خاتون پہلوان ، وہ تمغے ، جو وہ بیرون ممالک سے جیت کر آئی تھیں ، گنگا ندی میں وسرجن کرنے کے فیصلے پر پانچ روز کے لیے عمل نہ کرنے پر راضی ہو گئی ہیں ۔ وہ تمغوں کو وسرجن کرنے کے لیے ہری دوار پہنچ گئی تھیں ، ساکشی ملک ، ونیش پھوگاٹ کے ساتھ بجرنگ پونیا ، اور دیگر پہلوان بھی تھے ، لیکن کسان لیڈر نریش ٹکیت نے ، پانچ روز کی شرط پر انہیں تمغوں کے وسرجن سے روک دیا ہے۔ پہلوانوں نے ، گنگا ندی میں تمغے پھینکنے کا فیصلہ ، احتجاج کے طور پر کیا تھا ! سوال ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا تھا ؟ کیوں ، ان تمغوں کو ، جو وہ بڑی محنت سے جیت کر لائی تھیں ، وہ گنگا ندی میں بہا دینا چاہتی تھیں ؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے ؛ اس لیے کہ یہ تمغے اب اِن خواتین پہلوانوں کے لیے فخر کی نہیں ، شرمندگی کی نشانی بن گئے ہیں ۔ اِن تمغوں کے حصول کے لیے انہوں نے محنت تو خوب کی تھی ، لیکن محنت کے بدلے میں ان کی عزت اور آبرو داؤ پر لگ گئی تھی ۔ یہ کئی مہینوں سے چیخ چیخ کر یہ الزام لگا رہی ہیں کہ ، کشتی مہا سنگھ کے صدر ، بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ، برج بھوشن شرن سنگھ نے خاتون پہلوانوں کا جنسی استحصال کیا ہے ، لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے ، لیکن کوئی ان کی پکار سننے والا نہیں ہے ، نہ حکومت ، نہ عدلیہ اور نہ ہی عام ہندوستانی ۔ اپنے ہی ملک کے لوگوں سے انہیں وہ حمایت نہیں مل سکی ہے ، جو انہیں ملنا چاہیے تھی ۔ چند لوگوں کی حمایت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ۔ کسان تنظمیں ان کی حمایت میں ضرور سامنے آئی ہیں ، لیکن یہ صرف کسانوں کا ہی معا ملہ نہیں ہے ، جن خاتون پہلوانوں کو ملک کی بیٹیاں کہا گیا تھا ، ان کی عزت اور آبرو پر آنچ سارے ملک کا معاملہ ہے ۔ لیکن ایک رکن پارلیمنٹ کی عزت کو خاتون پہلوانوں کی عزت پر فوقیت دے دی گئی ہے ۔ وہ حکومت جو نعرہ لگاتی ہے ’ بیٹی پڑھاؤ ، بیٹی بچاؤ ‘ اسے شاید بیٹیوں کو بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ، کیونکہ اس نے اب تک شکایت کرنے والی خاتون پہلوانوں پر توجہ دینا تک گوارہ نہیں کیا ہے ۔ یہ سوال بار بار اٹھ رہا ہے کہ ، کیوں مرکز کی مودی سرکار برج بھوشن شرن سنگھ کو بچانے پر تُلی ہوئی ہے ؟ جان لیں کہ برج بھوشن شرن سنگھ صرف ایک ایم پی نہیں ، باہوبلی بھی ہیں ، اور عام زبان میں باہو بلی کا مطلب غنڈہ ہوتا ہے ۔ قیصر گنج سے ایم پی برج بھوشن کا بی جے پی میں کیا مقام ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ داؤد ابراہیم جیسے ہندوستان کو مطلوب مافیا ڈان سے تعلقات کا الزام بھی ان پر اثرانداز نہیں ہوسکا ہے ۔ وہ ۱۹۹۱ ء سے لگاتار الیکشن جیتتے چلے آ رہے ہیں اور ان کی پکڑ اپنے علاقے میں ایسی سخت ہے کہ ، بی جے پی آنے والے لوک سبھا الیکشن میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے لیے اُن پر منحصر ہے ، اسی لیے وہ برج بھوشن کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتی ہے ۔ یہ وہ برج بھوشن شرن سنگھ ہیں جو ایودھیا تحریک میں پیش پیش تھے اور وی ایچ پی کے ایک لیڈر اشوک سنگھل کے منظورِ نظر بھی ۔ ظاہر ہے کہ اِن پر ہاتھ ڈالنا ایک ’ ہندتوادی ‘ پر ہاتھ ڈالنا مانا جائے گا ، اور کہاں مودی حکومت کسی ’ ہندتوادی ‘ پر ہاتھ ڈال سکتی ہے ! یہ ’ نیا ہندوستان ‘ ہے ، جس کا اعلان پی ایم مودی نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقعہ پر کیا ہے ۔ اس ’ نئے ہندوستان ‘ کی شروعات ہی پہلوانوں کو جنترمنتر سے کھدیڑ کر ہوئی ہے ۔ پولیس نے اِن پہلوانوں پر باقاعدہ مقدمات درج کر لیے ہیں ، ممکنہ طور پر ان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے ۔ انہیں اب جنتر منتر پر احتجاج سے روک دیا گیا ہے ، پولیس نے اس تعلق سے باقاعدہ حکمنامہ جاری کیا ہے۔ پہلوانوں نے یہ اعلان کیا تو ہے کہ ان کااحتجاج جاری رہے گا ، اور اگر جنتر منتر پر دھرنا نہیں دینے دیا گیا تو انڈیا گیٹ پر دھرنا دیا جائے گا ۔ لیکن کیا پہلوانوں کے لیے یہ ممکن ہوگا ؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ انتظامیہ اور پولیس نے یہ ٹھان لیا ہے کہ اب انہیں دھرنا دینے نہیں دیا جائے گا ۔ اور انتظامیہ اس طرح کا فیصلہ اپنی مرضی سے نہیں حکومت کی مرضی سے کرتی ہے ، مطلب یہ کہ حکومت نے یہ ٹھان لیا ہےکہ اب پہلوانوں کو مزید احتجاج کرنے نہیں دیا جا سکتا ۔ ایک جانب حکومت برج بھوشن کو بچانے کے لیے ہر ممکن سعی کر رہی ہے ، دوسری جانب ، پہلوانوں کی حمایت میں ،کسانوں نے یہ اعلان کیا ہے یکم جون سے اس وقت تک ملک گیر احتجاج کیا جائے گا ، جب تک کہ برج بھوشن کی گرفتاری نہیں ہو جاتی ۔ لیکن کیا کسانوں کا یہ احتجاج کامیاب ہوسکے گا ؟ اس بار معاملہ کسانوں کی روزی روٹی کا نہیں ہے ، لہٰذا کیا تمام کسان پہلوان بیٹیوں کی حمایت میں احتجاج میں شامل ہونے کو راضی ہو جائیں گے ؟ کئی سوال ہیں جن کے جواب آنے والے دنوں میں ملیں گے ، لیکن اس سوال کا کہ ، کیا یہ حکومت واقعی جمہوری قدروں کی محافظ ہے ، جیسا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب میں اعلان کیا گیا ہے ، جواب مل گیا ہے ۔ حکومت صرف لفظ جمہوریت کا استعمال کرتی ہے ، اس لفظ کے حقیقی معنوں پر عمل کرنا نہیں چاہتی ۔ اگر یہ سچ نہیں ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر پہلوان خواتین کی شکایتوں کا ازالہ کرے ۔
پہلوان خواتین کی شکایتوں کا ازالہ کیا ممکن ہے ؟ شکیل رشید ( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
مئی 30, 2023
دنیا بھرمیں ملک کا سر فخر سے بلند کرنے والی