مقصد تھا ہندو ۔ مسلم بھائی چارہ کو فروغ !!!
مرحوم ایس ایم زیدی ممبئی کانگریس کے جنرل سیکریٹری تھے ۔
انہوں نے صابوصدیق گروأنڈ پر پہلی سیاسی افطار پارٹی کا پروگرام منعقد کیا ،
دہلی سے مسلمانوں میں ہر دلعزیز مرکزی وزیر ہیم وتی نندن بہوگنا
مہمان خصوصی بن کر تشریف لائے تھے ۔
لیکن ، اس زمانے کے دو سپر اسٹارس یوسف خان عرف دلیپ کمار اور دھرمیندر
اس تقریب کے اہم مہمان اور توجہ کا مرکز تھے ۔
اشتہارات اور پبلسٹی میں یہ کہا گیا تھا کہ دھرمیندر ( ایک ہندو اداکار) اپنے ہی
اور ان کی روزہ کشائی کریں گے ۔
یہ ایک علامتی رسم تھی ، اور علامتی تقریب تھی ، تاکہ ہندو مسلم اتحاد کو تقویت پہنچائی جائے ۔
صابو صدیق گراؤنڈ پر ایک ہجوم امڈ پڑا ۔
میڈیا بھی اس تقریب کے ایک ایک منظر کی رپورٹنگ کیلئے موجود تھا ۔
یہ پروگرام تو بڑا کامیاب رہا ۔
لیکن اس سیاسی افطار پارٹی کا جو مقصد تھا ، کیا وہ پورا ہوا ؟ جی نہیں !!!
فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف ایک مضبوط مورچہ کھولنے میں
ممبئی کی یہ پہلی سیاسی افطار پارٹی کامیاب نہیں ہو سکی ۔
لیکن اس نے ماہ رمضان المبارک میں ملک گیر سطح پر سیاسی افطار پارٹیوں
کے ایک طوفان کو دعوت دے دی ، کہ اگلے ماہ رمضان المبارک
سے ملک بھر میں جگہ جگہ سیاسی افطار پارٹیاں منعقد ہونے لگیں ۔
تقریباً 48برس سے ملک بھر میں سیاسی افطار پارٹیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
اگر ان سیاسی پارٹیوں کا مقصد ہندو مسلم بھائی چارہ ، قومی یکجہتی ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ،
ہندو مسلم اتحاد ہے ، تو پھر گذشتہ 48 برس کے حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے ،
ان سیاسی افطار پارٹیوں نے اپنا مقصد پورا کیا یا نہیں ؟
ظاہر ہے کہ جواب نہیں میں ہی ملے گا ۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم نے ملک بھر میں قومی یکجہتی کے نام پر
48 برس میں جو کروڑہا کروڑ رپوں کی رقم پھونک دی ،
اس کا کیا فائدہ ہوا ؟
اگر یہی رقومات بھارت کے مسلمانوں کے تعلیمی ایجنڈہ پر خرچ کی جاتی ،
تو کیا ان بے فائدہ سیاسی افطار پارٹیوں پر ضایع کی جانے والی
رقومات سے مسلمانوں کیلئے کئی اسکول ، کالج ، دواخانے ،ا سپتال نہیںکھولے جا سکتے تھے ؟
پر ملک کی ایک انتہائی پسماندہ قوم ہے ، لیکن کوئی اس بات کا سروے کر لے کہ اس پسماندہ
اور غریب قوم کے سیاست داں اور امیر کبیر افراد ہر سال ماہ رمضان المبارک میں
سیاسی افطار پارٹیوں پر کتنی رقم خرچ کردیتے ہیں ؟
یقیناً ، یہ سالانہ کئی سو کروڑ روپوں کا خرچ ہے ( جس کیلئے کوئی سروے اب تک کیوں نہیں ہوا؟) ۔
48 برس میں یہ غریب قوم سیاسی افطار پارٹیوں پر اندازاً کئی ہزار کروڑ روپئے
خرچ کر چکی ہے ، لیکن اس کا کیا حاصل ہوا ؟
بھارت کے مسلمانوں کو ہمیشہ سر سید احمد خان کی مثال اپنے سامنے رکھنی چاہئے ۔
انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اپنی زندگی کا مشن بنا یا ۔
پھر کوئی دعوت قبول نہیں کی ، دعوت کی رقم یونیورسٹی فنڈ میں چندہ دینے کیلئے کہا ۔
کوئی تقریب منعقد نہیں کی ، اس کے اخراجات کی رقم یونیورسٹی فنڈ میں بطور عطیہ جمع کرائی ۔
اس لئے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی بھی قائم ہو گئی ۔
ایسی سنجیدگی آج کی مسلم قیادت میں کہاں ؟
جس نے دعوت افطار کے نام سے ہونے والے سیاسی افطار پارٹیوں
پر اس غریب قوم کے ہزار ہا کروڑ روپئے
گذشتہ 48 برس میں خرچ کر وادئے اور حالات بھارت کے مسلمانوں کیلئے
بد ست بدتر ہوتے چلے گئے ، مسلمانوں کے خلاف نفرت شدید ہوتی چلی گئی ۔
آج بھارت کے مسلمان اپنے آپ کو نفرت کے بدترین طوفان میں گھرا پا رہے ہیں ۔
تا کیا اب بھی یہ جائزہ نہیں لیا جائے گا کہ ان سیاسی افطار پارٹیوں
کا آخر کیا مصرف ہے ؟ اور ان سے بھارت کے مسلمانوں کو کیا ملا ؟
یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ سیاسی افطار پارٹیوں کے شوقین مسلمان شریک ہونے والے
اس کا برادران وطن پر منفی اثر پڑتا رہا ۔
ہندوتوا دی تنظیموں نے ٹوپی اور رومال پہنانے والے حرکتوں کو اپنے مسلم مخالف ایجنڈے
کیلئے ہی استعمال کرلیا
انہوں نے ایسی حرکتوں کو MUSLIM-APPEASEMNT قرار دیا ۔
۱۹۷۵ ء میں ممبئی میں پہلی سیاسی افطار پارٹی شروع ہوئی تھی ۔
اور مسلمان بس ایسے ہی سیاسی دکھاوے اور نمائش سے بہلتے رہے ۔
ان کی ترقی کیلئے کیا کام کیا گیا ؟ ۱۹۸۲ ء میں ڈاکٹر گوپال سنگھ کمیشن رپورٹ
پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ۔
اس نے انکشاف کیا کہ بھارت کے مسلمان تعلیمی و اقتصادی طور پر انتہائی پسماندہ ہیں۔
سرکاری نوکریوں میں ان کا تناسب نا کے برابر ہے ۔
مسلم اکثریتی بستیاں بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں ۔
اس دلخراش رپورٹ پر بھی مسلمان سنجیدہ نہیں ہوئے ، سیاسی افطار پارٹیوں پر
اپنے محدود وسائل لٹاتے رہے ، اور قومی لیڈروں کو
ٹوی ، رومال پہنا پہنا کر خوش ہوتے رہے ۔
کیا ان سیای افطار پارٹیوں سے فرقہ وارانہ ماحول بہتر ہوا ؟
کے فسادات سے ثابت ہوئی جو ۱۹۸۰ ء تا ۱۹۸۴ ء ہوئے
۱۹۸۴ ء میں ہندوتوا وادی طاقتوں نے وشوا ہندو پریشد (وی ایح پی ) قائم کی ،
جس نے آنے والی دہائیوں میں ملک کا فرقہ وارانہ ماحول ہی
بدل کر رکھ دیا اور بھارت کے مسلمان تب بھی سیاسی افطار پارٹیوں سے دل بہلاتے رہے ۔
۲۰۰۵ ء میں سچر کمیٹی رپورٹ پیش کی گئی ۔
اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت میں کئی علاقوں میں مسلمانوں کی حالت
دلتوں سے بھی بدتر ہے ۔
سچر کمیٹی رپورٹ نے بڑھتی ہو ئی فرقہ پرستی اور پولس و سرکاری ایجنسیوں میں ہندوتوا
فورسز کی گھس پیٹھ کا بھی نوٹ لیا اور مسلمانوں کی پولس فورسز ، فوج ، سرکاری نوکریوں میں آبادی
کے تناسب سے بھرتی کی بھی سفارش کی ۔
سچر کمیٹی رپورٹ کی روشنی میں اگر مسلمان یہ جائزہ لیتے کہ ۱۹۷۵ ءسے ۲۰۰۵ ءتک
سیاسی افطار پارٹیوں پر وسائل خرچ کر نے سے انہیں کیا ملا ؟
MUSLIM - APPEASEMENT کا تمغہ ؟ اور بس ؟
تب ہی ان میں سنجیدگی آسکتی تھی ۔
لیکن آج بھی شائد بھارت کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ سیاسی افطار پارٹیاں
COUNTER - PRODUCTIVE ثابت ہوئی ہیں جن کا فائدہ ہندوتوا
بریگیڈ نے اٹھایا اور بھارت کا مسلمان گھاٹے میں رہا ۔
افسوس !!!مسلمان آج بھی گھاٹے کا یہ سودا جوش و خروش کے ساتھ کر رہے ہیں ۔
______________
پّلو میں بندھی ناکامی 😢🎬کہانی
🔴احمد نعیم مالیگاؤں مہاراشٹر بھارت)
ایک تو دبلی پتلی کمزور، وہ دُکھ کی ماری بے چاری - - -!!!
آج چاند رات کا دن تھا، وہ ڈورے جا رہی ہے ' گود میں بچہ ایک ہاتھ میں دو بچے دامن سے لپٹے وہ بچے لگ ہی نہیں رہے تھے،
گویا وہ مٹی کے کھلونے ہوں، نہ چہروں پہ کوئی تصور نا جسم پر گوشت کپڑے کیا تھے، چھچھڑے لٹک رہے تھے،
پّلو سے باندھے وہ پیشے جو بن مانگے کسی "دان سَور" نے اُسے خاموشی سے دے دیے تھے،
ساری توجہ اُس گانٹھ پر ڈالے بچوں سے بے نیاز فکروں سے دوبدو بس بازار کی سمت ڈورے جا رہی تھی
بازار لگتے ہی عیش و عشرت کے سامان جلوہ سامانیاں بکھیر رہے تھے، بچے ہر اُس چیز کی طرف لپکتے جن کے آگے سے ماں انھیں جلدی سے کھینچ لے جاتی -
چھوٹا تنک گیا،
ہاتھ چھوڑ کر بھاگنے لگا ماں اُسے رندھی ہوئی آواز میں چلائی، وہ ایک جگہ رک جاتا اور وہیں سے کہتا
"___میں وہی جوتا لوں گا" -!!!
کبھی وہ خود پہ جھّلاتی کبھی بچوں کو سمیٹتی، کبھی چھوٹے کو سمجھاتی -!
" سُن تو میرے لال میں نا، کب بول رہی ہوں، پہلے کپڑے تو لے لینے دو، آگے اور بھی اِس سے اچھے جوتے ہیں -"
اُس کے پاس جنتی رقم تھی اُس سے پورے بچوں کے کپڑے تک نہیں آ سکتے تھے -
وہ تو سوچ رہی تھی،
کس کو مناؤں،
کیسے روکوں،
کس کو دلاؤں،
دس سالہ شنُو جو بڑی حساس تھی وہ اِن باتوں سے بےنیاز اُن بچوں کو دیکھ رہی تھی جو ڈھیر ساری تھیلیاں لئے خوشی خوشی اپنے ابّو کے ساتھ جا رہے تھے
(صبح عید تھی)
___________
🔴غزل ندا فاروقی
شام کے ست رنگ آنچل میں سحر پیدا کروں
چاہتا ہوں منفرد اپنی ڈگر پیدا کروں
زندگی تو اور کتنا امتحان لے گی بتا
ایک گھر میں کتنے میں دیوار و در پیدا کروں
ہر کسی کو ہے یہاں پر روشنی سے اختلاف
کیا نےء سورج اگاوں کیا سحر پیدا کروں
جس کا سایہ سبز اور شاداب رکھے روح کو
آرزو ہے دل کے اندر وہ شجر پیدا کروں
ہوگئی ہے دوستی ان کی ہواؤں سے ندا
اب چراغوں کے دلوں میں کس کا ڈر پیدا کروں
________
برادرم ارشد جمال کی ایک غزل
دو چار ستارے ہی مری آنکھ میں دھر جا
کچھ دیر تو اے ساعتِ شب مجھ میں ٹھہر جا
اب اور سنبھالی نہیں جاتی تری حرمت
یوں کر غمِ جاناں مری نظروں سے اتر جا
تا عمر ترا نقش فروزاں رہے مجھ میں
اک زخم کی صورت مرے ماتھے پہ ابھر جا
چھوڑ آنا وہیں اپنی یہ آوارہ مزاجی
صحرا کی طرف اے!دل ِ نادان اگر جا
یا ہوجا تو دریا کی نگاہوں میں ترازو
یا تشنہ لبی ساتھ لئے جاں سے گزر جا
جب ذہن کو سننی ہی نہیں تیری دلیلیں
دل تو بھی رسوماتِ تفاہم سے مکر جا
ارشد جمال صارم