بلقیس ابھی چھے مہینے کی،اپنی ماں ماہرہ کی گود میں خوشگوار زندگی گذار رہی تھی کہ اچانک ماہرہ اور بلقیس کی ہنستی کھیلتی دنیا ہی اجڑ گئی۔بلقیس کے شوہر کی لوم کارخانے میں بجلی کا جھٹکا لگنے سے موت ہو گئی تھی۔شوہر کی موت کے بعد تو دنیا ہی بدل گئی تھی۔کچھ دن تک تو پڑوسی اور رشتے دار ہمدردی جتاتے رہے۔بعد میں سب پرائے ہو گئے۔ مجبوراً ماہرہ اسی کارخانے میں کام کرنے لگی۔کارخانے کے مالک کی ماہرہ پر نیت خراب ہو گئی۔اس نےاسے اکیلا،بے سہارا اور جوان دیکھ کر پہلے تو روپے کا لالچ دیا۔جب ماہرہ تیار نہ ہوئی تو اس کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی۔ماہرہ اپنی عزت بچا کر وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔کچھ دن بعد جب بلقیس کی پرورش اور گھر خرچ کا مسئلہ سر اٹھانے لگا تو ماہرہ نے محلے کے بڑےبنگلے میں کپڑے دھونے اور جھاڑو برتن کرنے کی نوکری کر لی۔مگر وہاں بھی ایک نئی مصیبت اس کا انتظار کررہی تھی۔تھوڑے ہی دن میں بنگلے والے سیٹھ کی شیطانیت بھی جاگ گئی۔سیٹھ بھی ماہرہ کی عزت کا سودا کرنا چاہتا تھا۔ماہرہ کو وہاں سے بھی عزت بچا کر بھاگنا پڑا۔ایک روز جب ماہرہ بہت مجبور ہو گئی تو نقاب لکا کر شہر کے مشہور"گلشن چوک" پر آگئی، جہاں پر ہوٹلیں ہونے کی وجہ سے ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ماہرہ بہت دیر تک خود کو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی لئے تیار کرتی مگر اس کا ضمیر آڑے آجاتا۔بہت دیر ضروت اور ضمیر کے مابین جنگ جاری رہی۔آخر ضروت کی جیت ہوگئ۔ماہرہ ہوٹل پر پہنچ گئی اور بلقیس کو گود میں لیے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے لگی۔شروع میں تو اسےبہت جھجھک محسوس ہوتی مگر آہستہ آہستہ ضروت نے جھجھک کو بھی شگست دے دیا۔جیسے جیسے بلقیس بڑی ہوتی گئی ماہرہ کو بلقیس کے مستقبل کی فکر ستانے لگی۔اخراجات بڑھنے لگے تو اس نے بلقیس کو بھی اسی راستے پر لگانے کا فیصلہ کیا جس پر وہ خود چل رہی تھی۔ بلقیس سرکاری اسکول میں ساتویں جماعت پاس کر چکی تھی۔بلقیس پڑھنے میں ذہین تھی۔ہمیشہ اول نمبر سے کامیاب ہوتی تھی۔آگے کی تعلیم کے لئے روپیہ نہ ہونے کے سبب ماہرہ نے اسے اسکول کے بجائے اپنے ساتھ کام پر لگانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔ ایک روز اس نے بلقیس کو بتایا کہ اب اسے بھی اپنی ماں کے ساتھ" گلشن چوک" جانا ہوگا۔بلقیس کسی طرح راضی نہ ہوئی۔بلقیس ماں سے کہتی کہ"ماں مجھے یہ پسند نہیں ہے،اتنے سارے اجنبی مردوں کے سامنے جانے سے ڈر لگتا ہے۔لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔لوگ برا بھلا کہتے ہیں،جھڑکتے ہیں ،اس سے اچھا کہیں مزدوری کرتے ہیں۔"ماہرہ بلقیس کو سمجھاتی کہ"بیٹی تمہاری بات درست لوگ جھڑکتے ہیں،سخت سست کہتے ہیں مگر یہی لوگ ہماری مدد بھی تو کرتے ہیں۔انھیں کی وجہ سے تو ہمارے پیٹ کی آگ بجھ رہی۔یہاں ہم محفوظ ہیں،یہاں کوئی ہماری عزت پر تو ہاتھ نہیں ڈالتا۔"جب بلقیس اپنے والد اور رشتے داروں سے متعلق پوچھتی تو ماہرہ کی آنکھیں بھر آتیں۔وہ ماہرہ کو بتاتی کہ"بیٹی تمارے والد کے انتقال کے بعد رشتے داروں نے منہ موڑ لیا اور اس بھری دنیا میں تم اور میں اکیلے رہ گئے تھے۔ہمارے رشتے داروں سے تو یہ بھیک دینے والے اچھے ہیں۔"ماہرہ کے کئی روز تک سمجھانے بجھانے کے بعد آخر کار بلقیس بادل ناخواستہ ماں کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئی۔ دونوں ماں بیٹی"گلشن چوک" پہنچے تو ماہرہ نے بلقیس کو ہدایات دیں اور تین گھنٹے کے بعد اسی کھمبے کے پاس ملنے کو کہا،جہاں وہ فی الحال کھڑے تھے۔بلقیس سامنے موجود ہوٹل تک گئی اور ایک کونے میں کھڑی ہو کر وہاں موجود بھیڑ کو دیکھنے لگی۔وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ہمت نہیں جٹا پارہی تھی۔کبھی لوگوں کو دیکھتی کبھی کھمبے کو دیکھتی جہاں تین گھنٹے بعد وہ اپنی ماں سے ملنے والی تھی۔تین گھنٹے کا وقت اس کے لئے تین برس کی طرح معلوم ہو رہا تھا۔جیسے ہی اس نے اپنی ماں کو کھمبے کے نیچے دیکھا وہ سر پٹ دوڑتی ہوئی ماں کے پاس پہنچ گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔دونوں ماں بیٹی وہیں موجود پلاٹ پر بیٹھ گئے۔ماہرہ نے بلقیس سے پوچھا "بیٹی۔۔۔ کتنا پیسہ ملا؟"
ایک بھی روپیہ نہیں ملا! بلقیس نے جواب دیا۔
"چل کوئی بات نہیں۔۔۔ پہلے پہل ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔ تو فکر مت کر۔۔۔۔"
"ماں مجھے بہت شرم آتی ہے۔۔۔ "بلقیس نے کہا۔
"تو گھبرا مت بیٹی۔۔۔ تو تھوڑی بڑی ہوجائے گی۔۔نا میں تجھے نقاب دلا دوں گی۔۔۔۔ پھر تو میری طرح بے فکر ہو جانا۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ میں سامنے ہوٹل سے کچھ کھانے کو لاتی ہوں۔۔۔"دونوں کھانا کھا کر گھر چلے گئے۔
دوسرے دن پھر ماہرہ اور بلقیس"گلشن چوک"کام پر آگئے۔ماہرہ نے بلقیس کو پھر سے ہدایت دے کر تین گھنٹے بعد اسی کھمبے کے نیچے ملنے کو کہا۔
بلقیس آج پھر اسی جگہ جاکر کھڑی ہو گئی۔تھوڑی دیر بعد اسے پاس بیٹھے ایک شخص نے بلقیس کو بلایا۔بقیس ڈرتے ڈرتے اس شخص کے پاس گئی۔اس شخص نے بلقیس سے کہا"۔۔۔ بیٹی ڈرو نہیں۔۔۔ میں نے کل بھی تمہیں اسی جگہ دیکھا تھا۔۔۔ بات کیا ہے؟"بلقیس نے ڈرتے ڈرتے اس شخص کو اپنی کہانی بتائی۔اس شخص نے کہا "بیٹی۔۔۔۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔ میرا نام فرحان ہے۔میں شہر کے مشہور"نیشنل ہائی اسکول"میں ٹیچر ہوں۔۔۔ بیٹی اگر تم پڑھنا چاہتی ہو تو کل صبح ساڑھے سات پجے،اپنی والدہ کے ساتھ میری اسکول میں ملاقات کرو میں تمہاری مدد کروں گا۔اسی کے ساتھ ماسٹر فرحان نے جیب سے ایک روپئے کا سکہ نکال کر بلقیس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
تین گھنٹے کا وقت ختم ہوتے ہی بلقیس نے جیسے ہی اپنی ماں کو کھمبے کے نیچے دیکھا وہ دوڑتی ہوئی ماں کے پاس پہنچ گئی مگر آج اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔ماہرہ اور بلقیس اسی پلاٹ پر بیٹھ گئے۔ماہرہ نے بلقیس سے پوچھا"بیٹی۔۔۔آج تجھے کتنے روپے ملے؟"بلقیس نے جواب دیا"ماں۔۔۔آج بھی کچھ نہیں ملا مگر آج میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا ہے۔"آج ہوٹل پر ایک ٹیچر نے مجھے بلایا اور مجھ سے باتیں کیں۔انہوں نے مجھے تعلیم جاری رکھنے میں مدد کرنے کی بات کی ہے۔۔۔۔ ماں میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں۔"ماہرہ نے بلقیس کو سمجھایا کہ"بیٹی۔۔۔۔ یہ پڑھائی ہم جیسے غریبوں کے بس کی بات نہیں ہے۔اور پھر دسویں یا بارہویں پڑھ کر کیا کرے گی۔"بلقیس نے ماں سے آگے کی تعلیم کے لئے ضد شروع کردی اور اسے ماسٹر صاحب کی مدد کرنے کی بات یاد دلاتی رہی۔بلقیس کی ضد سے مجبور ہو کر دوسرے دن صبح ماہرہ بلقیس کو لے کر"نیشنل ہائی اسکول"پہنچ گئی۔ماسٹر صاحب ان کے منتظر تھے۔انھوں نے ہیڈ ماسٹر صاحب کے داخلے کے لئے پہلے ہی گفتگو کر چکے تھے۔ داخلے کی کاروائی مکمل کروانے کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب کے ہاتھوں بلقیس کو بستہ،کتابیں،بیاضیں اور ضروری تعلیمی لوازمات عطا کیے گئے اور بلقیس کو کلاس میں بٹھا دیا گیا۔کلاس ٹیچر اور دیگر طلبہ کے پر جوش استقبال نے بلقیس کے اندر پڑھائی کی ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ بلقیس روزانہ پابندی سے اسکول جانے لگی اور پڑھائی میں محنت کرنے لگی۔امتحان کے نتائج نے سب کو چونکا دیا تھا۔بلقیس پوری اسکول میں پہلا آگئی تھی۔ماسٹر صاحب امداد اور دیگر اساتذہ حوصلہ افزائی نے بلقیس کی کامیابی کو پر لکا دئیے تھے۔بارہویں کے بعد بلقیس کا داخلہ ریاست کے سب مشہور میڈیکل کالج میں فری سیٹ پر ہوا تھا۔ایم بی بی ایس میں نمایاں کامیابی کے بعد بلقیس نے محنت کر کے فری سیٹ پر ماسٹر ڈگری کے لئے ریاست کے مشہور میڈیکل کالج سے گائینوکولوجی میں نمایاں کامیابی حاصل کر لی تھی۔اب وہ شہر کی مشہور ڈاکٹر تھی۔آہستہ آہستہ اس اپنا سوپر اسپیشلٹی ہاسپٹل قائم کر لیا تھا جس کا آج افتتاح ہوا تھا۔
اچانک مبارکبادی کے شور سے ڈاکٹربلقیس چونک گئیں۔لوگوں نے ڈاکٹربلقیس کو اپنی کرسی پر بیٹھنے کی درخواست کی۔ڈاکٹر بلقیس ماسٹر صاحب سے کرسی پر بیٹھنے کا اصرار کیا۔ڈاکٹڑ بلقیس کے اصرار پر ماسٹر صاحب کو کرسی پر بیٹھنا ہی پڑا۔سامنے کی کرسیوں پر ڈاکٹربلقیس اپنی ماں کے ساتھ براجمان تھی۔ ڈاکٹربلقیس کبھی اپنی ماں کو دیکھتی،کبھی ماسٹر فرحان کو اور کبھی فریم میں لگے ایک روپیے کے سکے کو۔