حافظ محمد غفــــــران اشرفی*
*(جنرل سکریٹری سنّی جمعیة العوام)*
📱 *[7020961779 /Malegaon]*
اسلام میں ہر عبادت کی ادائیگی کے پیچھے کوئی نہ کوئی خاص مقصد ضرور پوشیدہ ہے۔زکوة بھی اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے اور اس کا خاص مقصد رضائے الہی نیز معاشرہ سے غربت کا خاتمہ لیکن یہ ہماری زکوة میں تقسیم کی بد نظمیوں کی وجہ اِس مقصد کو ہم حاصل نہیں کرپارہے ہیں۔جب کہ فرضیت زکوة کے بعد بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیغمبرانہ بصیرت کی بنا پر زکوة کے ذریعہ صرف مدینہ ہی سے نہیں بلکہ جو لوگ آغوش اسلام میں داخل ہوتے ہر اُس قبیلہ اور معاشرہ سے غربت کے خاتمہ کا جو مضبوط نظام زکوة کی تقسیم سے متعلق عطا فرمایا تھا وہ نہایت ہی اعلی اور کار آمد تھا۔اگر آج بھی یہ امت اسی قائم کردہ نظام کے تحت اپنی زکوة کو تقسیم کرتی تو معاشرہ سے غربت کا خاتمہ یقینی تھا بلکہ اُِس نظام کی اثر آفرینی کے طور پر تمثیلا یمن اور مصر کی اسلامی تاریخ سامنے رکھی جاسکتی ہے جہاں حضرت معاذ بن جبل اور حضرت عمرو بن عاص گورنر تھے۔انہوں نے نظام مصطفی کے تحت زکوة کی وصولیابی اور تقسیم کی تو یمن و مصر سے غربت ختم ہوگئی۔فی زمانہ ہم دیکھتے ہیں جیسے جیسے مالدار زکوة نکالنے میں آگے آرہے ہیں ویسے ویسے بعض فراڈی لوگوں کے جہنمی پیٹ بڑھتے جارہے ہیں اور ساتھ ہی غربت کا تناسب بھی بڑھتا جارہا ہے۔یعنی ادائیگی زکوة کے بعد بھی آج کے معاشرہ سے غربت ختم نہیں ہوپارہی ہے۔اکثر مسلمان عورتیں اور مرد گلیوں سڑکوں چوک چوراہوں پر کاسہ گدائی لیے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔دور رسالت میں زکوة کی وصولیابی اور تقسیم کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف طور پر سامنے آتی ہے کہ نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاروق اعظم کو مدینہ کے اطراف میں،حضرت عبدالرحمن بن عوف کو بنی کلب،حضرت عمرو بن عاص کو قبیلہ فزارا،حضرت عدی بن حاطم کو قبیلہ طے اور اسد،حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح کو عزینہ اور کنانہ میں زکوة کی وصولیابی کی ذمہ داریاں سونپ کر عمال کے طور پر مقرر فرمایا تھا نیز ان سب کے پاس سے محصول کیے ہوئے اموال پر محاسب کی حیثیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر ابن العوام کو مقرر فرمایا تھا۔ان سب کے باوجود اموال زکوة کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ہی تقسیم نہیں کروادیا تھا بلکہ آپ کے حکم سے زکوة کے اموال جو مستحقین ہوتے ان تک پہنچایا جاتا۔زکوة کی تقسیم کا یہی نظام خلفائے راشدین اور بعد کے سلاطین کے دور میں رائج رہا جس سے معاشرہ اور معاشرہ کے مفلوک الحال لوگ بھی خوش حال ہوگئے تھے۔لیکن اِس زمانہ میں زکوة کی ادائیگی کے باوجود غربت کا خاتمہ نہ ہونا طریق رسول سے ہٹ کر اپنی مرضی سے زکوة کی تقسیم ہے۔لوگوں کا عجب حال ہے ہر شخص یہ چاہتا ہے اپنی زکوة کا مال میں تقسیم کروں۔تو حال نگاہوں کے سامنے ہے کہ بہت سے ایسے بے غیرت لوگ جن کا زکوة سے استحقاق سے متعلق کوئی حق نہیں وہ زکوة پر ہاتھ صاف کرلے جارہے ہیں نتیجتا نہ غربت ہی ختم ہورہی ہے اور ناہی زکوة مستحقین تک پہنچ رہی ہے۔اگر معاشرہ سے غربت کا خاتمہ کرنا ہے تو نظام مصطفی پر قائم رہنا ہوگا اور اُس ترک کیے ہوئے تقسیم زکوة کے نظام کے نفاذ کے لیے شہر کے علما کو آگے آنا ہوگا۔
زکوة کی تقسیم سے متعلق عہد رسالت اور خلفا سے ہمیں جو راہ نما اصول ملتے ہیں وہ یہ ہیں کہ سب سے پہلے تو جس علاقہ کے امرا سے زکوة حاصل کی گئی ہو اسی علاقہ کے غریبوں میں اُسے صٙرف کیا جائے۔دوسرے یہ کہ جس طرح سے قرونِ اولی میں لوگ اپنی زکوة خلفا اور حاکموں کو لاکردیتے اور وہ غریبوں میں تقسیم کرتے تھے وہی نظام ہمیں رائج کرنا ہوگا۔ظاہر سی بات ہے حاکمیت نہ رہی،سلطنت ختم ہوگئی اب جبری حکومتوں کا دور ہے تو ایسے میں فقہا کے اقوال کو سامنے رکھ کر یا تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو امیر مقرر کریں اور اس کو زکوة کی رقم دیں تاکہ وہ تقسیم کرے۔یا پھر علاقوں میں بیت المال کمیٹیاں قائم کی جائیں جن میں امانت دار اور دیانت دار لوگ ہوں جو لوگوں سے زکوة کے اموال وصول کرکے مستحقین تک پہنچائیں۔ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو سامنے رکھ کر نماز کی تحفیظ کی خاطر مساجد بنوادیں لوگ نماز ادا کرکے فیضان نماز سے مالا مال ہورہے ہیں تو پھر زکوة جیسے اسلام کے اہم رکن کا کیا قصور ہے؟اِس کی تحفیظ کا راستہ بھی تو سیرت رسول میں موجود ہے جس کو بیت المال کہا جاتا ہے۔اگر زکوة کے نظام کی تحفیظ کے لیے بیت المال کمیٹیاں بن گئیں تو یقینا اِس راہ سے کروڑوں کا جو فراڈ ہوتا ہے ایک تو وہ بند ہوجائے گا اور دوسرا بڑے پیٹ والے لوگ کم ہوجائیں گے مزید لوگ فیضان زکوة سے بھی فیضیاب ہوں گے اور معاشرہ سے غربت کا خاتمہ یقینی ہوسکے گا۔