مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جلال الدین محمد اکبر کی پیدائش ناصرف انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہوئی بلکہ ان کی تخت نشینی بھی دارالحکومت سے بہت دور ہوئی۔
محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب ’دربار اکبری‘ میں لکھا ہے کہ ’امیر تیمور نے ہندوستان کو زور شمشیر سے فتح تو کیا، مگر وہ ایک بادل تھا جو کہ گرجا، برسا اور دیکھتے ہی دیکھتے کِھل گیا۔ بابر اُس کی چوتھی پشت میں ہوتا تھا۔ سوا سو برس کے بعد آیا، اس نے سلطنت کی داغ بیل ڈالی ہی تھی کہ اسی رستے ملک کے عدم کو روانہ ہوا۔‘
بابر کا بیٹا ہمایوں جن دنوں شیرشاہ کے ہاتھوں پریشان تھا، اُس نے اپنے بھائی مرزا ہندال کے استاد کے خاندان کی بیٹی حمیدہ بیگم سے عقد کر لیا۔
ہمایوں جگہ جگہ پریشاں حال گھوم رہا تھا کہ سنہ 1542 میں موجودہ سندھ میں عمر کوٹ کے مقام پر حمیدہ بیگم کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام جلال الدین اکبر رکھا گیا۔
کوئی اور مغل بادشاہ ہوتا تو اس وقت زر و دولت کو پانی کی طرح بہاتا لیکن بے سروسامان ہمایوں کے پاس خوشی کے اس موقع پر لٹانے کو کچھ نہیں تھا۔
’اسے یاد آیا کہ اس کی کمر میں ہرن کا مشک بندھا ہے، چنانچہ اسے نکال کر توڑا گیا اور ذرا ذرا سا مشک تمام افراد میں تقسیم کر دیا گیا۔ بے تاج بادشاہ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے ’جس طرح ہرن کے مشک کی خوشبو اپنے اطراف کو معطر کر لیتی ہے، ایک دن اس بچے کی شہرت تمام دنیا میں پھیلے گی۔‘
یہاں سے دربدر ہمایوں ایران پہنچے اور کچھ عرصے بعد وہاں سے ایک فاتح کے طور پر ہندوستان لوٹے اور سلطنت مغلیہ کا احیا ہو گیا، مگر ابھی ہمایوں کو دوبارہ اقتدار سنبھالے چھ مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ 24 جنوری 1556 کو ان کی وفات ہو گئی۔
ہمایوں کے جانشین جلال الدین اکبر کی عمر اس وقت محض 14 برس تھی اور وہ اس وقت کلانور ضلع گور داس پور میں تھے۔
اکبر کے اتالیق بیرم خان کو ہمایوں کی وفات کی خبر ملی تو انھوں نے کلانور میں اینٹوں کا ایک چبوترا بنوایا اور 14 فروری 1556 کو اکبر کی رسم تخت نشینی ادا کر دی گئی۔ بیرم خان خود اکبر کے سرپرست بن گئے
دشمنوں نے دیکھا کہ نیا بادشاہ نوعمر ہے تو انھوں نے اس پر چاروں اطراف سے یلغار کر دی مگر بیرم خان کی حکمت عملی کی وجہ سے اگلے چند برس میں اکبر کی سلطنت بنگال سے افغانستان تک اور کشمیر سے دکن تک پھیل گئی۔
ابتدائی پانچ برس تک مغل سلطنت کا اقتدار درحقیقت بیرم خان کے ہاتھ میں رہا۔
اکبر 18 سال کے ہوئے تو ان کے درباریوں نے انھیں مشورہ دیا کہ بیرم خان کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو جائیں۔ اس مشورے پر بیرم خان نے بغاوت کرنا چاہی تو شاہی فوجوں نے انھیں شکست دے دی۔ بیرم خان اکبر کے سامنے قیدی کے طور پر لائے گئے تو اکبر نے انھیں معاف کر دیا اور انھیں حج کرنے کے لیے روانہ کر دیا۔
بیرم خان حج کے لیے راستے میں ہی تھے کہ نامعلوم افراد نے انھیں قتل کر دیا۔ بیرم خان کے قتل کے بعد اکبر اعظم نے اُن کے بیٹے عبدالرحیم کو ’خان خاناں‘ کا خطاب دے کر اپنے نورتنوں میں شامل کر لیا۔
انھوں نے ابوالفضل اور فیضی جیسے عالموں کی صحبت پائی تھی جن کے مشورے پر انھوں نے ہندوئوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دیں اور اُن سے ازدواجی رشتے قائم کیے۔ اکبر نے ایک ہندو عورت جودھا بائی سے بھی شادی کی جو ان کے بیٹے جہانگیر کی والدہ بنیں۔
تاریخی حوالوں کے مطابق اکبر ابتدا میں تو راسخ العقیدہ مسلمان تھے، لیکن بعد میں کچھ اپنی ناخواندگی کی وجہ سے اور کچھ سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر حقیقی دین سے دور اور علمائے اسلام سے بیزار ہو گئے اور سنہ 1581 میں ’دین الٰہی‘ کے نام سے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی، لیکن چند امیروں، وزیروں کے سوا اس دین کو کسی نے قبول نہ کیا۔
یہ نیا دین ہندو، مسلم، مسیحی، سکھ اور دیگر مذاہب کا مجموعہ تھا۔
اس کے لیے عبادت خانے کے نام سے ایک خصوصی عبادت گاہ بھی بنائی گئی تھی، جہاں مختلف مذاہب کے لوگ مل کر آزادانہ عبادت کرتے تھے۔ اس مذہب میں شامل ہونے کے لیے بیعت لی جاتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ اکبر نے اپنے اس اقدام کے ذریعے مذہب کی بنیاد پر پیدا ہونے والے مسائل سے بچنے کی کوشش کی تھی مگر دین الٰہی کے اجرا کے بعد وہ بزرگان دین کی نظروں میں ایک ناپسندیدہ شخصیت قرار پاگئے، مگر اکبر انھیں خاطر میں نہ لایا۔
عبدالمجید سالک نے سیموئل نسنسن اور ولیم اے ڈی وٹ کی کتاب کے ترجمے میں لکھا ہے کہ ’اگرچہ اکبر ان پڑھ تھے، لیکن ان کو علوم و فنون کی امداد اور سرپرستی کا خاص شوق تھا۔ بڑے بڑے شعرا، مصور، موسیقار، معمار اور دوسرے با کمال اس کی بخشش اور قدر دانی سے مالا مال ہوتے رہتے تھے اور اس کا دربار دور و نزدیک کے ماہرین فن کا مرکز بن گیا تھا۔
شہزادوں اور امیرزادوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ کرتے تھے۔ بلاشبہ اکبر نہ صرف عظیم فتوحات بلکہ نظم و نسق کے معیار اور علم و فن کی سرپرستی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں میں شمار ہوتے ہیں۔'
جلال الدین اکبر نے 50 سال بڑے شان و شوکت سے حکومت کی مگر ایک اچھی زندگی اور طویل ترین بادشاہت کرنے والے بادشاہ کے آخری ایام کچھ زیادہ خوش کن نہیں تھے
اس کے دو بیٹے مراد اور دانیال کثرت شراب نوشی کی وجہ سے نوجوانی ہی میں جان سے گئے، جن کی موت نے انھیں نڈھال کر دیا، پھر ان کے نورتن بھی ایک ایک کر کے اُن سے جدا ہوتے گئے۔ وہ اپنے جانشین شہزادہ سلیم کی سرکشی سے بھی پریشان رہے، جس نے اس کے خلاف بغاوت بھی کی۔
ان تمام حالات کی وجہ سے وہ بستر سے لگ گیا اور بلآخر 13 اکتوبر 1605 کو فتح پور سیکری کے مقام پر وفات پا گئے۔ اس کا مقبرہ آگرے کے نزدیک سکندرہ کے مقام پر ہے۔
جلال الدین اکبر کا عہد حکومت سلطنت مغلیہ کا عہد زریں سمجھا جاتا ہے اور ان کے عہد حکومت پر بہت سے کتابیں لکھی گئیں، جن میں ابوالفضل کی اکبر نامہ، محمد حسین آزاد کی دربار اکبری اور سرسید احمد خان کی آئین اکبری کے نام سرفہرست ہیں۔