ہم چند احباب ایک عزیز کے گھر دعوت کے لئے مدعو تھے،ہمارے ساتھ مولانا صاحب بھی شریک تھے۔مہمان نے پہلے کچھ میٹھی چیز کھانے کے لئے پیش کی۔ہمارے ایک ساتھی نے مولانا سے پوچھا"مولانا۔۔۔ میٹھا پہلے کھانا سنت ہے یا بعد میں؟مولانا نے جواب دیا"میاں جو جیسے آرہا ہے،کھالو۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے دور میں اس طرح نہ دستر خوان سجتے تھے نہ ان لوگوں کو اتنی نعمتیں میسر تھیں۔"
حقیقت ہے۔۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو اتنی نعمتیں کہاں میسر تھیں۔رمضان ہو یا غیر رمضان،وہی چند کھجوروں سے سحری اور وہی چند کھجوروں سے افطاری۔مگر شکر کا جذبہ ایسا تھا کہ فرائض کے علاوہ نوافل کا زبردست اہتمام ہوا کرتا تھا۔ہمہ وقت ذکر و شکر اور توبہ و استغفار میں مصروف رہا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ"حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی میں کبھی سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا۔
ہمارےدسترخوان نعمتوں سے بھرے ہوئے ہیں۔طرح کے مشروبات،قسم قسم کےپھل فروٹ اور دیگر کھانے کی چیزیں مگر شکرگذاری کا جذبہ ناپید۔فرائض ہی بڑی مشکل سے ادا ہوتے ہیں۔نوافل اور ان کی کثرت تو بہت دور کی بات ہے۔
ہمارے اور ان کے درمیان یہ فرق ہے جتنی ہمیں نعنتیں میسر ہے اس سے کہیں زیادہ ان کی شکرگذاری تھی،اور جتنی ان کو نعت میسر تھی،ہماری شکرگذاری اس سے بھی کم ہے۔
ڈر لگتا ہے۔۔۔صحابہ اور ہماری زندگیوں کا یہ تضاد کہیں ہم کو آخرت میں تباہ نہ کرڈالے۔۔۔۔۔اللہ نہ کرے۔