خوشی منانا جبلتِ انسانی کا لازمہ ہے… فطرت کا خاصہ ہے… فطری تقاضا ہے… عقل بھی اس کی تائید کرتی ہے… لیکن سوال ہے کہ یہ کس طرح منائی جائے؟… اس کا پس منظر دیکھنا ہو گا… عید الفطر مسلمانوں کی عید ہے… عید الاضحیٰ بھی عید ہی ہے، اور عید میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی… یہ تینوں مواقع اگر اسلامی طریقے سے منائے جائیں تو اسلامی شوکت کا اظہار ہوگا... ہاں ہاں! ایمان والا عید کو خوش ہوتا ہے… جس دن اللہ کے مقدس نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جلوہ افروز ہوئے وہ عیدوں کی بھی عید ہے… اور ’’عیدالفطر‘‘ بھی اسی عید کا عطیہ ہے… بات چل رہی تھی کہ عید کس طرح منائی جائے… رمضان کو لیجیے جس کا پس منظر یوں ہے کہ اس ماہ میں روزے رکھے جاتے ہیں… روزے سے نفس کو لگام لگتی ہے… روزے سے فکری آوارگی دور ہوتی ہے… روزے سے تقوے کا حصول ہوتا ہے… اور ذہن کے غبار دھلتے ہیں… کدورتیں دور ہوتی ہیں… اس کے سائنسی فوائد بھی ہیں اور روحانی و جسمانی بھی… تراویح، نمازوں کا اہتمام، تلاوتوں کی بہاریں یہ سب من کی دنیا کو مہکا جاتے ہیں… باطن کو سنوار دیتے ہیں… فکر کو نکھار دیتے ہیں… گناہوں کو مٹا دیتے ہیں…اور اللہ کریم کا خوف خیالات کو پاکیزہ بنا دیتا ہے… پھر غرۂ عید طلوع ہوتا ہے… ہلالِ عید نمودار ہوتا ہے…
عید کا پس منظر یہی ہے کہ خوشی منائی جائے! لیکن اسلامی دائرے میں… مختار کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے احکام کے ساتھ… رب کی رضا کے ساتھ… شریعت کی پابندی کے ساتھ… اعمالِ صالحہ کی تابندگی کے ساتھ… غریبوں کی خوشنودی کے ساتھ… مساکین کی دل جوئی کے ساتھ… مفلسوں کی مدد کے ساتھ… نہ کہ تکبر کے ساتھ… بلکہ خلوص کے ساتھ… للّٰہیت کے ساتھ… محبت کے ساتھ… مروت کے ساتھ… حیا کے ساتھ… شفقت کے ساتھ… تب بشارتوں کا درخشاں آفتاب طلوع ہوگا… اور گنبد خضرا سے نسیم سحر چلے گی… دل کی کلیاں کھلیں گی… من کی دنیا مہکے گی… فضا روشن ہو اٹھے گی ؎
عید مشکل کشائی کے چمکے ہلال
ناخنوں کی بشارت پہ لاکھوں سلام
ہم مسلمان ہیں… اسلامی احکام پر عمل ہمارا کام ہے… ان سے رُو گردانی فکرِ خام ہے… اس سے دوری میں ذلت مدام ہے… آج مسلماں پر دانشِ فرنگ کی یلغار ہے… جس سے فضا خوں آشام ہے… اور تمدنِ مغرب خوش مرام ہے… کیوں ایسا طوفان ہے… مسلماں اغیار کے طلسم کا شکار ہے… اب بھی وقت ہے، جاگ جائیے… فطری بات ہے کہ ہر قوم کو اپنی تہذیب پیاری ہوتی ہے… اپنے معمولات عزیز ہوتے ہیں… جب اپنے ہی اصولوں سے انحراف واقع ہوتا ہے وہیں سے زوال کا آغاز ہوتا ہے… کیا آپ نے کبھی کسی انگریز کو دیکھا کہ اس نے اسلامی تمدن کو اپنایا… کیا آپ نے کسی یہودی کو دیکھا کہ اس نے اسلامی شعار پر عمل کیا… کیا آپ نے کسی مشرک کو دیکھا کہ اس نے اپنے تمدن کو چھوڑ کر اسلامی تمدن کو مطمح نظر بنایا… ایسا نہیں ہوا… محکوم قومیں حاکم قوموں کے تمدن کو اپنا لیتی ہیں… ہم محکوم نہیں… پھر کیوں باطل تہذیبوں کو اپنا رہے ہیں؟… اغیار تو باطل عقائد رکھتے ہیں… اس کے باوجود سچے دین کے تمدن سے دور ہی رہتے ہیں… ہم دین فطرت کے حامل ہو کر بھی تمدنِ مغرب کے اسیر ہوتے چلے جارہے ہیں… اور یہی کچھ معاملہ ’’عید‘‘ کا بھی ہے… اس مبارک موقع کو بھی اسلامی طرز کے مطابق منانے کی بجائے اغیار کے طریقے پر منا کر رحمتِ الٰہی سے خود کو محروم کرتے ہیں… عید سے قبل تو نفس کی پاکی کا اہتمام… اور! عید ہی کے دن نفس کی اسیری! کیا منفی اندازِ فکر نہیں… کیا یہ زوال کے آثار نہیں… کیا یہ ہماری ابتری کا ایک نمایاں سبب نہیں… للہ اپنے حال پر رحم کیجیے! رب کے احکام پر عمل کا اہتمام کیجیے… تب خوشی و مسرت کی بادِ بہاراں چلے گی… اور پورا وجود مہک مہک اٹھے گا… اور یہی عید کا حقیقی تصور ہے کہ خوشی اسلامی احکام کے مطابق منائی جائے… شرعی پاسداری کے ساتھ منائی جائے... پوری اسلامی سوسائٹی کو اس میں شامل کیا جائے اس طرح کسی کمزور کا حق مجروح نہیں ہوگا… کوئی مفلس محرومِ مسرت نہیں ہوگا… کوئی غریب عید پر نالہ کناں نہیں ہوگا… کوئی بے آسرا تنہائی و وحشت محسوس نہیں کرے گا… اس لیے کہ آسرا اور مدد فراہم کرنے والے مسلمان اپنے دوسرے بھائی کو اسلامی رشتے کی بنیاد پر اپنا سمجھیں گے؛ اور اس کی مدد کو اپنا فریضہ…اس کی خوشی کے لیے مستعد ہوں گے....
ہر ہر قوم کا خوشی منانے کا تصور جدا جدا ہے… یہودی خوشی کے دن عیش و طرب میں مبتلا ہوتے ہیں… عیسائی عصمتیں لوٹ کر، دامن کو داغدار کر کے مسرت کی بزم سجاتے ہیں… مشرک شرک کا ارتکاب اور شراب کا شغل کر کے اپنا تہوار مناتے ہیں، ناچ رنگ میں فضا کو آلودہ کرتے ہیں… شباب و کباب اور لہو و لعب کے ساتھ دن مناتے ہیں... کہیں انسانیت کا پاس نہیں، دامنِ انسانیت کو آلودہ کرنا ہی خوشی ٹھہرا، ایسی خوشی کس کام کی… کہ کسی کو رُلا کر منائی جائے… رشتوں کو پامال کر کے منائی جائے… تصورات کو گدلا کر کے منائی جائے… دلوں کو توڑ کر منائی جائے… جذبات کو کچل کر منائی جائے… اسلامی تصورِ عید ایسا ہے کہ یتیموں کو خوش کر کے خوشی منائی جائے… تنگ دستوں کی جھولی بھر کر عید منائی جائے… مصیبت زدوں کے دکھوں کا مداوا کر کے عید منائی جائے… مظلوموں کی داد رسی کر کے عید منائی جائے… غریبوں کو سہارا فراہم کر کے عید منائی جائے… ٹوٹے دلوں کو جوڑ کر کے عید منائی جائے… روٹھے عزیزوں کو راضی کر کے عید منائی جائے… گستاخانِ بارگاہِ رسالت سے بیزاری کا اظہار کر کے عید منائی جائے… وفادارانِ بارگاہِ رسالت کو خوش کر کے عید منائی جائے… تبھی عید کی حقیقی خوشی حاصل ہو گی… جس سے قلبی راحت و فکری طمانیت کا احساس ہوگا، اور یہی مسلماں کی اصل مسرت یعنی رضاے رب اکبر ہوگی… خوش نودیِ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ہوگی… اسلامی تمدن کی تمکنت کا باعث ہوگا...
***