
وہ مٹّی بھی تو کھاری ہوگئی ہے
ذرا آرام اب کرنا پڑے گا!
ہماری سانس بھاری ہو گئی ہے
نگاہیں اب تو نیچی کر کے چلیے
جواں بیٹی تمھاری ہو گئی ہے
نہ جانے اس صدی میں اور کیا ہو!
خلاؤں کی تو باری ،ہو گئ ہے
ابھی جب معرکہ جیتا نہیں ہے
تمھیں کیوں جان پیاری ہوگئی
'شرافت' جانے کب ناوک فگن ہو
یہ 'لڑکی' بھی 'شکاری' ہو گئی ہے
محمود احمد محمود
(نوی ممبئی)
8097357855
(رومان اختر ما لیگ/۔۔مقصود شرقی کا چھوٹا بھائی)
___________
غزل
کیا ملا خود ہی اذیت یہ گوارا کرکے
موجِ دریا کو سمندر سے کنارا کر کے
ہم نے رکھا ہے دکھائے گئے اُلفت میں تری
ایک اک خواب کو آنکھوں میں ستارہ کر کے
دِل ہمارا نہ کہیں اور لگا تیرے بعد
دیکھتے کیسے بھلا، عشق دوبارہ کر کے؟
ہم نے گمنامی میں اک عمر گزاری، لیکن
دیکھنا چاہیں گے اب ،خود کو تمہارا کرکے
غیر تو غیر، کوئی دوست بھی کام آ نہ سکا
یہ بھی دیکھا ہے مصیبت میں پکارا کرکے
میں نے موتی سا چمکدار تمہارا آنسو
اپنے آنچل میں سمیٹا ہے ،ستارا کر کے
جھوم اٹھا جھیل کے ساحل پہ مرا دل الماس!
چاند کے حسن کا پانی میں نظارہ کر کے
الماس جاوید کبیر
ممبئی