ہندو ’باہو بلی ‘قبول!
مختار انصاری اور برج بھوشن شرن سنگھ میں کیا فرق ہے ؟
جہاں تک دونوں کے درمیان قدرے مشترک کا سوال ہے ، تو دونوں ہی ’ باہو بلی ‘ سیاست داںہیں ، دونوں ہیپر قتل ، اقدامِ قتل ، ہفتہ وصولی اور نہ جانے کِن کِن سنگین جرائم کے تحت مقدمات درج ہیں ۔ لیکن ( میں یہاں مذہب کی بات نہیں کروں گا حالانکہ مذہب کا فرق بنیادی فرق ہے )دونوں کے درمیان بڑا فرق نظریات کا ہے ، ایک بی جے پی سے بہت دور ہے ، اور دوسرا بی جے پی کا رکنِ پارلیمنٹ ہے ۔ یہ اتنا بڑا فرق ہے کہ برج بھوشن شرن آج بھی ، اُن خواتین پہلوانوں کی طرف سے ، جو عالمی سطح کے مقابلوں میں حصہ لے کر ، ملک کے لیے تمغے جیت چکی ہیں ، ’ جنسی استحصال ‘ کے الزام کے بعد آزاد ہے ۔ نہ صرف آزاد بلکہ ببانگِ دہل یہ اعلان کر رہا ہے کہ وہ ’ بے قصور ‘ ہے اس لیے وہ اپنے عہدہ سے استعفیٰ نہیں دے گا ۔آج جب یہ تحریر لکھی جا رہی ہے انصاری برادران ، یعنی مختار انصاری اور افضال انصاری ، کو عدالت نے گینگسٹر ایکٹ میں بالترتیب دس اور چار سال کی سزائے قید دی ہے ، جبکہ برج بھوشن پر ، جمعہ کی شب، خاتون کھلاڑیوں کی شکایت پر ، وہ بھی سات دن کے دھرنے اور سپریم کورٹ کی سرزنش اور حکم کے بعد ، دہلی پولیس نے محض دو ایف آئی آر دائر کی ہیں ۔ اگر سپریم کورٹ حکم نہ دیتا ، تو شاید ایف آئی آر ابھی درج نہ ہوئی ہوتی ۔ جن خاتون کھلاڑیوں نے ’ جنسی استحصال ‘ کا الزام لگایا ہے ، اُن میں ایک نابالغ بھی ہے ! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ برج بھوشن کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا ، اور تیزی کے ساتھ مقدمہ چلاکر متاثرہ خاتون کھلاڑیوں کو راحت پہنچائی جاتی ، لیکن پوری کوشش یہ ہو رہی ہے کہ برج بھوشن بچ جائے ۔ مختار انصاری اور افضال انصاری پر سنگین سے سنگین الزام ہیں ،لیکن جنسی ہراسانی اور ریپ کا الزام نہیں ہے ۔ بی جے پی کا عجب معاملہ ہے کہ اِس میں ایک بڑی تعداد میں ایسے سیاست داں نظر آتے ہیں جن پر خواتین کے استحصال ، جنسی ہراسانی اور ریپ کے معاملات درج ہیں ۔ اور ملک کی مرکزی حکومت(جسے مودی حکومت کہا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ یہ حکومت صرف مودی کے ہی اشاروں پر چلتی ہے ، اس میں کسی اور کا حکم نہیں چلتا )’ بیٹی پڑھاؤ ، بیٹی بچاؤ ‘ نعرہ کے باوجود انہیں ، جن پر خواتین کے جنسی استحصال کا الزام ہے ، بچاتی یا ان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے ! ہے نہ یہ حیرت کی بات ! اسے ہی ’ کہنے اور کرنے کا فرق ‘ کہا جاتا ہے ۔ پی ایم مودی نے جس خاتون پہلوان ونیش پھوگاٹ کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ یہ ’ میرے گھر کی رکن ہے ‘ آج وہی پھوگاٹ پی ایم مودی کی بےحسی کو اجاگر کرتی جنتر منتر پر دوسری خواتین پہلوانوں اور کھلاڑیوں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہے۔ بات مختار انصاری اور برج بھوشن سے شروع ہوئی تھی ، لیکن اس شروعات کا مقصد بس یہ بتانا تھا کہ بی جے پی کو ہر وہ ’ باہوبلی ‘ ’ غنڈہ ‘ اور ’ جرائم پیشہ ‘ قابلِ قبول ہے بلکہ اس کی نظر میں ’ معزز ‘ ہے ، جو ’ہند تو ‘ کے نام پر اُسے ووٹ دلا سکے ، ہاں شرط یہ ہے کہ وہ ’ باہو بلی ‘ مسلمان نہ ہو ۔ مسلمان ’ باہو بلیوں ‘ کا ٹھیکہ سماج وادی پارٹی ، کانگریس اور بی ایس پی نے لے رکھا ہے یا یہ کہہ لیں کہ لے رکھا تھا ۔ اس موضوع پر آئندہ کبھی بات کی جائے گی ۔ برج بھوشن اور مختارانصاری کے معاملات اور اُن پر کی گئی کارروائیوں کی روشنی میں مودی اور یوگی کی حکومتوں کے چہرے بہت صاف نظر آتے ہیں ، ان کے لیے اہمیت صرف اور صرف کسی ایسی بات کی اور کسی ایسے شخص کی ہے ، بالترتیب جس کی بنیاد پراور جس کے دَم پر وہ ووٹ حاصل کر سکیں ، چاہے وہ بات عتیق احمد اور اس کے بھائی کا قتل یا انصاری برادران کی سزا ہو یا وہ شخص باہوبلی ہو ،جیسے کہ برج بھوشن ، باقی اس کا سارا ’ کہا ‘ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ’ کیا ‘ میں بدل جائے ۔ یہ ووٹ کے لیے انہیں بھی ، جنہیں یہ دیش کی بیٹی کہتے چلے آئے ہیں سولی پر لٹکا سکتے ہیں ۔
__________
دستک
ایم کے بجاج انجم
پونا، ہندوستان
۔۔۔۔۔۔۔
دروازے پر ہلکی سی دستک۔ بالکل وہی جانی پہچانی۔ دروازہ کھولا تو سامنے نیلوفر کھڑی تھی۔ گلابی سوٹ اوپر سے ہلکے گلابی رنگ کا ڈوپٹہ لیے۔ ڈوپٹے میں چاندی کے رنگ کے ستارے لگے تھے۔چہرے کا گورا رنگ بھی گلابی رنگت لیے تھا۔ آج ایک عرصے کے بعد اچانک اس کو دیکھ کر میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ یاد آگئی وہ ہماری ایک ساتھ بتائی تمام گھڑیاں۔
پروموشن پر قریب دو سال پہلے میں بھوپال آیا تھا اور مجھےاپنی کمپنی کے لوکل دفتروں میں اکثر جانا پڑتا تھا۔ نیلوفر جس برانچ میں تھی وہاں پہلے بھی قریب 4-5
بار جانا ہوا تھا لیکن کبھی ہم لوگوں کا سامنا نہیں ہوا۔ اس دن کی پہلی ملاقات بھی یادگار نہ بنتی اگر اس نے ایسا سوال نہ کیا ہوتا۔ اس دن میں اپنے اک ماتحت کے ساتھ ان برانچ کی انسپکشن کے لئے گیا۔ میرے ساتھ گئے ساتھی نیلوفر سے پہلے واقف تھے۔ دونوں گفتگو میں مشغول ہوگئے۔ چونکہ میں بھی ساتھ ہی تھا تو میں بھی شرکت کرنے کی کوشش کی اور اس کے ساتھ ہی ایک کھنکتی ہوئی آواز نے پوچھا: آپ کون؟
ایسا تیکھا سوال سن کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ لیکن جس اعتماد سے گردن اوپر اٹھا کر سوال پوچھا گیا تھا اس نے مجھے اس آواز کی ملکہ کا قائل بنا دیا۔ میں نے فوراََ اپنے ساتھی سے کہا: "ان کو بتلا دیجیے، ہم کون ہیں؟"
انہوں نے تب ہم دونوں کا تعارف کرایا۔ کچھ دیر آفس میں اپنا کام کر کے ہم لوگ لوٹ گئے۔ لیکن اس کا چہرہ اور اس کا تیکھا سوال "آپ کون؟" دماغ میں گھومتا رہا۔ نہ جانے کون سی طاقت تھی جو مجھے اس بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کو مجبور کر رہی تھی۔ رہ رہ کر مجھے مرزا غالب کا شعر یاد آ رہا تھا
"پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟"
کچھ روز گزرے مجھے پھر کسی کام سے اس کے دفتر میں جانے کا موقع ملا۔ دفتر بھر میں گھومتے ہوئے میں نے اس کی سیٹ کو ڈھونڈ ہی لیا۔ جیسے ہی نزدیک پہنچا تو اس نے بہت ہی ادا سے آداب کیا۔ میں نے بھی جواب دیتے ہوئے اسے بیٹھے رہنے کا ہی شارہ کیا اور ایک کرسی کھینچ کر اس کے ٹیبل کے سامنے بیٹھ گیا۔ حال احوال کی پوچھ تاچھ کے بعد میں نے اس کی رہائش، گھر میں اور کون کون ہیں، اس کے بارے میں پوچھا اس نے بتایا کہ اس کا گھر بھوپال کی چنندہ کالونی "کوہ فضا" میں ہے والد سرکاری نوکری میں اگزیکٹیو انجنیئر کے عہدے پر ہیں۔ کچھ وقت پہلے ہی ان کا تبادلہ ایم پی کے ہی بیتول شہر میں ہوگیا۔ لیکن نیلو فر کی نوکری، چھوٹے بھائی بہن کی پڑھائی اور امی کی ناساز طبیعت کی وجہ سے انہوں نے اہل و عیال کو بھوپال میں ہی رکھنا مناسب سمجھا۔ ہر اتوار کو پاپا آتے اور سوموار صبح لوٹ جاتے ہیں۔ چھوٹی بہن ناہید و بھائی عامر شہر کے اچھے اسکولوں میں بارہویں اور آٹھویں کلاس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
امی کو پچھلے دو سال سے "ڈائبٹیز" اور "بلڈ پریشر" نے گھیر لیا ہے۔ صبح شام ان کی دوا، آرام اور پرہیز کا خیال رکھنا نیلوفر کا روزمرہ کی روٹین بن چکی ہے ۔ دفتر آتے ہوئے عامر اور ناہید کی فرمائش کے مطابق فاسٹ فوڈ کارنر سے اسنیکس لیتے ہوئے گھر پہونچنا ایک "ریگولر فیچر" ہے ۔ بڑے ہی بھولے پن سے فاسٹ فوڈ کارنر کا نام بھی بیان کیا۔ پوری ملاقات کے دوران مجھے اپنے بارے میں کچھ کہنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ گزرتے وقت کا خیال آتے ہی میں بات چیت کا سلسلہ ختم کیا اور پھر ملنے کو کہہ کر رخصت ہوا۔
آج کی ملاقات نیلوفر سے دوسری ملاقات تھی۔ اس نے اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا لیکن میرے بارے میں اس نے نہ تو کچھ پوچھا اور نہ ہی میں کچھ بتاپایا۔ اس کے سامنے پڑتے ہی میری نگاہیں اس کے چہرے پر ٹک جاتیں اور زباں پہ خاموشی جڑ جاتی۔
اگلے ہفتے مجھے کمپنی کے کام سے قریب ایک مہینے کے لئے ممبئی جانا پڑا۔ پروگرام اتنی جلدی میں بنا کہ چاہ کر بھی جانے سے پہلے نیلوفر سے نہ مل سکا۔ ممبئی میں گزرے اس مہینے میں مجھے بار بار اس کی یاد آرہی تھی۔ اس کا بھولاپن، اندازِ بیاں ، خوبصورت چہرہ، سلیقے دار پہناوا، ہر چیز کا ایک خوبصورت انداز ذہن سے اترتا ہی نہ تھا۔ لوٹنے کے ایک دن پہلے شاپنگ کے لئے نکلا تو تحفے کے طور پر نلوفر کے لئے ایک خوبصورت پین سیٹ خریدا۔ گفٹ پیک کراکر سہیج کر رکھ دیا۔
بھوپال لوٹے ایک ہفتہ ہوگیا لیکن سرکاری کام کاج سے فرصت ہی نہیں مل رہی تھی۔ ہماری ملاقات نہ ہوسکی۔ اس روز اتوار تھا۔ مجھے نیلوفر کو فون کرنے کا خیال آیا۔ گلی کے نکڑ پر پی سی او تھا۔ وہیں سے کانپتے ہاتھوں سے پہلی بار میں اس کا نمبر ڈائل کیا تھا۔ اتفاق سے فون نیلوفر نے ہی اٹھایا۔ بات چیت ہوئی تو اس نے پوچھا: "آج شام کیا کر رہے ہو؟"
"فرصت میں ہوں" میں نے کہا
"یہاں ہمارے گھر چلے آؤ، پاپا بھی آئے ہوئے ہیں اور ان سے تمہاری ملاقات بھی ہوجائے گی" اس نے کہا
مجھے تو گویا منہ مانگی مراد مل گئی۔ فورا کوہ فضا کا رخ کیا اور پندرہ منٹ میں اس کے گھر کی کال بیل کو کھنکھنا دیا۔ عامر نے دروازہ کھولا اور بڑے ادب سے لے جا کر ڈرائنگ روم میں بیٹھا دیا۔ پہلے نیلو فر آئی پھر ناہید وامی ڈرائینگ روم میں آئیں ۔ نیلوفر نے ایک ایک کر کے سب سے تعارف کرایا۔
" پاپا ابھی ابھی کہیں پڑوس میں ملنے گئے ہیں، آتے ہی ہوں گے"۔ اس نے بتایا۔
بات چیت کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس بیچ ناہید چائے ناشتہ لے کر آگئی۔ میں نے امی کو طبعیت ، ناہید و عامر کی پڑھائی کےبارے میں جانکاری حاصل کی۔ تبھی بیل بجی اور پاپا بھی آگئے۔ ان سے بھی تعارف کرایا گیا۔ بہت دلچسپ اور خوش مزاج۔ ناشتے کے دوران انہوں نے میرے جاب و ایجوکیشن کے بارے میں پوچھ تاچھ کی۔ مجھے ان سب سے مل کر خوشی ہوئی۔ رخصت کا وقت آیا تو نیلوفر باہر تک چھوڑنے آئی۔ باہر آ کر میں گفٹ دیا تو اس نے شرما کر قبول تو کیا لیکن پھر کبھی گفٹ وغیرہ کا تکلف نہ کرنے کی جیسے تاکید ہی کر ڈالی۔
اس کے بعد گاہے بگاہے ہم لوگوں کی ملاقاتیں ہوتی رہیں ہم دونوں اپنے اپنے جاب کی باتیں، ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے کرتے ایک دوسرے کو کافی قریب سے جاننے لگے۔ ایک ہفتہ ہوتے ہوتے دل کا پرندہ اڑان بھرنے لگتا تھا کہ کب ملاقات ہو۔
پھر اچانک جیسے سب کچھ بدل گیا۔ پچھلے مہینے میں، میں تین چار بار اپنی مقرر جگہ پر نیلوفر کا انتظار کر چکا تھا۔ اس کے نہ آنے سے میری بے تابی بڑھ رہی تھی۔ آفس میں، ہار کر میں پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس نے نوکر ی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ میں خود کو روک نہ پایا اور نیلوفر کے گھر جا پہنچا۔
نیلو اپنے خاوند کے ساتھ دبئی جاچکی تھی۔ میں کچھ سمجھ نہیں پایا۔ نیلو، شوہر، دوبئی؟ مجھے حیران دیکھ کر امی نے خلاصہ کیا کہ نیلو کے شوہر دبئی کے ایک ہوٹل میں مینجر ہیں ویزا ملتے ہی انہوں نے ٹکٹ بھیج کر نیلو کو وہیں ساتھ رہنے کے لئے بلوالیا۔
میں نے اور کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ اٹھ کر چلا آیا۔ میری نظر میں نیلوفر غیر شادی شدہ تھی۔ اس کی شادی کب ہوئی؟ مجھے معلوم ہی نہیں ہوا۔ میرا جیسے دل ہی ٹوٹ گیا۔ میں نے شہر چھوڑ کر جانے کی ٹھان لی۔ کمپنی کے ہیڈ آفس میں عرضی دے کر اپنا ٹرانسفر واپس حیدرآباد اپنے شہر میں کروالیا۔ ان سب میں ایک سال لگ گیا۔ آج رات کی گاڑی سے ہی رزرویشن ہے۔ سبھی ملنے والوں ، دوست و احباب سے رخصت لے چکا ہوں دوستوں کو میں نے اسٹیشن پر آنے کے لئے منع کردیا تھا۔ اس شہر سے جانے کے وقت میں صرف نیلوفر کا چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ سامنے نہ سہی تصور میں ہی سہی۔ دوسرے لوگوں کی موجودگی میں ہماری ملاقات میں خلل پڑتا۔
اس دن جانے کیوں نیلو سے ہوئی ایک ایک ملاقات میرے ذہن میں گھوم رہی تھی۔ پھر اس وقت کون ہے؟ یہ دستک تو جانی پہنچانی لگ رہی ہے۔ کیا کوئی سچ میں دستک دے رہا ہے؟ نہیں۔ یہ دستک صرف نیلو فرکی ہوسکتی ہے۔ شاید میں غلط سنا ہے۔ اتنے میں پھر دستک ہوئی۔ رہا نہیں گیا۔ اٹھ کر دروازہ کھولا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ زبان نے ہلنے سے انکار کر دیا۔ نگاہوں میں نگاہیں الجھ کر رہ گئیں چند لمحوں کے لئے دل کی ڈھڑکن رک گئی۔
اندر آنے کو نہیں کہو گے انجم؟
آئیے، آئیے ، گھبرا کر میں نےراستہ چھوڑا۔
خالی گھر اور تیار اٹیچی۔ سوٹ کیس دیکھ کر اس نے پوچھا "کہاں جا رہے ہو؟"
نیلو جس شہر سے تمہاری یادیں جڑی ہوں اس میں میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتا۔ تم نے ایسا کیوں کیا۔ اچانک چلی گئی؟ تم شادی شدہ ہو۔ کبھی تم نے ذکر بھی نہیں کیا۔ تمہیں لے کر میں نےکیا کیا خوا ب دیکھے تھے۔ سب ایک نازک شیشے کی طرح ٹوٹ گئے۔
میں تمہیں بتلانا چاہتی تھی لیکن کبھی موقع ہی نہیں آیا۔ میری شادی تو تین برس پہلے ہی ہوگئی تھی۔ لیکن میرا ویزا نہ ہونے کی وجہ سے جمال صاحب وہاں اکیلے رہتے تھے۔ پھر اچانک ویز املنے پر انہوں نے ٹکٹ بھیجے اور مجھے فوراََ جانا پڑا۔ اب ہم عید کے لئے دس دنوں کی چھٹیاں لے کر سب سے ملنے آئے ہیں۔ آج شام کا کھانا تم ہمارے ساتھ گھر پر ہی کھانا۔ جمال بھی تم سے ملنا چاہتے ہیں۔
تو تم نے ان کو میرے بارے میں بتلا دیا ہے؟ میں نے پوچھا
"اور نہیں تو کیا؟ چھپاؤں گی کیوں؟ ہم لوگ دوست ہیں اور دوست رہیں گے۔ جمال کا نظریہ سخت نہیں ہے"
"نہیں نیلوفر رہنے دو، میں ان کے سامنے نہیں آپائوں گا"۔
"تمہیں آنا ہی ہوگا انجم۔ نہ آنے سے ہمارے رشتے کو غلط سمجھے جانے کا اندیشہ ہے"۔
نیلوفر کے بہت سے اصرار کے باوجود میں نہیں گیا اس رات۔ نہ جانے جمال نے کیا سمجھا ہوگا اور نیلو نے بھی۔ مجھے حیدرآباد لوٹے دو برس ہوگئے ہیں۔ شام ہوتے ہی کان دروازے پر دستک سننے کو بے تاب ہوجاتے ہیں۔ نیلو فر کے پاس میرا پتہ بھی نہیں ہے اور وہ ہندوستان سے ہزاروں میل دور دبئی میں رہتی ہے پھر بھی نہ جانے کیوں مجھے انتظار رہتا ہے اس دستک کا۔
___________
خدائے پاک!
دعاؤں کو یہ اٹھے ہوئے ہاتھ
ترس رہے ہیں کہ ایجاب کی گھڑی مل جائے
زبان گنگ کہ ایسے گناہگار ہیں ہم
سوال لب پہ نہیں آرہے ہیں آج کی رات
خدائے پاک!
تجھے علم تو سبھی کچھ ہے
تو جانتا ہے کہ ظلمت کا دور دورہ ہے
یہ تیرے عاجز و مجبور شرمسار غلام
یہ حق ہے ان سے ادا کوئی حق نہ پایا
خدائے پاک!
تو مجبوریاں سمجھتا ہے
خدائے پاک!
اسیروں کی لاج تو رکھ لے
زمانہ ہنستا ہے، ہم رو رہے ہیں یا چپ ہیں
نظر سے آگے کی ہر راہ ہوگئی دھندلی
خدائے پاک!
کوئی راستہ دکھا دے ہمیں
خدائے پاک!
فرشتے اتار دے پھر سے
خدائے پاک!
بہت کفر کو تکبر ہے
ہمارے ہاتھ عصا تک پہنچ نہیں پاتے
یہ تیرے وصف کا وہ مرحلہ ہے رب جہاں!
کہ جس میں تیرا غضب منکروں پہ ٹوٹ پڑے
گناہگار دعاؤں سے ہوگئے عاجز
خدائے پاک!
پکڑ لے تو ظالموں کو اب
خدائے پاک!
ہمیں پھر سے سرفرازی دے
اب اس کے بعد بس آمین کا سہارا ہے
یہ اک دعا ہی فقط آسرا ہمارا ہے
دانش اثری، مئو
9236741905