قسط اول
از قلم: محمد شہزاد جامعی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر
عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا
30/اپریل بروز اتوار صبح کی بات ہے ، عاجز نماز فجر پڑھانے کے لئے جیسے ہی مسجد عائشہ کے گیٹ میں داخل ہوا ، ایک مصلی تیز قدموں سے میری طرف ہانپتے کانپتے آئے ،اور لڑکھڑاتی زبان سے کہنے لگے ، مولانا عبد اللطیف صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، یہ سن کر یقین نہ آیا ،مگر جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا اسی طرح کی آوازیں کان سے ٹکرائیں، جس سے شک یقین میں بدل گیا ، اس حادثہ سے مسجد میں ایک سناٹا سا محسوس ہورہا تھا ، نماز فجر سے قبل مولانا کا چہرہ بار بار سامنے آرہا تھا ، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ، کم از کم نماز کی ادائیگی تک کیسے صبر کروں ، خیر نماز فجر مکمل ہوئی ، نماز کے بعد عموما ہمارے محلے میں انتقال کرجانے والے کا اعلان ہوتا ہے ،مگر میرے لیے یہ حادثہ ایسا تھا کہ اعلان کی بھی ہمت نہ ہوسکی ، میں نے تسبیح مکمل کرنے بعد دعاؤں کے لیے ہاتھ اٹھالیا ،جن مقتدیوں کو مولانا کے انتقال کی خبر تھی وہ سب مجھے دیکھنے لگیں ، کہ امام صاحب اعلان کیوں نہیں کررہے ہیں، جیسے ہی میں نے مقتدیوں کے منشأ کا لحاظ کرتے ہوئے ، یہ افسوس بھری اطلاع دی ، کہ مولانا عبد اللطیف صاحب اشاعتی ہمارے درمیان نہ رہیں ، تو کچھ لوگ آبدیدہ تو کچھ غم کے مارے پریشانی کی کیفیت کا اظہار کرنے لگیں ، مجھ سے رہا نہ گیا ، اعلان کے بعد میں اور کچھ احباب فوراً مولانا کے گھر (جو کہ مسجد عائشہ سے بالکل متصل ہے ) کی طرف چل پڑیں ، میں جیسے ہی مسجد سے باہر نکلا ، ویسے ہی مولانا کے چھوٹے بھائی ،برادرم فاروق سلمہ میرے گلے پکڑکر رونے لگے ، اتنا روۓ کہ روتے روتے ہچکیاں بندھ گئی، اب میرے لیے بھی آنسوؤں کا سنبھالنا مشکل ہوگیا ، بھائی فاروق کو سمجھا کر آگے ہی بڑھا تھا کہ ، مولانا کی دو معصوم بچیاں جوکہ عاجز کی شاگردہ ہیں ، امسال ہی رمضان المبارک میں قرآن کریم کی تکمیل کی سعادت حاصل کرکے اپنے والدین کو خوش کیا تھا ، میرے سامنے آگئیں جیسے ہی میری نظر ان پر پڑی وہ دونوں روتی ہوئی تیز قدموں کے ساتھ میرے سامنے سے گذرگئیں، اور گویا کہ وہ کہہ رہی تھیں کہ ، استاذ جی ، آپ نے ایک جون کو رزلٹ لینے کے لیے ابو کو بلایا تھا نا ، ہم نے ابو سے کہا تھا ، انہوں نے آنے کا وعدہ کیا تھا، اور یہ بھی کہا تھا کہ ،جون میں تمہارا سالانہ جلسہ بھی ہونے والا ہے ، جس میں تمہیں انعام وسند دی جائے گی ، رزلٹ اچھا رہا تو انعام بھی اچھا ملے گا ، ابو ایسا کہہ رہے تھے، کہ اگر تمہارے اچھے نمبرات آۓ تو میں بھی تمہیں انعام دوں گا ،اب ابو تو کچھ بولتے ہی نہیں ، گھر میں ابو کو دیکھ کر سب رورہے ہیں ، اور ایسا رورہے کہ ہمارے ابو کہیں دور چلے گئے ہو، اور امی ،چاچو ،پھوپھی ، سب کہہ رہے ہیں،کہ ابو ہمیں چھوڑ کر چلے گیے،استاذجی ہمارےابو رات میں اچھے تھے ، کل ہی ہمیں قرآن کی تلاوت کا پابند بنایا تھا، کل ہی تو بات ہے ، ہمارے ساتھ کھانا بھی کھایا تھا، اور اس وقت وہ روزانہ مسجد میں ہوتے تھے ،آج پتہ نہیں سب چیخ چیخ بھی نماز فجر کے لیے اٹھارے ہیں، مگر ابو اٹھنے کا نام نہیں لیتے ، استاذ جی ایک مرتبہ آپ آواز دیکر دیکھونا،شاید آپ کی آواز پر اٹھ جائیں ، ان بچیوں کو کیا پتہ تھا کہ اب ابو ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ، اب دار فانی سے دار بقا کوچ کر کے ان پچوں سمیت سبھی کو داغ مفارقت دے گئے، خیر میں پھر آگے بڑھا اور مولانا کے قریب گیا ، تو وہ شعر ذہن کی اسکرین پر آگیا،
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی۔
جاری ۔۔۔۔۔۔
بھراڑی مقصود شیخ