جس طرح کسی انسانی کی کامیابی کے لیے وقت کی پابندی ضروری ہے بالکل اسی طرح کسی تقریب کی کامیابی کے لیے وقت کی غیر پابندی ضروری ہے۔تقریب جتنی تاخیر سے شروع ہوگی تقریب اتنی کا میاب ہوگی۔اگر ہم وقت مقررہ پر کسی تقریب میں پہنچ جائیں تووہاں موت کا سناٹہ ہوتا ہے۔ تقریب ہال پروگرام کے خاتمے کا اعلان کر رہا ہوتا ہے۔جلسہ گاہ کھچا کھچ خالی نظر آتی ہے۔تقریب شروع ہونے میں تاخیر ہو یا صدر اور مہمانوں کے آنے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بلکہ مرزا غالب نے خاص اسی موقع کے لیے شعر کہہ دیا ہے کہ ’’ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا‘‘ ۔ یہ شعر سامعین کے گوش گذار کردیں سامعین ایک بناوٹی مسکراہٹ کے ساتھ تقریب کی تاخیر کا عذاب جھیلنے کے لیے ہمہ تن تیار ہوجاتے ہیں۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک ہوتا ہے جسے سامعین نہات عقیدت سے سنتے ہیں کہ یہی اللہ کے کلام کا تقاضہ ہے۔اس کے بعد حمد و نعت کے نذرانے پیش کئے جاتے ہیں،اسے بھی سامعین نہات احترام سے سنتے ہیں۔
اب باری آتی صدر کے انتخاب کی۔ناظم تقریب صدر کے انتخاب کے لیے تحریک پیش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ایک شخص حاضر ہو تا ہے اور’’ جس طرح کسی کارواں کا چلانے کے لیے میر کارواں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔والاآفاقی جملہ جسے سامعین کی اکثریت کو حفظ ہوتا ہےکہہ کرشہر کی سب اہم شخصیت کا نام نامی اسم گرامی پیش کرکے اپنے تائید خواہ کوآواز دیتا ہے جو پہلے سے ہی اس صدائے دل نواز پر لببیک کہنے کے لیے ہمہ تن منتظر ہوتا ہے۔پھر صدر تقریب کے اسم گرامی کی تائید کے لیے دوسرا شخص حاضر ہوتا ہےاور صدر کے لیے پیش
کئے گئے نام نامی اسم گرامی کی اپنی جانب سے اور بعض مرتبہ سامعین کی اجازت کے بغیر ان کی جانب سے بھی تائید کرتا ہےجسے سامعین بخوشی اور بعض مرتبہ ایک احساس نا خوش گواری کے ساتھ قبول کر کے تالیاں بجاتے ہیں۔یوں صدر تقریب کے انتخاب کی رسم ادا ہوتی ہے۔اب صدر تقریب مسند صدارت پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ناظم تقریب صدر سے تقریب آگے بڑھانے کی اجا زت طلب کرتا ہے۔صدر تقریب بخوشی گردن کی ایک ہلکی سی جنبش سےاجازت مرحمت فرماتے ہیں۔صدر سے اجازت لینا اور صدر کا اجازت دینا رسماً ہوتا ہے۔اگر صدر اجازت نہ دے تو۔۔۔۔۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔صدر کا اجازت دینا مسند صدارت کےساتھ مشروط ہوتا ہے ۔ تقریب کے صدر اور ہندوستان کے صدر کے مابین یہی قدرمشترک ہے ۔
اب تعارف اور گل پیشی کی صبر آزما رسم شروع ہوتی ہے۔یہ تعارف سے زیادہ تعریف کی رسم بن گئی ہے۔ناظم تقریب پھر کسی شخص کو آواز دیتا ہے جو اس صدا پر فوراً احاضر ہونے کے لیے بے چین و بے تاب ہوتا ہے۔ایک شخص حاضر ہوکرصدر اور مہمانوں کا تعارف پیش کرتا ہے جس سے تما م لوگ پہلے سے ہی باخبر ہوتے ہیں۔اس رسم میں صدر اور مہمانوں کے تعارف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے جاتے ہیں۔صدراور مہمانوں کو سماج کی تعلیمی،ادبی ،سماجی سیاسی، اور نہ جانےکون کون سی شخصیت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔فن دروغ گوئی کا بھر پور استعمال کرکےصدر اور مہمانوں کادل موہ لیا جاتا ہے اور سامعین ایک ہلکی سی مصنوعی مسکراہٹ اور تالیوں سےاس زہر کے پیالے کو نوش کرتے ہیں۔اس طرح خدا خدا کر کے یہ پہاڑ جیسی رسم پوری ہوتی ہے۔
لیجئے اب تقریب کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کے لیے ناظم کسی شخص کو مدعو کرتا ہے۔ایک شخص مائیک پر نمودار ہوتا ہےاور تقریب کے معلوم مقاصد سامعین کے گوش گذار کرتے ہوئے اپنی تقریری صلاحیت کا سکہ سامعین کے دلوں پر بٹھا دیتا ہے۔اور سامعین کے صبر کا امتحان بھی لے لیتا ہے جس میں بے چارے سامعین کا کامیاب ہونا لازمی ہوتا ہے۔
اب تاثرات کا صبر آزما اور کبھی کبھی جان لیوا دور شروع ہوتا ہے۔ناظم ضروری اور غیر ضروری اشعار اور بلا وجہ کے تبصروں کے ساتھ’’ تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں ‘‘ کی مصداق یکے بعد دیگرے اپنی زنبیل سے اشعار نکال نکال کرمقررین کی نظر کرتا ہے ۔ ہر مقرر وقت کی نزاکت کی دھجیاں اڑاتے ہوئےسامعین کے ضبط کا پیمانہ لبریز کردیتا ہے۔ بعض گفتار کے غازی مقرر سامعین کو مختلف مسائل کے حل ،نتائج،اور پند و نصیحت کا پٹارہ کھول دیتے ہیں حالاں کہ اس کی سب زیادہ ضرورت انہیں خود ہوتی ہے۔اس دوران سامعین تالیاں بجا کر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔یہ تالیاں ہمیشہ تعریفی نہیں ہوتیں کبھی کبھی احتجاجاً بھی بجائی جاتی ہیں جس کا مقررین پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔بعض ڈھیٹ قسم کے مقرر اسے اپنی تعریف سمجھتے ہیں۔ ہر مقرر کے آنے سے پہلےڈھیروں اشعارسنانااورہر مقرر کے جانے کے بعد مقرر کی لمبی چوڑی تقریر کا خلاصہ پیش کرنا اور اس پر تبصرہ پیش کرنا ناظم کا پیدائشی حق ہوتا ہے جس کااستعمال وہ نہایت ڈھیٹ پن سے تا دمِ اختتام ِ تقریب کرتا ہے۔اخیر میں صدر تقریب کو دعوت تقریر دی جاتی ہے۔صدر اپنی خود ساختہ سادگی اور بزرگی کو دھیان میں رکھتے ہوئے مختصراً اظہار خیال کرتا ہے بلکہ کر پاتا ہے کیوں کہ پیش رو فاضل مقررین اس کاقیمتی وقت ضائع کر چکے ہوتے ہیں۔صدر کی تقریر کے بعد رسم شکریہ ادا کی جاتی ہے جس میں سامعین،مہمانوں اور صدر کے قیمتی وقت کے ضیائع کا ذکر ضرورہوتا۔صدر کی اجازت سے( جسے دینا لازمی ہوتا ہے) تقریب کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا ہے۔
اس طرح تاخیر سے شروع ہونے والی تقریب از حد تاخیر سے ،کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے۔