مہاراشٹر کے سیاسی ہنگامے کی حقیقت
مئی 01, 2023
صوبۂ مہاراشٹر میں سیاسی صورتِ حال دھماکہ خیز ہے ۔ دھماکہ خیز اِن معنوں میں کہ وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے اور نائب وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس کے درمیان دوریاں بڑھنے ، اور اجیت پوار اور فڈنویس کے درمیان دوریاں گھٹنے کی اطلاعات ہیں ۔ اسے آسان لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ، بی جے پی اور شندھے کی شیوسینا کے درمیان اختلافات ابھر آئے ہیں ، اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ( این سی پی ) اور بی جے پی کے درمیان قربتیں بڑھی ہیں ۔ اس خبر کا سیدھا مطلب یہ ہے ، کہ ریاست میں موجودہ حکومت ، جسے شندھے حکومت کہا جاتا ہے ، ’ خطرے ‘ میں آ گئی ہے ۔ سابق وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے دستِ راست ایم پی سنجئے راؤت کی مانیں تو ، بیس دن میں یہ سرکار گر جائے گی ۔ کہا جاتا ہے کہ بی جے پی نے شندھے سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ ان پر پورے نہیں اترے ہیں ، اس لیے اب بی جے پی انھیں اُس کرسی سے ، جس کے لیے انھوں نے ادھو ٹھاکرے سے بغاوت کی تھی ، ’ اُتارنے ‘ کی تیاری میں ہے ۔ لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے ، بی جے پی کو اب یہ خوب اندازہ ہو گیا ہے کہ ، مہاراشٹر کے ووٹر فڈنویس اور شندھے کے گٹھ جوڑ کو ووٹ نہیں دیں گے ، کیونکہ شندھے کی بغاوت اور شیو سینا میں ’ پھوٹ ‘ کے سبب زیادہ تر لوگوں کی ہمدردیاں ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہیں ، اور شندھے ایک ناپسندیدہ سیاست داں بن کر رہ گیے ہیں ۔ دوسری جانب شیوسینا میں ’ پھوٹ ‘ کے لیے لوگ فڈنویس کو ذمہ دار مان رہے ہیں ، اس لیے اگر انھوں نے جلد ہی شندھے کا ساتھ نہیں چھوڑا تو بی جے پی کے لیے ، جس کی ساکھ ویسے ہی ریاست میں بڑی تیزی کے ساتھ گھٹی ہے ، پریشانیاں لاینحل ہو جائیں گی ۔ سچ تو یہ ہے کہ شندھے اور فڈنویس نے جو ساجھے کی ہنڈیا پکائی تھی وہ بیچ چوراہے پر پھوٹنے کے قریب ہے ، اور اس کے پھوٹنے سے یوں تو نقصان دونوں کا ہوگا ، لیکن فڈنویس سے کہیں زیادہ شندھے نقصان میں رہیں گے ، اور شندھے کے ساتھ شیوسینا کے جو ارکانِ اسمبلی گیے ہیں ، وہ ایک طرح سے بیچ منجدھار میں آ جائیں گے ، انھیں بی جے پی سر پر نہیں بٹھائے گی ، کیونکہ وہ اُن کے نخرے سہنے کی حیثیت میں اب نہیں ہے ۔ شندھے کے لیے مصیبتیں بڑھیں گی ، اور وہ ایک طرح سے ایک بےحیثیت سیاست دااں بن کر رہ جائیں گے ۔ لیکن یہ سیاست ہے ، کچھ بھی ہو سکتا ہے ، ممکن ہے کہ شندھے اور فڈنویس کا ساتھ برقرار رہے ، اور بی جے پی شندھے کو ، ادھو ٹھاکرے کو کمزور کرنے کے لیے مزید استعمال کرے ۔ آئندہ کے کچھ دنوں میں صورتِ حال مزید صاف ہو جائے گی ۔ اس سارے سیاسی ہنگامہ میں اجیت پوار کا کردار اہم ہے ، وہ پہلے بھی بی جے پی کے ساتھ جا چکے اور اپنے سارے ’ گناہ ‘ دھلوا چکے ہیں ، وہ باقی کے ’ گناہ ‘ دھلوانے کے لیے پھر بی جے پی کا ستھ دے سکتے ہیں ، اور پھر واپس این سی پی میں آ سکتے ہیں ۔ اجیت پوار نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ( این سی پی ) کے سربراہ شرد پوار کے ، جو ایک گھاگ سیاست داں ہیں ، بھتیجے ہیں ، اس لیے اجیت پوار کی فڈنویس سے قربت کو سیاسی حلقوں میں دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے ۔ اور ایسا مانا جا رہا ہے کہ شندھے کو اگر سپریم کورٹ سے جھٹکا لگا اور ان کے ساتھ شیو سینا کے جو ارکان اسمبلی آئے ہیں ، وہ نااہل قرار دیے گیے ، تو این سی پی آگے بڑھ کر بی جے پی کو سہارا دے سکتی ہے ، اور اس کے لیے اجیت پوار کو ریاست کا وزیراعلیٰ بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ’ مہاوکاس اگھاڑی ‘ کو دھچکا پہنچ سکتا ہے ۔ لیکن کیا ایسا ہوگا ؟ اگر شرد پوار کی مانیں تو ’ مہا وکاس اگھاڑی ‘ کو کوئی خطرہ نہیں ہے ، اور این سی پی کسی بھی صورت میں اس گٹھ جوڑ سے الگ نہیں ہو رہی ہے ۔ شرد پوار نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ’ مہا وکاس اگھاڑی متحد ہے اور ہم ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے ۔‘ شردپوار ، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ایک گھاگ سیاست داں ہیں ، وہ بی جے پی کو مغالطے میں رکھ کر اسے شندھے کی شیوسینا سے علیحدہ کروا سکتے ہیں ، شاید اسی لیے وہ اجیت پوار کو ایک چارہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ، اور اگر اجیت پوار چارہ نہیں ہیں ، واقعی وہ وزیراعلی بننا چاہتے ہیں ، تب بھی شردپوار اور مہا وکاس اگھاڑی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔ اگر بی جے پی اور شیوسینا میں علیحدگی ہوئی تو مان لیں کہ آنے والے الیکشن میں فائدے میں مہاوکاس اگھاڑی ہی رہے گی ۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی کے ساتھ جا کر شردپوار کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ، وہاں وہ نہ مودی سے آگے جا سکتے ہیں ، اور نہ ہی امیت شاہ سے آگے ، مہا وکاس اگھاڑی میں ان کی حیثیت ایک بادشاہ گر کی رہے گی ۔ لہذا وہ لوگ ، جو یہ اٹکلیں لگا رہے ہیں کہ این سی پی جلد ہی بی جے پی کے ساتھ چلی جائے گی ، وہ سارے سیاسی منظرنامے پرغور کریں ، انھیں خوب اندازہ ہو جائے گا کہ شندھے کی نیّا ہر حال میں ڈوبنے والی ہے اور فڈنویس بھی منجدھار میں آنے والے ہیں ، فائدے میں ادھو اور شردپوار ہی رپہنے والے ہیں ۔
Tags