(نوٹ:بچوں کا مساجد میں آنے کو لے کر اکثر مباحثہ چھڑا رہتا ہے اسی موضوع پر مولانا ادریس عقیل ملی دامت برکاتہم نے نہایت ہی معتدل اور قرآن و حدیث سے ثابت شدہ نظریہ پیش کیا ہے جسے ہر شخص کو ایک بار ضرور پڑھنا چاہیے ۔)
____________________________________
"بچے مسجد اور رمضان"
تحریر :حضرت مولانا ادریس عقیل ملی دامت برکاتہم، (شیخ الحدیث معہد ملت)
____________________________________
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ۔شب برات سے ہی مصلیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور بڑی تعداد میں بچے بھی مسجد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔خاص طور سے رمضان میں بچے کثرت سے مسجد میں آتے ہیں اور بچے اپنی فطرت کے مطابق دھوم مستی بھی کرتے ہیں ۔اس ضمن میں بنیادی طور پر یہ حدیث پیش نظر رہنی چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بچوں کو نماز کا حکم کرو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور نماز نہ پڑھنے پر ان کو مارو جب وہ دس سال کے ہوجائیں ۔اسی طرح یہ حدیث بھی سامنے رہنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "اپنی مسجدوں کو بچوں اور پاگلوں اور خرید و فروخت سے بچاؤ" ۔علماء کہتے ہیں کہ ایسے ناسمجھ بچے جو آدابِ مسجد سے ناواقف ہوں، جو پیشاب، پاخانہ، طہارت، نجاست کا شعور نہ رکھتے ہوں ان کو مسجدوں میں نہیں لانا چاہیے ۔ہاں اگر ان کو شعور اور تمیز ہوجائے جس کی حد سات سال ہے ان کو مسجد میں لا سکتے ہیں اور دس سال کے لڑکے اگر مسجد میں نہ آئیں، نماز نہ پڑھیں تو ان کو تنبیہ اور سرزنش کی جا سکتی ہے ۔حالانکہ ابھی نماز فرض ہونے کی عمر نہیں ہے ۔نماز تو پندرہ سال کا ہوجانے پر (بالغ ہوجانے پر) فرض ہوتی ہے ۔اسی بنیاد پر حدیث میں صف بندی کی ترتیب یہ بتائی گئی ہے کہ پہلے بالغ مردوں کی صف ہوگی پھر بچوں کی اور اس کے بعد عورتوں کی صف ہوگی ۔فی زمانہ خواتین کے مسجد میں نماز نہ پڑھنے کا معمول ہے تاہم حدیث سے یہ تو معلوم ہوا کہ بچے مسجدوں میں آئیں گے اور ان کی صف بالغ مردوں کے پیچھے ہوگی ۔بعض لوگوں مسجدوں میں بچوں کے سلسلے میں بہت متشدد ہوتے ہیں وہ بچوں کو مسجد سے ہی بھگا دیتے ہیں یا کچھ شرارت ہو جائے تو ذلت آمیز طریقے سے کھینچ دھکیل کرتے ہیں ۔بعض لوگ تو سخت انداز میں مار پیٹ بھی کر دیتے ہیں ۔پھر جس کو مارا اس کے والدین سے جھگڑا بھی ہو جاتا ہے ۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج کے یہ بچے کل کے مصلی اور مساجد کے آباد کرنے والے ہیں ۔ان کے ساتھ نفرت والا سلوک ان کو ہمیشہ کے لیے مسجد سے دور کر سکتا ہے ۔ان کو نرمی اور محبت کے ساتھ مسجد اور نماز کے آداب سکھانا چاہیے ۔ان کو بتانا چاہیے کہ ان کی صف کہاں ہوگی، نماز کیسے پڑھنا ہے ۔شرارت بھاگ دوڑ اور چیخ پکار سے بچنا چاہیے ۔بچے اپنی فطرت کی وجہ سے کچھ حرکت تو ضرور کریں گے ایسے میں بڑوں کو اپنا فرض نبھانا چاہیے ۔آج بچے بہت کچھ حرکت کرتے ہیں لیکن مصلی سجدے میں ہوں تو ان کی پیٹھ پر تو نہیں بیٹھ جاتے ۔حدیث میں یہاں تک ملتا ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے تو آپ کے نواسے سجدے کی حالت میں آپ کی پشت پر بیٹھ گئے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک سجدے میں رہ گئے ۔نماز کے بعد صحابہ کرام نے پوچھا آپ دیر تک سجدے میں رہ گئے تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی معاملہ پیش آ گیا یا پھر آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سے کوئی بات نہیں تھی بلکہ میرا بیٹا میرے اوپر سوار تھا مجھے یہ بات ناپسند لگی کہ میں اس کے لیے عجلت کروں ۔
حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے جب کہ آپ سجدے میں ہوتے تو آپ کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے ۔آپ انہیں اتارتے نہیں تھے جب تک وہ خود اتر نہیں جاتے اور کبھی آپ رکوع میں ہوتے تو اپنے دونوں پیروں کو پھیلا دیتے اور وہ درمیان سے دوسری طرف نکل جاتے پھر کہیں روایات میں یہ نہیں ملتا کہ آپ نے بعد میں حضرت فاطمہ رض کو کہا ہو کہ یہ بچے مسجد میں نماز کے دوران کیوں آ جاتے ہیں انہیں روکو ۔
مذکورہ باتوں کے پیش کرنے سے ہرگز ہرگز یہ مقصد نہیں کہ بچوں کو شرارت کی ترغیب دی جائے یا مصلیوں کی پیٹھ پر بیٹھنے یا پیروں کے درمیان سے نکلنے کی گنجائش دی جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ بچوں کو مسجدوں میں بہت حد تک برداشت کرنا چاہیے ۔
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز طویل کر دوں پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز مختصر کر دیتا ہوں کہ لمبی نماز اس کی ماں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بن جائے ۔
مفتی عبدالرؤف سکھروی لکھتے ہیں "بچوں کی صف کا مردوں کی صف کے پیچھے ہونا سنت ہے لہذا جب جماعت کو وقت ہو اور بچے حاضر ہوں تو پہلے مرد اپنی صفیں بنائیں پھر اس ترتیب سے جماعت کھڑی ہوجانے کے بعد اگر بعد میں کچھ مرد حاضر ہوں تو اول وہ مردوں کی صفوں کو مکمل کریں اگر وہ پوری ہو چکی ہوں تو پھر بچوں کی صف ہی میں دائیں بائیں شامل ہو جائیں، بچوں کو پیچھے نہ ہٹائیں کیوں کہ بچے اپنے صحیح مقام پر کھڑے ہیں ۔مردوں اور بچوں کی مذکورہ ترتیب جماعت کے شروع میں ہے نماز شروع ہو جانے کے بعد میں نہیں ۔بچے اگر تربیت یافتہ نہ ہوں اور دورانِ نماز شرارتیں کریں جس سے مردوں کی نماز خراب ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو پھر ان کی علاحدہ صف نہ بنائی جائے ۔بہتر ہوگا کہ مردوں کی صفوں میں دائیں جانب یا بائیں جانب بچوں کو کھڑا کیا جائے تاکہ وہ نماز میں کوئی شرارت کر کے بڑوں کی نماز خراب نہ کریں ۔ایسی صورت میں مردوں کی صفوں میں ان کے کھڑے ہونے سے مردوں کی نماز میں کوئی کراہیت نہیں آئے گی ۔(صف بندی کے آداب ص23)
بعض مساجد میں بعض لوگ بچوں کے ساتھ بہت ناروا سلوک کرتے ہیں خود دو تین رکعت ہوجانے کے بعد آتے ہیں اور پھر پہلے سے نماز پڑھ رہے بچوں کو کھینچ کھینچ کر پیچھے کرتے ہیں جو بچوں کو انتہائی ناگوار گزرتا ہے ۔بہتر ہوگا کہ والدین گھروں پر بچوں کو نماز اور مسجد کے آداب سکھائیں ۔پھر دو چار حضرت اللہ کے واسطے بچوں کی صف بندی کے لیے وقت دیں ان کی ترتیب بنائیں ۔ان کو نیت باندھنے کی تاکید کریں ۔ان شاء اللہ بچے شرارت نہیں کریں گے ۔"جب کہ بچوں کی شرارت سے نماز باطل اور فاسد نہیں ہوتی" ۔
عیدین کے موقع پر عورتوں کو بھی عید گاہ جانے کا حکم حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ۔اگر چہ ہمارے مسلک میں عید گاہ اور مسجد میں فتنہ و فسادِ زمانہ کی وجہ سے خواتین کا حاضر ہونا پسندیدہ اور معمول بہ نہیں ہے مگر یہ تو پتہ چلتا ہے کہ جب عورتیں جائیں گی تو بچے بھی جائیں گے ۔لڑکے اپنے والد بڑے بھائی وغیرہ کے ساتھ جائیں گے ۔عید گاہ پر بڑا مجمع ہوتا ہے اگر بچوں کی صف علاحدہ بنائی جائے تو بچے بچھڑ جائیں، گم ہو جائیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نماز کے بعد گمشدگی کا اعلان ہوتا ہے ۔بچے الگ پریشان اور والد وغیرہ الگ پریشان ۔حالانکہ کے روایتی طور سے عید گاہ میں جماعت کھڑی ہونے کے وقت اعلان ہوتا ہے کہ بچوں کو بڑوں کی صف سے نکال دیں لیکن کسی عید گاہ میں بچوں کو نکالا نہیں جاتا کیوں کہ وہ بہت حرج اور پریشانی کی بات ہے ۔اعلان کرنے والے اعلان کرتے رہتے ہیں لیکن بچوں کو صفوں سے نکالا نہیں جاتا ۔بڑا مجمع ہونے کی وجہ سے بہت کچھ برداشت کیا جاتا ہے تو مصلحتاً بڑوں کی صف میں بچوں کو مخصوص حالات میں برداشت کر لینا چاہیے جب کہ نماز بھی فاسد نہیں ہوتی ۔بچے بڑے شوق سے اپنے بڑوں کے ساتھ عید گاہ جاتے ہیں ۔رمضان المبارک میں ہر مسجد میں مصلیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔بچے بالخصوص روزہ دار بچے بڑی تعداد میں مسجدوں میں آتے ہیں جن کی وجہ سے تقریباً ہر مسجد میں مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔بعض مساجد میں بچوں کو پڑوس کی مسجد میں جانے کی ہدایت دی جاتی ہے حالانکہ بچے پھر بھی آتے ہیں ۔بعض جگہ ان کو اوپر ہال میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں جاکر بچے اور آزادی سے نئی نئی شرارت کرتے ہیں اور مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔بہتر ہوگا کہ ان کو مسجد میں آنے سے روکنے کی بجائے ان کی اصلاح و تربیت کی جائے ۔ان کے ساتھ کچھ لوگ اپنا وقت فارغ کر کے نماز اور مسجد کے آداب سمجھائیں ۔
فجر اور تراویح کے بعد بھی بچے دھوم مستی اور شور و غل کرتے ہیں اس پر بھی دھیان دیا جائے کیوں کہ سونے والوں اور بیماروں کو ان کے شور و غل سے تکلیف پہنچتی ہے ۔
امید ہے کہ برادران اسلام مذکورہ باتوں کی طرف دھیان دیں گے ۔