بچوں کی دنیا کے عنوان سے کمال صاحب نے ایک خوبصورت منظوم اسکٹ بھی لکھی ہے ، جس میں ہر عمر کے بچوں کے حوالے سے دنیا کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
میری روٹھی گڑیا سی ہے؍ دنیا چاند کی بڑھیا سی ہے
سپنوں کے شہزادے جیسی ؍ دنیا جھوٹے وعدے جیسی
ممی کی بک بک ہے دنیا ؍ اب تو پپا تک ہے دنیا
میرے پپا تک ہے دنیا
اتنی بھر پور شاعری کرنے کے باوجود عبداﷲ کمال خود کو شاعر نہیں مانتے تھے۔ اس کی وجہ ان کے اشعار ہی سے دریافت کی جا سکتی ہے ۔ ملاحظہ ہو …
مجھے شاعر نہ سمجھو
میں شاعر سے بڑا ہوں
غزل لکھتا نہیں میں
غزل میں جی رہا ہوں
مگر دل کے متعدد دوروں کے بعد شاید وہ درد کی زیادہ میزبانی کرنا مناسب نہیں سمجھتے …؟ کہتے ہیں …
درد سے کہہ دو ، بہت دیر نہ ٹھہرے دل میں
اب یہاں اور مدارات نہیں ہو سکتی
اور پھر … اس کے بعد واقعی کمال صاحب نے درد کو دل میں ٹھہرنے نہیں دیا …اپنے دل کے دروازے بند کر دیے … صرف درد کے لیے نہیں ہم سب کے لیے !
آخر میںعبداﷲ کمال کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
کسی بچے کے ہاتھوں کا غبارہ تھے ہم
بہت دکھ ہے ، پلٹ کر اب نہیں آئیں گے
اور اب عبداﷲ کمال ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کی معشوقہ ان کی بیاض میں موجود ہے ، جو کبھی بیاض دل میں رہا کرتی تھی ۔ یعنی ان کی غزل۔آخر میں عبدﷲ کمال کے دو اشعار ملاحظہ ہوں :
سب مناظر ، سب تصور ، بے نشاں ہو جائیں گے
تیز رو لمحوں میں سب پیکر دھواں ہو جائیں گے
ہاں ، ابھی تک قصۂ تازہ ہیں عبداﷲ کمالؔ
رفتہ رفتہ بھولی بسری داستاں ہو جائیں گے
🔴شیریں دلوی
__________
ازدواجی مسائل اور انسانی شخصیت ۔۔۔۔۔۔ پانچواں / آخری حصہ
کیا ایکسٹرا میریٹل افیئرز فطری ہیں ؟
دوستو!
یاد رکھئے کہ ہمارا دماغ بہت جلدی excited ہو جاتا ہے ، خاصطور پر جب اسے کھلا ڈلا نظر آرہا ہو یا اسے میسر ہو۔ مثلا جیسے کوئی ایک دوسرے کو اشارے کنایہ سے نہ صرف جسمانی بلکہ حرکات و سکنات سے پیغام بھی دے رہیں ہوں تو تب بہکنا بہت آسان ہوتا ہے ۔
انسان کی تسکین دو طرحکی ہوتی ہے ۔
1۔ جسمانی تسکین
2۔ زہنی تسکین
سیکس کسی کے ساتھ بھی کیا جائے جسمانی تسکن تو مل سکتی ہے لیکن زہنی تسکین ملے یہ ضروری نہیں ۔ ہر معاشرت میں شادی ایک ایسا رشتہ ہے جس میںدونوں طرح سے تسکین پانا ممکن ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شادی ہی وہ واحد رشتہ ہے جس میںجسمانی تسکین کسی وجہ سے ممکن نہ بھی ہو تو زہنی تسکین وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی جاتی ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک رومانس کی سی کیفیت ہے ۔
لیکن سوچنے کی بات ہے یہ ہے کہ اگر ایساہے تو پھر کچھ لوگ ایکسٹرا میریٹل افیئرز میںکیوں پڑ جاتے ہیں ؟
دراصل ہوتا یہ ہے کہ ایسے لوگ جو اپنے ازدواجی رشتوں میں رومانس کو کھوج نہیں پاتے یا پیدا نہیں کر پاتے ۔۔ تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ جسمانی تسکین بھی کھو دیتے ہیں اور جلد بور ہو جاتے ہیں۔ انسان اسی بوریت اور یکسانیت سے اکتا کر کسی نئے رشتے کی تلاش میں نکلل جاتا ہے ۔۔۔اور جلد اس سے بھی بور اور اکتا کر کسی اور کی طرف چل پڑتا ہے ۔ یوں کئی رشتے تعلق بنانے اور جسمانی تسکین کے باوجود کہیں زہنی تسکین نہیں مل پاتی ۔
انسان بھول جاتا ہے کہ سیکس یعنی جنسی تعلقات قائم کرنے کا مطلب پاک و پاکیزہ رشتہ بنانا ہوتا ہے ۔۔ سیکس بظاہر ایک آٹو میٹک سا جسمانی کام لگتا ہے لیکن اپنے اندر گہری روحانیت لئے ہوتا ہے ۔ کیونکہ جب دو جسم آپس میںملتے ہیںتو ان کی خلیات بھی ایک دوسرے میںضم ہوتے ہیں جس سے ان کی انرجی (مثبت یا منفی) بھی ایک دوسرے میں داخل ہوتی ہے اور ان کے ڈی این اے میںموجود ساری انفارمیشن کا تبادلہ بھی ہوتا ہے ۔ زرا دیر رکئے اور سوچیئے کہ اگر بہت ساری انفارمیشن ایک جگہ جمع ہو جائے تو کیا ہوگا ۔۔ یقیننا جسمانی تکلیف اور زہنی خلفشار ، اضطراب اور کشمکش کی سی کیفیت ہو گی جو بعد میں بے سکونی اور گلٹ (احساس جرم یا احساس گناہ ) میں بدل جاتی ہے جو ایک سے زائد لوگوںکے ساتھ سیکس کرنے والوںمیں پائی جاتی ہے۔ یہ بے چینی اور گلٹ ہی وہ روحانی پیمانہ ہے جو جائز اور ناجائز میںتفریق سکھاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان اپنے ازدواجی رشتے سے بور کیسے ہوجاتا ہے ِ؟
دوستو!
رشتوںمیں بوریت کی سب سے بڑی وجہ ان میں"دوستی " کا نہ ہونا ہے ۔ دوستی ہی ایک ایسا رویہ یا جذبہ ہوتا ہے جو دو انسان کے درمیان Non -Judgmental رشتے کی بنیاد رکھتا ہے ۔۔ دو لوگ بغیر کسی ڈر خوف کے اپنی ہر اچھی بری بات شیئر کر لیتے ہیں۔ دونوںایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے کا ظرف رکھتے ہیں۔۔
ایک سائیکولوجیکل سٹڈی کے مطابق ایک لڑکی کے بہت سارے سیکس پارٹنرز تھے لیکن اسے جنسی تسکین (Orgasm) ان میں سے صرف ایک ہی آدمی سے حاصل ہوتا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ ایک وہی آدمی سے ہی کیوں ؟ تو اس نے کہا کہ جب وہ اس کے قریب ہوتا ہے یا سیکس کرتا ہے تو اسے اس سے محبت محسوس ہوتی ہے اور کہا کہ مجھے اس سے پیار ہے ۔ پیار وہ روحانی رشتہ ہے جو انسان کو تحفے میں اپنی دوستی دے سکتا ہے ۔۔ ہر طرحکی تسکین دے سکتاہے ۔
سوچنا یہ ہے کہ کیا آپ کے ازدواجی رشتے میں دوستی کی صورت وہ گہرا پیار ہے یا محضمعاشی ، سماجی مجبوری کی وجہ سے رشتہ قائم ہے ؟
روحانی طور پر انسان اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ جب وہ کسی کے بارے میں زیادہ سوچتا ہے اور جس انداز سے سوچتا ہے اس سے وہ اسی طرح سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔۔ یعنی محبت سے سوچیں گے تو محبت ہی ہو گی اور جو نفرت اور بیزاری محسوس کریں گے تو وہ بھی اتنی ہی بڑھتی چلی جائے گی ۔۔ حالانکہ زبان سے کچھ نہیں کہا ہوگا لیکن زہنی انرجی ایکسچینج ہوتی رہتی ہے ۔ ۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ ایکسٹرا میریٹل افیئرز میں پڑے ہوتے ہی وہ اپنے لائف پارٹنرز سے زہنی طور پر دور ہوتے ہیں۔۔۔ وہ انہیں سوچتے ہی نہیں کہ وہ کیسے دکھتے ہیں۔۔ کیا محسوس کرتے ہیں۔۔ کونسی بات پر کیسا رد عمل دکھا تے ہیں ۔۔ یا ان کو کیا پسند ہے اور کیا پسند نہیں ہے ۔
لائف پارٹنر کے ساتھ مظبوط اور گہری دوستی کے لئے کچھ ٹپس ہیں ۔۔۔
1۔ دوستی کیجئے
2۔ اپنی روزانہ کی باتیں شیئر کیجئے
3۔ ایک دوسرے کو انہماک اور توجہ سے سنیئے / نان ججمینٹل ہونا شرط ہے
4۔ اپنے بچپن کی شرارتیں ، ڈراور خوف شیئر کیجئے
5۔ ایک ساتھ واک پر جایئے
6۔ ایک ساتھ فلم دیکھئے ۔۔ تفریھی مقامات پر جایئے
7۔ اپنی جاب پر سے چھٹیاں ضرور لیجئے اور فیملی کے ساتھ گزاریئے
8۔ اپنے لئے قانون بنا لیجئے کہ لائف پارٹنر کی جگہ اور کوئی نہیں لے سکتا
9۔ یاد رکھئے جنس مخالف سے اکیلے ملنے میں شیطان ہمیشہ ساتھ ہوتا ہے ۔۔۔ مثال کے طور پر ایک پنجرے میں آپ اور شیر ایک ساتھ ہوںتو یقیننا شیر آپ پر حاوی ہوجائے گا۔ ۔۔ آپ لوگوںکی موجودگی میں کسی سے بھی مل سکتے ہیں کہ بھیڑ میں انسانی دماغ شرارت سے محفوظ رہ سکتا ہے ۔
10۔ زیادہ سے زیادہ اپنے لائف پارٹنر کے بارے میں سوچیئے تاکہ روحانی رشتہ استوار ہو
11۔ جنس مخالف سے فیزیکل کونیکٹ سے خود کو بچایئے ۔۔ ہندوؤںمیںاسی لیئے ہاتھ جوڑکر نمستے کہنے کا رواج ہوا کہ ہاتھ بھی نہ ملائیں کہ اس سے روحانی اور بایئولوجیکل انفارمیشن منتقل ہوتی ہے۔
ہمیشہ یاد رکھئے ،،
Sex is a form of Spiritual Love.
سیکس عبادت کی طرح ہے جو جسمانی ، زہنی اور روحانی تسکین کا باعث ہے جس میں احساس جرم ، احساس گناہ اور شرمندگی کی کوئی گنجایئش نہیں ہے ۔ جس سیکس کرنے میں یا رشتہ رکھنے میں یہ تینوں احساس نمایاں ہوں تو وہ شہوت اور ہوس کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اگر ایک جنم میں میاں بیوی کا رشتہ روحانی طور پر استوار ہو جائے تو وہ اس قدر پرسکون اور سرشار ہو جاتے ہیں کہ اگلے جنم میں شادی ہی نہیں کرتے کہ نفسانی خواہشوں سے مکت ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کے ہاں ازدواجی رشتہ جنموں جنموں کا ساتھ ہوتا ہے اور انتہائی پاک و پاکیزہ اور روحانی ہوتا ہے ۔ عیسائیوں میںایک بیوی کے ہوتے دوسری شادی نہیںکر سکتے ۔۔ اسلام میں چار بیویاں رکھ سکتے ہیں بشرطیکہ پیار محبت توجہ اور نان نفقہ چاروں میں عدل سے تقسیم ہو سکے ۔۔ جو کہ شاز و ناز ہی ممکن ہے ، لیکن اسلام کی یہ کوشش بھی ایکسٹڑا میریٹل ریلیشنز کو روکنے کا جائز طریقہ سمجھا جاتا ہے ۔
دوستو !
پہلی قسط میں بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ مجھ سے اکثر پوچھا جانے والا سوال ہے
“ صرف ایک سے ہی جنسی تعلقات رکھنا فطرتی ہے یا فطرت کے خلاف ہے “
پانچویں قسط میں میرا جواب ہے ۔۔
ایک سے زائد جنسی تعلقات رکھنا فطرت کے خلاف ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہے وہ جانوروں کا سا شعور کیوں رکھتا ہے کہ اسے کسی کے ساتھ بھی ، جب کبھی ، سیکس میسرہو یا جب بھی اس کا کہیں داؤ لگ جائے ، سوچے سمجھے بغیر ، اپنی جنسی تسکین پوری کرنے کے لئے بے چین ہو جاتا ہے ۔۔ بلکہ کر گزرتا ہے ۔۔ یہ بھی نہیں سوچتا کہ آخر کیوں اس کے ایکسٹرا میریٹل افیئرز ہوتے ہیں ؟
سوچیئے ۔۔جانیئے ۔۔ آخر یہ شعور کیا ہے جو جانوروںاور انسانوں میں ایک سا بھی ہے اور الگ بھی ہے ؟
آپ سب کے لئے بہت محبتیںاور دعائیں
ڈاکٹر نگہت نسیم
&__________
*_* *الوداع ماہء رمضاں* *_*
مومنوں ماہء رمضاں چلا ہے
چھوڑ کر ہم کو رمضاں چلا ہے
رو رہے ہیں یہ سارے مسلماں
دیکھو رمضان پیارا چلا ہے
مومنوں..................
جا رہی ہے وہ دیکھو تراویح
چھوڑ کر جا رہی ہے یہ سحری
ماہء رمضاں کی یہ افطاری
نعمتیں لے کے رمضاں چلا ہے
مومنوں.....................
نعمتوں ، رحمتوں کا خزینہ
جا رہا ہے مبارک مہینہ
اے خدا ماہء رمضاں کو لانا
ہم کو رمضاں سے سب کچھ ملا ہے
مومنوں...................
کر کے قرآن کی ہم تلاوت
ہم بتائیں گے تیری یہ عظمت
سن لو اے مومنوں شان و شوکت
دے کے انعام قرآں چلا ہے
مومنوں...............
تیس روزے رکھے جس نے مولا
بخش دینا انھیں میرے مولا
تیرے بندے سارے مسلماں
تیرے محبوب کے امتی ہے
مومنوں....................
جو خطا ہوگی اے ماہء رمضان
معاف کرنا ہمیں ماہء رمضان
چھوڑ کر ہم کو جانا نہیں
مومنوں...................
الوداع اب کہیں تجھ کو کیسے
اب کہا بھی نہیں جاتا ہم سے
جا رہا ہے بچھڑ کے تُو ہم سے
آج کیوں ہم سے رخصت ہوا ہے
مومنوں....................
آہیں بھر بھر کے پڑھتا ہے ہاشم
رخصتی تیری اے ماہء رمضاں
کس طرح ہم سہے تیرے غم کو
کر کے غمگین ہم کو چلا ہے
مومنوں.....................
*________* *کلام* *________*
*احـــــــمــــــــــد ہــــــــــاشــــــــــم*
_____________
اس سے دامن کو چھڑانا بھی نہیں چاہتے ہم
اس قدر خود کو ستانا بھی نہیں چاہتے ہم
ہم نے دل سے اسے باہر تو نکالا ہے مگر
اسکو ویرانہ بنانا بھی نہیں چاہتے ہم
میں ہوں کھنڈر درو دیوار بھی گر جائینگی
اس کو دلہن سا سجانا بھی نہیں چاہتے ہم
اب تو سورج کی شعاؤں نے سمیٹا ہے بدن
اس کی بانہوں میں ٹھکانہ بھی نہیں چاہتے ہم
رات کی رانی میں بنتی رہی اس آنگن کی
خود کو شرطوں پہ مٹانا بھی نہیں چاہتے ہم
ساری حد پار کئے ہم نے محبّت کی مگر
دشت میں کوئی دیوانہ بھی نہیں چاہتے ہم
رنج و غم اشکوں کے شبنم ہی شغف کافی ہیں
مثل خیرات ، خزانہ بھی نہیں چاہتے ہم
پروین شغف دہلی