جہاں پاکستان میں محمود غزنوی کی حیثیت ایک مثالی حکمران اور فاتح ہند کی ہے وہیں انڈیا میں بہت سے متشدد گروہ محمود غزنوی کو اسلامی استعمار اور مسلمان حکمرانوں کی بربریت کا ایک استعارہ سمجھتے ہیں اور ان کو برصغیر میں ہندو تہذیب کی بربادی کا ایک بڑا سبب گردانتے ہیں۔
اگرچہ محمود غزنوی کا ہندوستان پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا اور نہ ہی سومنات کا مندر واحد تھا کہ جس کو کسی حکمران نے توڑا تھا۔ نہ ہی مسلمان وہ واحد حمکران طبقہ تھے جنھوں نے ہندوؤں کے مندر کو اس طرح نشانہ بنایا تھا۔
جیسا کہ رچرڈ ایٹن نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا ہے مندروں کو نشانہ بنانے کے کئی واقعات تاریخ کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔ خود ہندو حکمران جہاں مندروں کی تعمیر میں حصہ لیتے تھے وہیں وہ اپنے مخالف حکمرانوں کے مندروں کو نشانہ بھی بناتے تھے۔ خاص کر ان مندروں کو جو مقامی حکمرانوں کی سرپرستی میں چلتے تھے اور ان کی سیاسی طاقت کا مرکز سمجھے جاتے تھے۔
حملہ آور ہندو حکمران ایسے مندروں میں موجود مرکزی مورتی کو یا تو توڑ دیتے تھے یا اس کو جنگ میں فتح کی نشانی کے طور پر اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔
محمود غزنوی سومنات پر حملہ کرنے سے پہلے تھانیسر، ماتھورا اور اس طرح کے کئی دیگر علاقوں پر حملہ کر چکے تھے اور وہ اس خطے میں قائم ہندو شاہی سلسلے کا خاتمہ بھی کر چکے تھے۔
اسی طرح وہ ملتان میں قائم شدہ اسماعیلی حکومت کے ساتھ لڑائی کر کے ان کی حکمرانی کا خاتمہ بھی کر چکے تھے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محمود غزنوی نے اپنے حملوں میں جہاں ہندوؤں کے علاقوں اور مندروں کو نشانہ بنایا وہیں پر انھوں نے اسماعیلی مسلمان حکمرانوں اور علاقوں کو بھی تخت و تاراج کیا۔
برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے اولین نقوش
محمود غزنوی کا حملہ برصغیر پاک و ہند میں مسلمان تاریخ کے ابتدائی نقوش میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
حالانکہ محمود غزنوی سے بہت پہلے ہی مسلمانوں کا برصغیر کے علاقوں کے ساتھ ایک تعلق بن چکا تھا۔ ان میں معروف نام کے طور پر ہم محمد بن قاسم کو جانتے ہیں جس نے سندھ پر سنہ 712 میں حملہ کیا اور اسی وجہ سے سندھ کو ’باب الاسلام‘ بھی کہا جاتا ہے۔
محمود غزنوی کے علاوہ شہاب الدین غوری ایک اوراہم نام ہے جس نے دہلی میں مسلمان حکومت کی مرکزیت کو مستحکم کیا جس کے بعد مسلمان سلاطین کا ایک سلسلہ برصغیر پاک و ہند میں شروع ہوا۔
لیکن اس سیاسی و جنگجوانہ تاریخ کے علاوہ بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کی ایک تاریخ موجود ہے۔
قاضی اطہر مبارک پوری نے اپنی متعدد کتابوں میں اس تاریخ کا ذکر کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق عرب اور ہندوستان کے درمیان تعلقات عہد رسالت میں ہی قائم ہو گئے تھے۔ آنے والے ادوار میں، خاص طور پر اموی دورِ حکومت میں، ان سیاسی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوا۔
مسلمان تاجر تجارت کی غرض سے برصغیر پاک و ہند کے ساحلی علاقوں کا رُخ کرتے تھے اور جب اسلامی سلطنت کی حدود ایران تک پہنچیں تو وہاں سے لامحالہ ان کا رابطہ ہندوستان کے لوگوں اور ان کی ثقافت سے بھی ہوا۔
اس سیاسی اور تجارتی تاریخ کے علاوہ ایک ’اساطیری تاریخ‘ کا حوالہ دینا بھی ضروری ہے۔ جہاں مسلمان بطور ایک سیاسی یا حملہ آور گروہ کے ہندوستان میں داخل ہوئے وہیں پر ایک متبادل تاریخی بیانیہ بھی موجود ہے جس کے مطابق مسلمانوں کا اس سرزمین کے ساتھ رشتہ انتہائی گہرا ہے۔
اس کی ایک مثال حسینی براہمن کی کہانی کے ذریعے سے دی جا سکتی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کربلا کے میدان میں جب امام حسین اپنے ساتھیوں کے ساتھ یزیدی فوجوں کے ساتھ لڑ رہے تھے اور جب اس واقعے کی اطلاع کسی طرح سے ہندوستان میں پہنچی تھی تو یہاں سے برہمنوں کا ایک گروہ امام حسین کی تائید و نصرت کے لیے کربلا پہنچا تھا۔
اس گروہ سے وابستہ لوگ خود کو حسینی براہمن کہتے ہیں اور اس شناخت کے حامل لوگ آج بھی ہندوستان میں موجود ہیں۔ اس کی مثال بالی وڈ اداکار سنیل دت اور سنجے دت کا خاندان ہے۔ دت خاندان خود کو حسینی براہمن کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔
اسی طرح ہندوستان کے ساتھ مسلمانوں کا قدیمی رشتہ ثابت کرنے کے لیے مولانا حسین احمد مدنی، جو ایک کانگریسی رہنما تھے اور جمعیت علمائے ہند کے سربراہ تھے، نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ چونکہ آدم اور حوا کو جنت سے نکالے جانے کے بعد زمین پر اتارا گیا تو ان کا ملاپ لنکا کے علاقے میں ہوا۔ اس بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کو آباد کرنے والے آدم اور حوا تھے جو اسلامی عقیدے کے مطابق مسلمان تھے۔