تعارف و تبصرہ : فرحان حنیف وارثی
رومانی اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ شاعری
گم شدہ خیالوں کے عکس
( شاعری)
آکولہ سے تعلق رکھنے والی جواں سال اور خوش فکر شاعرہ ہاجرہ نور زریاب کی شاعری میں رومانیت کاعنصر غالب ہے ۔اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے وہ پروین شاکر کی مداح ہیں ۔یوں تو پروین شاکر کی شاعری کو پسند کرنے والی اور بھی شاعرات ہیں ،مگر ہاجرہ کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی شاعری میں نسوانیت اور غنائیت پائی جاتی ہے اور ان کا لہجہ مترنم اور آسان ہے جس کے سبب ان کی شاعری سننے اور پڑھنے میں بھلی لگتی ہے ۔
یوں لگتاہے کہ جیسے وہ شاعر ی میں گفتگو کر رہی ہیں ۔وہ بھاری بھرکم الفاظ سے گریز کرتی ہیں ۔ ان کی لگ بھگ ہر غزل میں کوئی نہ کوئی شعر ایسا ضرور ملے گا جسے اچھے شعروں کی فہرست میں جگہ دی جا سکتی ہے۔وہ ان معنوں میں بھی خوش نصیب ثابت ہوئی ہیں کہ ان کے متعدد اشعار مشہور ہو چکے ہیں اور ان کی غزلوں کوگلوکار وں نےصدابند بھی کیاہے۔ان کی مقبولیت میں اخباروں اور ادبی جریدوں کے علاوہ سوشل میڈیا کا بھی بڑا ہاتھ ہے ۔وہ سوشل میڈیا پر بے حد فعال ہیں ۔ہندوستان اور پاکستان کے اخباروں اور ادبی رسالوں میں برابر چھپتی ہیں ۔کورونا دور میں جب آن لائن مشاعروں کا سلسلہ شروع ہوا تو انھیں زیادہ تر مشاعروں میں مدعو کیا گیا اور انھیں اس کا فائدہ یہ حاصل ہوا کہ عالمی سطح پر ان کی پہچان قائم ہوئی ۔
ہاجرہ کے پہلے شعری مجموعے کا عنوان ’ چاند کے زینے پر‘ تھا ۔اب ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’ گم شدہ خیالوں کے عکس ‘ منظر عام پر آیاہے ۔انھوں نے اس شعری مجموعے کے پیش لفظ ’ پہچان کی اور ‘ میں لکھا ہے :’ مجھے شاعری کی کلاسیکی روایات بھی عزیز ہیں اور میں جدید رجحانات اور عصری تقاضوں سے دانستہ اغماض کی بھی قائل نہیں ۔میں اپنے شاعرانہ مزاج میں دقت پسند بھی نہیں اور حد درجہ عامیانہ پن سے بھی گریزاں رہنا چاہتی ہوں ۔اپنی طویل ادبی مسافت کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے مجھے وقت کے ہمراہ بھی چلنا ہے اور اس کی نیرنگیوں سے بہت کچھ سیکھنا ہے ۔‘ زریاب کے یہاں سیکھنے کا عمل جاری ہے اور ان کی شاعری سنور رہی ہے ۔ہاجرہ کے اشعار ملاحظہ کریں:
زندگی بد سلوک شہزادی
ہو بھی سکتی ہے چوک شہزادی
پھر ستم ڈھا رہی ہے یاد اس کی
ہجر میں خون تھوک شہزادی
اوج پراپنے مقدر کا ستارہ ہے نا!
آنکھ سے دور ہے وہ پھر بھی ہمارا ہے نا!
کبھی دل سے کبھی آنکھوں سے لگانے کے لیے
تونے پیکر مرا کاغذ پہ اتارا ہے نا!
’ گم شدہ خیالوں کے عکس ‘ میں سرحد کے اِ س پار سے ابراہیم اشک ، شکیل جے پوری ، احسن امام احسن ، شکیل رشید اور عمران جمیل اور سرحد کے اُس پار سے حفیظ تبسم ، خالد دانش ، نقاش عابدی اور یاور اقبال کے تاثرات کو شامل کیا گیاہے ۔میں منتخب تاثرات کو یہاں پیش کرنا چاہوں گا تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ ان کی شاعری کس قدر ملتفت کرتی ہے ۔
ابراہیم اشک لکھتے ہیں :’ بہت کم وقت میں بہت زیادہ ابھرنے اور اپنی تخلیقی صلاحیت کو منوانے کا کام اس شاعرہ نے انجام دیا ہے ، تو میں کہہ سکتا ہوں کے علم و ادب کی دنیا میں ان کی آب و تاب اور بڑھے گی۔اتنا ہی نہیں علم وادب کو یہ خوب فروغ بھی دیں گی ۔‘ شکیل جے پوری کے مطابق :’ موجودہ شعرو ادب کے جہان میں ہاجرہ نور زریاب کو قابل رشک مقبولیت حاصل ہوئی ہے ، جو ان کو شاعرات میں نمایا ں کرتی ہے۔مختلف زبانوں پہ مہارت رکھنے کے باعث ان کی شاعرانہ نیرنگیاں جلوہ بار ہوتی رہتی ہیں ۔‘
احسن امام احسن نے ہاجرہ کی شعری بصیرت اور انداز ِبیاں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے :’ہاجرہ کی غزلوں میں روایت کی پاسداری کے ساتھ عصری مسائل کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ان کی شاعری سے ان کے لطیف جذبات و احساسات کا علم بھی ہوتا ہے۔‘روزنامہ ’ ممبئی اردو نیوز ‘ کے مدیر اور عالمی ادب پر گہری نظر رکھنے والے مبصر شکیل رشید لکھتے ہیں:’ہاجرہ نور زریاب کی شعری کائنات کا بنیادی موتیف عشق ہے۔ان کی شاعری میں رومان اور عشق کا تقریباً ہر رنگ نظر آتا ہے۔امید ، تمنا اور تڑپ کے ساتھ غم، الم ، تنہائی ، جفا اور کبھی کبھی مایوسی بھی ۔لیکن شاعرہ خود پر مایوسی کو حاوی ہونے نہیں دیتی ۔‘مالیگاؤں کے نوجوان افسانہ نگار عمران جمیل نے لکھا ہے :’ آپ کی شاعری میں بے حد نغمگی بھرا جلترنگ سا احساس ہے ۔مضامین کا تنوع ہے۔پامال موضوعات بھی آپ سے منسلک ہوکر ایک منفرد اچھوتا تاثر پیداکر دیتے ہیں۔شاعری میں لفظی ساختیات کمال کی ہیں ۔‘
پاکستان کے اہم شاعر اور فکشن نگار حفیظ تبسم نے کچھ اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کیاہے :’زریاب کی شاعری میں جوانی اپنی مکمل رعنائیوں کےساتھ ملتی ہے ، با لکل جیسے انگریز ی شاعر شیلے، کیٹس اور بائرن کے ہاں رومانس اپنی پوری لطافت اورنفاست کے ساتھ ملتا ہے ۔وہ شعرکو خوشبو کی طرح اپنے اندر سموتی ہے اور بڑی آسانی سے قاری کے دل کو مسحور کر لیتی ہے، بعض جگہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری وجد آفریں ہے۔
‘ خالد دانش کے مطابق ؛’ ہاجرہ کی شاعری میں عجب وفا،سادگی اور خلوص ہے ۔یہ ان کے جذبوں کی صداقت ہی تو ہے کہ جب وہ شعر کہتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھاتی ہیں تو قاری ان کے سنگ سنگ چلتا ہے۔‘نقاش عابدی لکھتے ہیں :’ زریاب اپنی غزل میں زبان و بیان کا بے حد خیال رکھتی ہیں اور الفاظ کے دروبست کا سلیقہ شعاری اور ہنر مندی سے اہتمام کرتی ہیں ۔ جس کے سبب ان کی غزل رومانی تو ہے ، روایتی نہیں بلکہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔زریاب کی شاعری داخلی اور خارجی ہر دو کائنات کی تصویرکشی پر مبنی حسن وصداقت کی دل آویز پیش کش ہے ۔‘
یاور اقبال نے زریاب کی شاعری کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ؛’عہد حاضر کے جدّت پسند اقداروں کو آداب ِ سخن کی قبا پہنا کر پیش کرنے میں جن شاعرات کا ریختہ پر احسان ہے ان میں ایک نام ہاجرہ نور زریاب کا بھی ہے۔وہ نذاکت اور احساس کا سادہ مگر گہرے الفاظ میں بہ زبانِ سخن اظہار کرنے والی شاعرہ ہیں۔ان کے جذبوں میں خلوص ، صداقت کی تلاش اور اس کے حصول کے تبادلے میں وفا کی مستحکم ادا موجود ہے ۔ان کے تخیل نے نسوانیت کو ایک نیا دل آویز رخ دیا ہےجس میں حسن کی پذیرائی کا پُر مسرت مطالبہ بھی ہے اور اظہارِ تشکر بھی ۔‘مجھے زریاب کے جو اشعار بہت پسند آئے ، ان میں کچھ اشعار میں یہاں پیش کرنا چاہوں گا :
وہ رہا میرے خیالات میں آتا جاتا
اور میں خاموش سوالات کی دہلیز پہ تھی
مجھ میں آنے لگی تری خوشبو
معتبر اب ہوا ہے عشق مرا
افسوس کہ مظلوم ہی ثابت ہوئے مجرم
دیکھا ہے بہت عدل کی زنجیر ہلا کر
ہوش وحواس چھین لیے پل میں اور مجھے
اس کی بس اک نگاہ نے کافر بنا دیا
تو کہ خود کو بدل نہیں پایا
تیری خاطر بدل رہی ہوں میں
ہاجرہ نے ’ پہچان کی اور ‘ میں یہ بھی لکھا ہے :’ میں اپنی تخلیقی ذمے داریوں میں کہاں تک کامیاب ہوں اور میرا اظہار کس قدر بھرپور یا ہنوز غیر مکمل ہے،یہ سوچنا نہ میرا کام ہے اور نہ ہی مجھے اس کی ضرورت ہے ۔اس کا بہترین فیصلہ وقت اور تاریخ کے اختیار میں ہے ۔میرا مقصد تو تند وتیز آندھیوں میں چراغ جلانا اور صحرائے بے آب و گیا ہ میں نخل سایہ دار کے بیج بونا ہے۔‘شاعرہ نے تند وتیز آندھیوں میں جو چراغ جلایا ہے ، وہ دیر تک روشن رہے گا ، مجھے اس کا یقین ہے ۔مجھے یہ بھی تیقن ہے کہ انھوں نے صحرائے بے آب و گیا میں نخل سایہ دار کاجو بیج بویاہے وہ ایک گھنے درخت کی شکل اختیار کرے گا ۔ہاجرہ مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انھوں نے گمشدہ خیالوں کے عکس کونہ صرف پا لیاہے ، بلکہ اسے اپنی شاعری میں بڑے سلیقے سے سمویابھی ہے ۔شاعرہ نے اپنے اس مجموعےکو اپنے بیٹوں صہیب اشبل اور یحییٰ صائم سےمنسوب کیاہے۔
ہاجرہ نور زریاب کے اس شعری مجموعہ کا بیک پیج اظہار ندیم نے لکھا ہے جو عرشیہ پبلی کیشنز ( نئی دہلی ) کے مالک اور ایک اچھے رائٹر ہیں ۔عرشیہ پبلی کیشنز ( نئی دہلی )اور کتاب دار پبلی کیشنز ( ممبئی )کے اشتراک سے یہ شعری مجموعہ شائع ہواہے ۔طباعت عمدہ ہے ۔لے آؤٹ ڈیزائن اور پیج سیٹنگ کتاب دار پبلی کیشنز کے روح رواں شاداب رشید نے کی ہے ۔سرِ ورق بہت شانداراور دیدہ زیب ہے اور اسے التمش رشید نے بنایاہے۔’ گم شدہ خیالوں کے عکس ‘ 136؍صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت 200؍ روپے ہے ۔مکتبہ جامعہ اور کتاب دار سے اس مجموعے کو حاصل کیا جا سکتا ہے ۔مکتبہ جامعہ کاموبائل نمبر9082835669اور کتاب دار کا موبائل نمبر9869321477ہے
افسانچہ ایونٹ
افسانچہ نمبر 17
بینر ۔۔۔۔ زارا رضوان
عنوان: آٹھ پہرا روزہ
تحریر : اقراء یونس
وہ کب سے اپنی بلی کو کچھ کھلانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ تھی کہ کچھ کھا ہی نہیں رہی تھی یہاں تک کہ اس کے پسندیدہ بسکٹ بھی اس کے سامنے کیے لیکن اس نے انہیں نظر اٹھا کے دیکھا تک نہیں ۔ وہ پریشانی میں اپنی دادی کے پاس بھاگا کیونکہ وہ اس کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھیں ۔
"اماں دیکھیں نا یہ بلو کچھ کھا ہی نہیں رہی ۔ "
اب کے پریشانی ،دکھ اور غصہ آواز میں نمایاں تھا
اماں نے گہرا سانس لیا اور بولیں :
" پتر نہ کھلا اس کو وہ کچھ نہیں کھائے گی۔"
"کیوں نہیں کھائے گی ؟ اس کی پسند کے بسکٹ لایا ہوں۔"
"پتر روزے میں پسند کی چیز بھی سامنے ہو نا تب بھی کھائی نہیں جاتی نہ کھلا میرا بچہ اس کا روزہ ہے اٹھ پہرا روزہ ۔ "
"اماں آپ بھی کمال کرتی ہیں بھلا جانوروں کا روزہ کیسے ہو سکتا ہے وہ بھی اٹھ پہرا۔ "
"ہوتا ہے میرا بچہ ہر جاندار کا روزہ ہوتا ہے۔ "
۔۔۔۔۔۔۔
ندی میں گرنے والے پتھر سے پوری ندی میں ہلچل نہیں ہوتی پتھر کے قریب ترین پہلا بھنور سب سے نمایاں ہوتا ہے جوں جوں فاصلہ بڑھتا ہے کمزور لہروں کی شکل اختیار کر لیتا ہے
"بابا آئس کریم "
وہ آفس سے آیا تو اس کے بیٹے حرم نے آتے ہی فرمائش کر ڈالی
" نہیں بیٹا بابا ابھی تھکے ہوئے آئے ہیں ۔" صالحہ نے بڑے پیار سے کہا
اس نے بڑی آس سے بابا کو دیکھا اور منہ بنا کے صالحہ کی طرف سے منہ پھیر لیا اس کا مطلب تھا وہ اب ناراض ہے اور بات نہیں کرے گا اس کی اس معصوم ادا پہ دونوں ایک دم ہنس پڑے
"چلو بھئی چلتے ہیں۔"
"ارے آپ ابھی تھکے آئے ہیں۔"
"پھر کیا ہوا اب میں اپنے بیٹے کو ناراض کر دوں کیا؟"
اور وہ خوشی سے اپنے ننھے ہاتھوں سے تالیاں بجانے لگا۔
آئس کریم پارلر سے جب وہ باہر نکلے تو تابش کا دوست علی اور اس کی بیوی انہیں دیکھ کر رک گئے۔ سلام دعا کے بعد وہ ان سے گھر آنے کو کہنے لگے۔ وہ لوگ باتوں میں مصروف تھے جب حرم کو سڑک کنارے بلی کا بچہ نظر آیا۔
وہ سڑک پہ اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا جب سامنے سے آتی گاڑی نے فورا بریک لگائی۔ گاڑی کے ٹائروں کی چرچراہٹ سے وہ چاروں چونکے۔
تابش نے سڑک پہ دیکھا تو ایک دم اس طرف بھاگا ۔
حرم بے ہوش ہو چکا تھا۔
بلی کا بچہ جسے اس نے پکڑ لیا تھا اب سڑک پہ گرا ہوا تھا اور چلنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن چلنا مشکل ہو رہا تھا ۔
اس نے جلدی سے حرم کو اٹھایا اور علی سے کہا کہ وہ بلی کے بچے کو اٹھا لے۔ اسے بہت حیرت ہوئی کہ ایسی صورتحال میں بھی اسے چھوٹے بلونگڑے کی فکر ہے ۔
ہسپتال پہنچنے تک صالحہ کا رو رو کر برا حال ہو چکا تھا ۔
ڈاکٹر نے فورا اس کو چیک کیا اور کہا :
"زخموں پہ ہم نے پٹی کر دی ہے سر پہ چوٹ لگنے سے بچہ بے ہوش ہو گیا ہے دعا کریں اگلے چوبیس گھنٹے تک اسے ہوش آ جائے ورنہ کچھ کہا نہیں جا سکتا "
یہ سن کر صالحہ کو لگا اس کی ٹانگوں میں جان ہی نہ رہی ہو۔ اس سے پہلے کہ وہ گرتی تابش نے اسے سہارا دے کے بٹھایا اور سمجھانے لگا :
"صالحہ یہ وقت دعا کا ہے ایسے ہمت ہارو گی تو دعا کیسے کرو گی دعا کرو اللہ کرے اسے ہوش آ جائے ۔"
اس نے ایک نظر تابش کو دیکھا اور اٹھ کر ایمرجنسی روم کی طرف بھاگی
ہر سیکنڈ بھاری تھا۔۔۔۔۔۔کہاں چوبیس گھنٹے
چھ گھنٹے گزر چکے تھے رات ہو گئی تو اس نے علی سے کہا کہ وہ اب گھر چلا جائے ۔
اس سارے وقت میں صالحہ نہ تو آرام سے بیٹھی تھی نہ اس نے کچھ کھایا تھا۔ تابش جانتا تھا اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا اس لیے اس کی پسندیدہ بریانی لے آیا ۔
مشکل سے اسے بٹھا کر ایک چمچ اس کی طرف بڑھایا ۔
" کھا لو اور دعا کرو ایسے کرنے سے تو تم خود بیمار ہو جاو گی صبح بھی تم نے کچھ نہیں کھایا تھا اور شام کو۔۔۔۔۔۔"
"میں نہیں کھا سکتی۔"
"کوشش تو کرو تھوڑا سا ہی کھا لو ۔"
نہیں ۔۔۔۔۔
"میرا بچہ ٹھیک تو ہو جائے گا نا ؟
اسے ہوش آ جائے گا نا ؟
اگر اسے کچھ ہو گیا تو ؟"
"اسے کچھ نہیں ہو گا تم بس دعا کرو ۔"
کچھ سوچتے ہوئے تابش نے اصرار نہیں کیا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔
"صالحہ میں کچھ دیر تک آتا ہوں کوئی بھی بات ہو مجھے فون کر لینا۔"
فون کان سے لگا کر اس نے بلی کے بچے کا پوچھا تو شدید حیرت کے ساتھ علی نے بتایا کہ وہ اب ٹھیک ہے ۔
"میں اسے لینے آ رہا ہوں "
حرم کیسا ہے اب ؟
"اللہ پاک بہتر کرے گا دعا کرو اسے ہوش آ جائے ۔"
اس کے جواب سے دوسری طرف حیرت کی شدت میں مزید اضافہ ہوا۔
اسے لگا تابش کے دماغ پر اثر ہوا ہے جو رات کے بارہ بجے بلی کا بچہ لینے آ رہا تھا ۔
بچہ پکڑاتے ہوئے اس نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا :
"تم ٹھیک ہو ؟"
ہاں ٹھیک ہوں ۔ کہہ کر وہ عجلت میں نکل گیا
راستے سے اس نے بلو کے پسندیدہ بسکٹ لیے جو وہ تب سے چھوڑ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔
"تو اماں اس کی افطاری کب ہو گی؟ "
"پتر غم کا اگر دوسرا نام ہوتا تو اٹھ پہرا روزہ ہوتا اس کی افطاری خوشی کی خبر کا گھوگھو بولنے پر ہوتی ہے کب بولے گا اللہ جانتا ہے۔ "
۔۔۔۔۔
بسکٹ کھولتے تابش کا فون تھرتھرایا۔
صالحہ کا نمبر دیکھ کر وہ مسکرایا ۔
" بلو اب نہ صرف خود بسکٹ کھا رہی تھی بلکہ بلونگڑے کو بھی کھلا رہی تھی۔"
غزل
🔴منتظمِ عاصی مالیگاؤں
حسّاسِ دل طلوعِ اساسِ الم رہا
طائر عمارِ روحِ رواں آمدم رہا
دارالامکاں سے عالمِ اسرارِ لا مکاں
اصلاحِ عم سلامِ درودِ حرم رہا
طاہورِ حدِّ حور و ملک راہِ سالمہ
عالم کراں سَرارِ رُعادہ عدم رہا
معدوم حصار وا کُرَۂِ آسماں سَرا
اسلام سر علیٰ دمِ لہرا عَلَم رہا
محلول روحِ عادِ کلاں لم سلام کا
وعدہ امامِ عالی کا احرامِ دم رہا
مہموسہ لوحِ لام دِرَم ماہِ ماہ لا
احرامِ سلسلہ رگِ اکرامِ سَم رہا
عاصی علومِ عار عَرا عودِ عاملہ
مل کر ملولِ دل مہِ امدادِ ہم رہا
منتظمِ عاصی مالیگاؤں
ایک غزل احباب کی نذر
غزل
گاؤں جیسی نہ تھی سادگی شہر میں
میں بھٹکتا رہا اجنبی شہر میں
گاؤں آتے ہی مجھکو سکوں مل گیا
کتنی بے چین تھی زندگی شہر میں
کھا رہا ہوں میں دھوکے پہ دھوکہ مگر
زندگی کاٹنی ہے اسی شہر میں
بلڈنگیں اونچی اونچی امیروں کی ہیں
کھل کے آتی نہیں روشنی شہر میں
شوروغل ہے مشینوں کا چاروں طرف
کررہے ہیں مگر شاعری شہر میں
تھی سفارش نہ تو رشوتیں میرے پاس
کیسی ملتی بھلا نوکری شہر میں
گاؤں سے آئے ہیں آپ لُٹ جائیں گے
سوچ کر کیجئے دوستی شہر میں
اپنے سائے سے بھی بچ کے رہنا یہاں
لوگ کرنے لگے مخبری شہر میں
اک تبسم کی خاطر ترس جاؤ گے
گاؤں سے تم نہ آنا کبھی شہر میں
ٹوٹ پڑتی ہے مجھ پہ قیامت ندیم
یاد آتے ہیں وہ جب کبھی شہر میں
عرفان ندیم مالیگاؤں