عدالت عظمیٰ نے جولائی 2021 میں ان تینوں کی درخواست ضمانت منسوخ کرنے پر غور کرنے پر دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی۔ تینوں پر غیر قانون سرگرمیاں روک تھام قانون (یو اے پی اے) کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔
جسٹس سنجے کشن کول کی سربراہی والی بنچ نے منگل کو مرکزی حکومت کے وکیل سے کہا کہ التوا کی درخواست کرنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ ملزمان دو سال سے ضمانت پر ہیں اور اس معاملہ کو زیر التوا رکھنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔
جب مرکز کے وکیل نے عدالت سے اس معاملہ پر بدھ کے روز پھر سے سماعت کرنے کا مطالبہ کیا تو جسٹس کول نے کہا کہ اب تک التوا کی متعدد درخواستیں کی جا چکی ہیں اور اس معاملہ میں اب کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے۔
عدالت عالیہ کی طرف سے درخواست ضمانت منظور کئے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ یہ یو اے پی اے کے التزامات کی وضاحت کرتے ہوئے ضمانت پر ایک کافی تفصیلی حکم ہے اور اس کی رائے میں واحد موضوع جس کی تفتیش کی جانی چاہئے تھی وہ یہ ہے کہ کیا حقائق پر مبنی تناظر میں ملزمان کو ضمانت دی جائے یا نہیں! جسٹس کول نے واضح کیا کہ اس معاملہ میں نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ ان فیصلوں (ضمانت سے متعلق) کو نظیر نہیں مانا جائے گا۔
دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ تینوں طلبہ کارکنوں کو ضمانت دینے کے ہائی کورٹ کے فیصلوں میں ذاتی خیالات شامل تھے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے جسٹس کول نے کہا کہ عدالت نے اپنے پچھلے حکم میں پہلے ہی کہا تھا کہ فیصلے کو نظیر کے طور پر نہیں مانا جائے گا اور اس معاملے میں مزید کسی حکم کی ضرورت نہیں ہے۔