اس وفد میں قاری اخلاق احمد جمالی (جنرل سکریٹری جمعیت علماء شہر مالیگاٶں) مولانا جمال ناصر ایوبی (جنرل سکریٹری جمعیت علماء ضلع ناسک)
حافظ عبدالعزیز رحمانی (سکریٹری جمعیت علماء شہرمالیگاٶں) حافظ رمضان اشاعتی خلیل ایم ایم مدنی شیخ صابر محمد سالم موجود تھے
مالیگاٶں[احتشام انصاری] آج یکم مٸ دوپہر کے قریب بارہ بجے دارالعلوم غوثِ اعظم کے بانی،مہتمم اور ناظمِ اعلیٰ نیز خلیفہ حضور انوارالمشاٸخ حضرت الحاج حافظ و قاری ساجد حسین اشرفیؒ وصال فرما گیۓ۔بتایا جاتا ہے کہ آپ اپنے بھانجے کا نکاح پڑھا رہے تھے اس کے فوری بعد اچانک طبیعت خراب ہوٸی احباب و متعلقین انہیں فوری طور پر مکان واقع راجہ نگر لاۓ جہاں آپ نےاپنی آخری سانسیں لیں اور جان جانِ آفریں کے سپرد فرما دی۔آپ کے وصال کی خبر آگ کی طرح راجہ نگر، خوش آمد پورہ،بیل باغ اور اطراف کے علاقوں میں پھیل گٸ۔ اس کے کچھ دیر بعد سوشل میڈیا کے ذریعے پورے شہر کو اس روح فرسا خبر سے واقفیت حاصل ہوٸی۔
حضرت اشرف الحفاظ ساجد حسین اشرفیؒ انتہاٸی سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے۔آپ کا سنہ پیداٸش 1969 عیسوی بتایا گیا اس کے مطابق 53 برس کی عمر آپ نے پاٸی۔ دیکھا جاۓ تو یہ عمر کم محسوس ہوتی ہے لیکن اس نصف صدی کی حیات میں حضرت خلیفہ انوارالمشاٸخ نے ایسے علمی اور دینی کارہاۓ نمایاں انجام دیۓ جو ایک طویل عمر پانے کے باوجود سر انجام نہیں دے پاتا۔
حضرت حافظ صاحبؒ کی ولادت اشرفیہ چوک خوش آمد پورہ سے ملحقہ علاقے راجہ نگر نزد اشرفیہ لاٸبریری کے ایک غریب لیکن محنت کش خانوادے میں ہوٸی۔ والدِمحترم فقیر محمد صاحب ایک طویل عرصے تک پاور لوم مزدور رہے اس کے بعد میت کے پکارے کی خدمات انجام دیتے رہے۔حضرت حافظ صاحب اپنے تین بھاٸیوں سے چھوٹے تھے لیکن اللہ رب العزت نےحفظِ قرآنِ کریم کی نعمتِ بے بہا سے سرفراز کر کے آپ کے مقام و مرتبہ کو بلند و بالا فرمادیا۔آپ نے ابتداٸی تعليم سے لے کر حفظِ قرآن تک دار العلوم اہلِسنت اشرفیہ سے مکمل کیا۔اولین قرآنِ مجید آپ نے کاسودہ ضلع جلگاٶں کی مسجد میں نمازِ تراویح کے دوران سنایا اس کے بعد ناسک کے کچھ علاقوں میں بھی یہی سعادت حاصل کی۔حافظ صاحبؒ قارٸِ خوش الحان بھی تھے تلاوت فرماتے تو طبیعت ایک روحانی کیفیت سے سرشار ہو جاتی۔غالباً آپ نےمسجد خانقاہِ اشرفیہ کے خطیب و امام کا منصب 1986 میں سنبھالا۔اور یہ عظیم فریضہ 2022 تک انجام دیا۔ اسی دوران 1997 میں آپ کو حضور انوارالمشاٸخ کی خلافت سے سرفرازی بھی حاصل ہوٸی۔ابتدا میں دار العلوم اہلسنت اشرفیہ میں ہی حفظ و تجوید کی تدریس فرماتے رہےاس کے بعد 1999 میں دارالقرآن راجہ نگر کی بنیاد ڈالی جو محض تین برس کی قلیل مدت میں ہی دارالعلوم غوثِ اعظم مالدہ کی شکل میں قاٸم ہو گیا اس درسگاہ کو حافظ صاحبؒ نے اپنے خونِ جگر سے سینچا۔انتہاٸی بے سروسامانی کے عالم میں محض چند طلبا کے ساتھ اس کا آغاز تو ضرور ہوا لیکن بتدریج ترقی کرتے کرتے آج یہ دارالعلوم اپنی پرشکوہ عمارت میں تقریباً ایک ہزار طلبا طالبات علمِ دینِ حنیف سے آراستہ و پیراستہ ہو رہے ہیں۔اس عمارت میں ہی طالبات کا جامعہ امِ حبیبہ بھی ہیے۔ اس سے متصل مسجد زیتون حجن بھی ہے جس کے چیف ٹرسٹی بھی حضرت حافظ صاحبؒ ہی تھے۔ حالانکہ تحریر کرنے میں یہ چند سطریں ہیں لیکن آپ جب دارالعلوم غوث اعظم کی عمارت کو دیکھیں گے تو یقین کرنا مشکل ہو جاۓ گا کہ اپنے قیام کے وقت یہ علاقہ یکسر غیر آباد علاقہ رہا ہو گا لیکن بہرحال نصرتِ الٰہی کے سبب حضرت حافظ محترم نے صحرا کو لہلہاتے گلشن میں تبدیل کرنے میں کامیاب و کامران رہے۔اس کے علاوہ مسجد انوارالمشاٸخ گیارہ ہزار کالونی و دیگر مساجد اہلسنت کا قیام نیز طریقت کے میدان کے بھی آپ شہسوار ثابت ہوۓ۔آپ کے عقیدت مندوں کی کثیر تعداد ناسک سنگمنیر ایولہ دھولیہ اور خاندیش کے علاقوں میں موجود ہے۔
آج محض باون برس کی عمر میں ربِ کریم نے حضرت اشرف الحفاظؒ کو اپنی جوار رحمت میں بلالیا۔انسانی فطرت کے مطابق ہم یہ خواہش ضرور کرتے ہیں کہ موصوف ومرحوم ہمارے درميان مزید رہتے لیکن حضرت کا وقتِ موعود آچکا اللہ کی جانب لوٹ کر جانا اٹل ہے۔آپ کے پسماندگان میں دو برادران اکبر مختار احمد اور سلیم احمد نیز اہلیہ محترمہ،دو دختران اور فرزندان قاری عبیدالرحمٰن انجینٸراور حفیظ الرحمٰن شامل ہیں۔آج سینکڑوں عقیدت مندوں احباب و متعلقین کی موجودگی میں حضرت اشرف الحفاظؒ کو بڑے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔مسلمانانِ اہلسنت عموماً اور خصوصاً ملتِ اسلامیہ آپ کے وصال پر مغموم و رنجور ہے۔