"مگر ماں ....میں کیسے کروں مجھے یہ کام نہیں آتا۔۔۔!"
"بیٹی۔۔۔ اس میں کیا مشکل ہے۔۔۔ یہ جو لوگ نظر آرہے ہیں نا ۔۔۔ ان کو بولنا ہے بس۔۔۔"
"ماں کیا بولنا ہے۔۔۔۔!"
"کچھ نہیں۔۔۔ بس اللہ کے نام سے مانگنا۔۔۔ لوگ خود بخود دیں گے۔۔۔"
"لیکن ماں۔۔۔ اتنے سارے اجنبی مردوں کے سامنے میں کیسے ہاتھ پھیلاؤں گی۔۔۔۔ مجھے گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے۔۔۔۔!!"
"بیٹی گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔ میں یہیں پاس میں ہی رہوں گی۔۔۔۔ تجھ پر نظر رکھوں گی۔۔۔ جا ۔۔۔۔ اور دیکھ یہ جو سامنے دکانیں اور ہوٹل ہے نا۔۔۔ اس کے آس پاس ہی رہنا۔۔۔۔اوڑھنی اچھی طرح لپیٹ لے۔۔۔ جو بھی ملےاس تھیلی میں رکھنا۔۔ کہیں دور نہیں جانا۔۔۔
اور سن تین گھنٹے کے بعد یہیں اس کھمبے کے نیچے آکر ملنا۔۔۔ سمجھ گئی نا۔۔۔ اب جا۔۔۔"
"قسمت "سرکاری اسکول سے ساتویں جماعت کامیاب کر کے اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کر چکی تھی۔باپ کے انتقال کے بعد اس کی ماں نے گداگری کا پیشہ اختیار کر لیا تھا۔آج اس کی ماں اسے بھی گداگری کے پیشے میں جھونکنے کے لئے لائی تھی۔آج" قسمت "کا پہلا دن تھا۔دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔تین گھنٹے میں کام ختم ہونے والا تھا۔مگر یہ تین گھنٹے اس کے لئے تین برس کے برابر لگ رہے تھے۔تین۔ گھنٹے کی مدت کسی پہاڑ کی طرح معلوم ہو رہی تھی۔اجنبی لوگوں کا سامنا کرنا اس کے لیے ناممکن کام تھا۔وہ جیسے تیسے ہوٹل تک پہنچ تو گئی تھی مگر ایک کنارے جا کر رک گئی تھی۔اس کی طبیعت اجنبی مردوں کے درمیان جانے اور ان کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارا نہیں کر پا رہی تھی۔وہ بار بار بے چینی سے اس کھمبے کے جانب دیکھتی جہاں اس کی ماں نے ملنے کو کہا تھا۔وہ چاہتی تھی کہ کب یہ تین گھنٹے بیتیں گے۔خدا خدا کر کے یہ پہاڑ جیسی مدت کٹنے کو تھی کہ اس کی نظر کھمبے کے نیچے پڑی۔ماں کو دیکھتے ہی وہ سرپٹ دوڑتے ہوئی ماں کے پاس پہنچ گئی۔آنکھوں میں آنسو تھے۔دونوں ماں بیٹی قریب میں موجود پلاٹ پر بیٹھ گئے۔ "قسمت" کو روتے ہوئے دیکھ کر ماں نے پوچھاکیا ہوا بیٹی؟
"مجھے یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔۔۔۔ اتنے سارے اجنبی مرد۔۔۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے.."قسمت نے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا۔
تو ڈر نہیں۔۔۔ کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ آج پہلا دن تھا۔۔۔ اس لیے۔۔۔۔ کچھ دن میں تیری بھی عادت پڑ جائے گی نا۔۔۔۔ پھر ڈر نہیں لگے گا۔۔۔"
" اچھا بتا کتنے روپے ملے تجھے۔۔۔؟"ماں نے پوچھا۔۔۔
" کچھ نہیں۔۔۔" قسمت نے کہا
" کچھ نہیں کیوں۔۔۔؟ماں نے پوچھا
"کسی نے نہیں دیا۔۔۔" قسمت نے ڈرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
" چل کوئی بات نہیں۔۔۔ میں بھی جب مانگنے نکلی تھی تو مجھے بھی پہلے دن کچھ نہیں ملا تھا۔ اسی پلاٹ پر بیٹھ کر بہت روئی تھی۔۔۔ تو اس وقت بہت چھوٹی سی تھی۔۔۔ میری گود میں تھی۔۔۔۔
بیٹی تو تھوڑی بڑی ہو جا۔۔۔ تجھے بھی نقاب دلا دوں گی۔۔۔ پھر شرم نہیں لگے گی۔"
" ماں۔۔۔ میں یہ سب نہیں کرنا چاہتی۔۔۔ میں اسکول جانا چاہتی ہوں۔۔۔ میں پڑھنا چاہتی ہوں۔۔۔_ قسمت نے کہا۔۔۔
" مگر کیا۔۔۔؟ "ماں۔۔۔ قسمت نے عاجزی سے پوچھا۔۔
" مگر ۔۔۔۔ گھر خرچ کے بعدتجھے پڑھانا میرے لئے مشکل ہے۔۔۔ یہ پڑھائی لکھائی ہم غریبوں کے بس کی بات نہیں ہے اور پھر دسویں بارہویں پڑہ کر کیا کرے گی ؟"
' ماں ہم یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔۔۔؟" قسمت نے سوال کیا
" بیٹی۔۔۔ ہم کب تک کراۓ کے گھر میں رہیں گے۔۔۔ خود کا گھر خریدنا ہے۔۔۔ کچھ برسوں میں تو بڑی ہو جائے گی۔۔۔ تیرے ہاتھ پیلے کرنا ۔۔۔۔ یہ سب کے لئے روپے کہاں سے آئیں گے۔۔۔ اس لیے ہمیں مانگنا پڑ رہا ہے۔۔۔"
" ماں۔۔۔ ہم یہ چھوڑ کر کوئی دوسرا کام نہیں کر سکتے۔۔ کہیں کوئی کام کر کے عزت کی روٹی نہیں کما سکتے۔۔۔؟"قسمت نے کہا
" ہاں بیٹی۔۔۔ عزت کی روٹی کمانا آج کے دور میں کوئی آسان کام نہیں ہے۔۔۔ "
" کیوں ماں۔۔۔؟ کیوں مشکل ہے۔۔۔؟ قسمت نے پوچھا
" بیٹی تو ابھی بہت چھوٹی ہے۔۔۔ یہ سب باتیں تیرے پلے نہیں پڑے گی۔۔۔"
" ماں ہمارا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے کیا۔۔۔ کوئی رشتے دار وغیرہ۔۔۔؟!" قسمت نے پوچھا
" ہیں بیٹی ۔۔۔ مگر۔۔۔ کسی کام کے نہیں۔۔۔ ان سےتو اچھے یہ بھیک دینے والے۔۔۔ ہمارے رشتے دار ان بھیک دینے والوں سے بد تر ہیں۔۔۔"
بیٹی جب تو چھے مہینے کی تھی تبھی تیرے ابو اللہ کو پیارے ہو گئے۔۔۔
"ماں یہ سب کیسے ہوا۔۔۔ ؟"قسمت نے سوال کیا
" بیٹی تیرے ابو ڈرائیو تھے۔۔۔ ایک ایکسیڈنٹ میں ان کا انتقال ہو گیا اور ہماری تو دنیا ہی برباد ہو گئی۔۔۔ تجھے پال پوس کر بڑا کرنے میں، میں ہر پل مرتی رہی ہوں۔۔۔ "
" ماں۔۔۔ کچھ دوسرا کام کرتے ہیں۔۔۔ یہ اچھا نہیں لگتا۔۔۔ لوگ حقارت سے دیکھتے ہیں۔۔۔ جھڑکتے ہیں۔۔۔ طعنہ دینے ہیں۔۔۔ سخت سست کہتے ہیں۔۔۔!" قسمت نے کہا
" بیٹی۔۔۔ میں نے سب کچھ کر کے دیکھ لیا ہے۔۔۔ یہی اچھا ہے ہمارے لیے۔۔۔ یہاں ہم محفوظ ہیں۔۔۔"
" نہیں ماں۔۔ میں یہ نہیں کرنا چاہتی۔۔" قسمت نے کہا
" بیٹی تجھے کیسے سمجھاؤں۔۔۔ تجھے کیا کیا بتاؤں۔۔۔۔"
ماں۔۔۔ مجھے بتاؤ اس میں کیا اچھا ہے۔۔؟قسمت نے ضد کرتے ہوئے پوچھا
قسمت کی ضد پر ماں نے بتانا شروع کیا۔۔۔۔ بیٹی جب تیرے ابو کا انتقال ہوا تو اس وقت تو چھے مہینے کی تھی۔۔۔ تیرے ابو کے کے انتقال کے بعد چند روز تو لوگ ہمدردی جتاتے رہے پھر اس کے بعد ہمارا کوئی پرسان حال نہیں رہا ۔۔۔۔ میں، اپنے گھر کے قریب کے کارخانے میں کام کرنے لگی۔۔۔ کچھ دن تو ٹھیک گذرے مگر مجھے جوان،اکیلآ اور بے سہارا دیکھ کر کارخانے کے سیٹھ کی نیت مجھ پر خراب ہو گئی۔پہلے تو وہ مجھے روپے کا لالچ دیتا رہا۔۔۔ جب میں نے اسے قبول نہیں کیا تو ایک دن اس نے میرے ساتھ زبردستی کی کوشش کی۔۔۔ میں وہاں سے اپنی عزت بچا کر بھاگ نکلی ۔۔۔۔ روزانہ تین وقت کی روٹی کا انتظام کرنا میرے لیے مشکل ہوگیا۔۔۔۔ پھر میں نے اپنے محلے میں بڑے سیٹھ کے بنگلے پر جھاڑو پوچھا اور صاف صفائی کرنے لگی۔۔۔۔ کچھ دن تو وہاں بھی ٹھیک تھا۔۔۔ پھر بنگلے والے سیٹھ کی نیت بھی خراب ہو گئی۔۔۔۔ میں بڑی مشکل سے وہاں سے بھی عزت بچا کر بھاگی۔۔۔ میں بہت پریشان تھی۔۔۔ گھر کے باہر نکلنے کو جی ڈرتا تھا۔۔۔ باہر کی دنیا میں شریفوں کے بھیس میں نوچ کھانے والے بھیڑئیے ہر جگہ موجود تھے۔۔۔۔ تو گود میں تھی ۔۔۔ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا۔۔۔ میں دو روز سے بھوکی تھی۔۔۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کروں۔۔۔ آخر کار میں نے نقاب لکایا،تجھے گود میں لیے اسی جگہ آگئی،اور لوگوں سے بھیک مانگنے لگی۔۔۔۔ اسی طرح تجھے پال پوس کے بڑا کیا ہے۔۔۔ آج تیرہ برس ہوگئے،اس کام میں۔۔۔ پہلے مجھے بھی بہت برا لگتا تھا۔۔۔۔ مگر میں مجبور تھی۔۔۔۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا میرے پاس۔۔۔ بیٹی یہ کام اتنا خراب نہیں ہے۔۔۔۔ لوک جھڑکتے ہیں۔۔۔ سخت سست کہتے ہیں۔۔۔ برا بھلا کہتے ہیں۔۔۔۔ مگر عزت تو محفوظ ہے نا۔۔۔۔چل رات کے ایک بج گئے ہیں۔ میں سامنے ہوٹل سے کچھ کھانا لاتی ہوں،کھا کر گھر چلیں گے۔۔۔ تو زیادہ مت سوچ۔۔۔۔ میں نے کہا ہے نا۔۔۔ تھوڑے دن بعد تجھے نقاب دلا دوں گی۔۔۔ بس۔۔۔"
دونوں کھانا کھا کر گھر چلے جاتے ہیں اور دوسرے دن پھر وہیں واپس آجاتے ہیں اور کام شروع کر دیتے ہیں۔۔۔ آہستہ آہستہ قسمت بھی کام کی عادی ہوجاتی ہے۔۔۔
ایک دو برس بعد ماں اپنی بیٹی قسمت کے ساتھ ایک نقاب کی دکان پر پہنچتی ہے۔۔۔ قسمت کے لئے ایک نقاب پسند کر کے اس کی قیمت ادا کرتی ہے۔۔۔ قسمت وہیں دکان پر نقاب پہن لیتی ہے۔۔۔ دونوں ماں بیٹی اسی جگہ پہنچتے ہیں۔۔۔ اور کام شروع کردیتے ہیں۔۔۔ ماں آواز دیتی ہے بیٹی تین گھنٹے بعد اسی کھمبے کے پاس ملیں گے۔۔۔۔!