سعید حمید
ممبئی :راجہ شیواجی کی انسانیت نواز اور سیکولر شخصیت کو مسخ کرنے، ان کی ’سرودھرم سمبھاؤ‘کی پالیسی کی پردہ پوشی کرنے اور انہیں ایک کٹّر پنتھی فرقہ پرست ہندوتواوادی ’راجہ‘ بناکر پیش کرنے میں ہندوتواوادی مورخین نے گھناؤنا رول ادا کیا ہے۔ راجہ شیواجی کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ انھوں نے فوجی مہمات کے دران قرآن کریم اور خواتین کی عزت و تعظیم کی سخت تاکید فوجیوں کو دے رکھی تھی۔
خواتین کی تعظیم وتکریم کے متعلق ایک واقعہ مشہو رہے۔شیواجی کی فوج نے کلیان پر حملہ کیا اور وہاں کے ’بادشاہ‘ کا مال غنیمت لے کر راجہ شیواجی کی فوج واپس لوٹی۔ اس فوج کالیڈر ایک مراٹھا سردار آباجی سونڈیو تھا۔ اس نے شیوجی کچھ احکامات کے برخلاف کلیان کے مسلم نواب کی ایک خوبصورت بہو کو بھی گرفتار کرلیا۔ اس نے سوچا کہ مال غنیمت کے ساتھ وہ کلیان کے مسلم نواب کی انتہائی حسین و جمیل بہو کوراجہ شیواجی کی خدمت میں پیش کرکے انھیں خوش کرے گا۔ لیکن جب کلیان کے نواب کی اس مسلم بہو کو راجہ شیواجی کے سامنے پیش کیا گیا، تب راجہ شیواجی نے اس حرتک پر سخت ناراضگی ظاہر کی۔ اور انھوں نے حکم دیا کہ اس شریف خاتون کو انتہائی احترام کے ساتھ اور مکمل حفاظت سے واپس اس کے خاندان والوں کو لوٹا دیا جائے۔ راجہ شیواجی نے خواتین کی غزت اور احترام کی جو پالیسی بنائی اس پر خود بھی عمل کیا اور اپنی فوجوں کو بھی سختی سے عمل کی تلقین کی کلیان کے مسلم نواب کی بہو کا واقعہ ایک زرّیں مثال ہے۔ مسلم خواتین کی عزت و حفاظت کی تلقین سے جہاں راجہ شیواجی کا تاریخ میں وقار بلند ہوتا ہے۔ وہیں ہندوتوا وادیوں کو اس رویے سے اگر تکلیف ہوتی ہے، تو یہ بات ازخود ثاتب ہوجاتی ہے کہ ’سرودھرم سمبھاؤ‘ میں یقین رکھنے والی راجہ شیواجی اور مسلمانوں سے ازلی دشمنی رکھنے والے ہندوتوا وادیوں کے درمیان کوئی مشترک ذہنیت واقع نہیں ہے۔ بلکہ اپنے شرانگیز منصوبوں کے لیے ہندوتوا وادیوں نے ’راجہ شیواجی‘ کی حقیقی تاریخ کو خلط ملط کرکے فرضی داستانیں گڑھی ہیں اور ’راجہ شیواجی‘ کو کٹّر ہندوتو وادی راجہ، ایک فرقہ پرست اور مسلم دشمن راجہ ثابت کرنے کی گھناؤنی حرکت کی ہے۔
جنگوں کے دوران مسلم خواتین کا احترام یک جو پالیسی راجہ شیواجی نے بنائی تھی، اس سے تکلیف کس کو ہوتی؟ کس نے اس پالیسی پر تنقید کی؟ اس سوال کا جواب ہی شرپسندوں نے چہروں کو بے نقاب کردیتا ہے۔ ’ہندوتوا‘ کے نظریے کے بانی ونائیک داسودا ساورکر نے مسلم خواتین کی عزت و عصمت کے احترام اور تحفظ کی پالیسی پر راجہ شیواجی پر سخت تنقید اور نکتہ چینی کی ہے۔ اور اس مکروہ و گھناؤنے نظریے کا اظہار کیا کہ ہندو عورتوں کی عصمت کے تحفظ کے لیے ضروری تھا کہ راجہ شیواجی مسلم خواتین کی عصمت دری کی اجازت دیتے۔ اس طرح کی اخلاق سوز پالیسی اور گھناؤنے اصولوں پر آج ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کا دورانِ عمل کیا جاتا ہے۔ گجرات فساد ۲۰۰۲ء میں گلبرگ سوسائٹی قتل عام، بلقیس بانو عصمت دری کیس اور دیگر کئی مجرمانہ کیسوں میں مسلم خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور قتل کی جو بھیانک وارداتیں ہوئیں، ان کے بارے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ یہ ساورکر کے نظریات پر عمل کا اظہار ہے، ہندوتوا کی لیبارٹری کہلائی جانے والی گجرات ریاست میں ہندوتوا وادی دہشت گردوں نے ساورکر کے نظریات پر جس طرح عمل کیا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ راجہ شیواجی کے نظریات اور ساورکر کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس لیے ’راجہ شیواجی‘ کو ہندوتو وادی قرار دینا ،تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ گجرات فساد کے دوران مسلم خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ جس طرح کھلے عام اجتماعی عصمت دری اور قتل عام کی وارداتیں ہوئیں۔ راجہ شیواجی کے دور حکومت میں اس طرح وارداتوں کے مجرمین کو سخت سے سخت سزا دی جاتی۔ راجہ شیواجی نے مسلم خواتین سمیت تمام عورتوں کی عزت و عصمت کی حفاظت و تحفظ کے جو اصول بنائے، اس کے مدِّ نظر ’راجہ شیواجی‘ کے راج میں ایسے واقعات ممکن ہی نہیں تھے، جو ’ہندوتوا‘ کے نام پر گجرات میں ہوئے۔
’راجہ شیواجی‘ کی اس پالیسی پر ’ہندوتواواد‘ کے نظریے کے بانی وی ڈی ساورکر نے اس لیے تنقید کی ہے کہ ’راجہ شیواجی‘ کی ’سرودھرم سمبھاؤ‘ کی پالیسی اور ’ہندوتوا‘ کی پالیسی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ونائیک دامودر ساورکر کی آپ بیتی لکھنے والے مورخ دھنّجئے کیسر نے اپنی کتاب میں ساورکر کی راجہ شیواجی کی پالیسی پر کی جانے والی تنقید کے بارے میں لکھا:
’’ساورکر نے اپنی اس رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ راجہ شیواجی نے مسلم خواتین کے بارے میں اپنی آزاد (اور فراخ دلانہ) پالیسی اپنا کر غلطی کی ، کیونکہ اس طرح کا مہذب اور انسانی برتاؤ ان (مسلمانوں) انتہا پسندوں میں ہندو عورتوں کے متعلق ایسے ہی خیالات ابھار نہیں سکے گا۔ انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے تھا۔ ساورکر واضح طور پر مشاہدہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے ہی وہ (مسلمان) ان مظالم کی دہشت کا احساس کرسکتے تھے۔‘ ‘ (کتاب ویر ساورکر، مصنف دھنجئے کیسر، ۱۹۶۶ء صفحہ ۵۶۹)۔
ہندوتوا واد کے فاشسٹ خیالات راجہ شیواجی کے سیکولر اور انسانیت نواز نظریات سے قطعی میل نہیں کھاتے ہیں، اس کا ثبوت ’ہندوتوواد‘ کے بانی ساورکر نے ’راجہ شیواجی‘ کی بنیادی پالیسی پر تنقید کرکے ازخود حسب بالا دے دیا۔
ہندوتوا کے نظریات ، شیواجی مہاراج کی پالیسی کی خلاف ورزی :
’ہندوتووادی نظریے‘ کے فروغ کے لیے تاریخ کو ہتھیار بنانے اور ایک سیکولر ، انصاف پسند راجہ شیواجی کو مذہبی جنونی اور کٹّر انتہا پسند ہندوتواوادی راجہ بناکر پیش کرنے کی جستجو میں افضل خان اور راجہ شیواجی کی معرکہ آرائی کو بھی نمک مرچ لگا کر پیش کیا جاتا ہے۔ افضل خان اور راجہ شیواجی کی لڑائی کو بھی ہندو مسلم عینک لگا کر دیکھنے والے تاریخ سے انصاف نہیں کرتے ہیں۔
جب عادل شاہی سردار افضل خان راجہ شیواجی سے ملاقات کے لیے رائے گڑھ آیا تو اس کے مشتبہ ارادوں کے بارے میں ’ راجہ شیواجی‘ کو سب سے پہلے ان کے انٹلی جنس چیف اور باڈی گارڈ رستم زماں نے ہی خبردار کیا تھا، جو کہ ایک مسلمان تھا۔ اور راجہ شیواجی کے دربار کا ایک اہم عہدیدار تھا۔ افضل خان کا خاص معتمد کلکرنی ایک برہمن تھا۔ انصاف پسند وغیر جانبدار مصنفین یہ بتاتے ہیں کہ افضل خان، راجہ شیواجی ملاقات کے دوران راجہ شیواجی پر تلوار سے حلہ کسی اور نے نہیں بلکہ سردار افضل خان کے برہمن معتمد کرشنا بھاسکر کلکرنی نے کیا تھا۔ راجہ شیواجی کو اگر ان کے فوجی کیرئیر میں تلوار کا کوئی زخم لگا تو وہ افضل خان کے معتمد اور سکریٹری کرشنا بھاسکر کلکرنی کی تلوار کے حملے کا زخم تھا۔ راجہ شیواجی کے ہاتھوں افضل خان کے قتل کو ’ہندوتووادی‘ عناصر آج بھی ’ہندو مسلم جنگ‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس واقعے کو ’ہندومسلم فساد‘ کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ اس واقعہ کی بنا پر معتمد و فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں۔ جبکہ راجہ شیواجی اور افضل خان کی جنگ کسی طور پر ہندو مسلم جنگ یا فرقہ وارانہ معرکہ آرائی نہیں تھی۔
مغل بادشاہ اورنگ زیب اور راجہ شیواجی کی مقابلہ آرائی کو بھی ہندو مسلم مقابلہ آرائی کا رنگ دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی دو بادشاہوں کی مقابلہ آرائی تھی۔ راجہ شیواجی کی فوج میں تیس فیصد مسلمان افسران و سپاہی تھے۔ جبکہ راج شیواجی کی افواج کا مقابلہ اکثر و بیشتر مغل افواج کے راجپوت ہندو سرداروں نے کیا۔ مغل شہنشاہ راجہ جسونت سنگھ نے راجہ شیواجی کے مقابلے اکثر معرکوں میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب کی فوج کی قیادت سنبھالی اور ان کی فوج میں بے شمار راجپوت ہندو فوجی افسران و سپاہی شامل تھے۔
راجہ شیواجی نے مغل حکومت سے مقابلہ آرائی میں کبھی مغل شہنشاہ اورنگ زیب سے میدانِ جنگ میں راست جنگ نہیں کی۔ اکثر وبیشتر میدانِ جنگ میں ان کا مقابلہ مغل افواج کے راجپوت ہندو کمانڈروں سے ہوا۔ اس کے باوجود ہندستان کی پُرامن اور سیکولر تاریخ کو داغ دار بنانے اور تاریخ کے صفحات پر مسلم دشمنی کا زہر بھرنے والے ہندوتواوادی عناصر راجہ شیواجی کو ہی نہیں بلکہ راجپوت ہندو راجاؤں اور سپہ سالاروں کو بھی کٹّر ہندوتواوادی، مسلم دشمن اور انتہا پسند ہندو بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ تاریخی حقائق سے کھلواڑ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ راجہ شیواجی
جیسے سیکولر حکمراں ہندوتوا وادی فاشسٹ نظریے کے علامت ہرگز نہیں بن سکتے۔
شیواجی مہاراج کی شخصیت کو کیوں ہائی جیک کیا گیا ؟
ہندوتواوادی مورخین نے اپنے ’مسلم دشمن‘ نظریات کو تقویت بخشنے کے لیے تاریخ کے ساتھ جابجا کھلواڑ کیا اور راجہ شیواجی کو مسلم دشمن راجہ بناکر پیش کرنے کی
کوشش کی، یہاں تک کہ راجہ شیواجی کی سالگرہ یا یوم پیدائش پر شیو جینتی کے تہوار کو بھی ہائی جیک کرکے اسے مسلم دشمن تہوار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن تاریخ میں ورق ورق پر ایسے ناقابل تردید حقائق اور ثبوت دستیاب ہیں، جو ہندوتواوادیوں کے فرصی اور من گھڑت قصّے کہانیوں کو بہ حسن و خوبی غلط قرار دیتے ہیں۔
مسلم صوفیائے کرام و بزرگان دین سے عقیدت
راجہ شیواجی، خود ہی نہیں بلکہ ان کے آبا واجداد بھی مسلم صوفیائے کرام سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ جو خاندان مسلم صوفائیے کرام کا عقیدت مند رہا ہو وہ خاندان مسلمانوں کا دشمن ہو، ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ راجہ شیواجی کے دادا جو عادل شاہی حکومت کے سردار تھے، احمد نگر کے ایک بزرگ شاہ شریف جی کی درگاہ کے معتقد تھے۔ وہ اولادِ نرینہ سے محروم تھے اس لیے انھوں نے درگاہ حضرت شاہ شریف جی پر اولاد کے لیے منت مانگی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک نہیں ۲ بیٹے عطا کیے۔ اس لیے راجہ شیواجی کے دادا نے اپنے دونوں بیٹوں کے نام، اپنے پیرومرشد کے نام کی نسبت سے شاہ جی اور شریف جی رکھے۔ ورنہ ہندو خاندانوں میں شریف اور شاہ
جیسے نام رکھنے کی روایت بہت کم ملتی ہے۔ یہ ایک مسلم صوفی بزرگ سے والہانہ عقیدت تھی کہ راجہ شیواجی کے والد کا نام شاہ جی اور ان کے چچا کا نام شریف جی احمد نگر کے مسلم بزرگ صوفی پیر شاہ شریف جی سے منسوب ہے۔ جب راجہ شیواجی کے والد اور چچا کا نام ہی ایک مسلم صوفی بزرگ سے منسوب ہے تو پھر اس خاندان کو مسلم دشمن قرار دینے کی کوشش ’تاریخی ظلم‘ کے مترادف ہے۔
اپنے دادا، والد اور چچا کی طرح راجہ شیواجی بھی مسلم بزرگوں اور صوفیائے کرام سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ رتنا گیری کے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت بابا یعقوب سے انھیں بڑی عقیدت تھی۔ راجہ شیواجی نے اپنے سرکاری خزانے سے حضرت بابا یعقوب کو تاحیات پنشن مقرر کی تھی۔ ان کے وصال پر ان کی درگاہ اور اخراجات کے لیے راجہ شیواجی نے آس پاس کی ساڑھے سات سو ایکڑ زمین درگاہ کے نام وقف کردی۔ اپنے مذہب سے عقیدت رکھنے کے ساتھ راجہ شیواجی تمام مذاہب اور تمام مذہبی مذہبی کتابوں کی عزت کیا کرتے تھے، ان کا خاندان مسلم صوفیائے کرام اور درگاہوں کا معتقد تھا، یہ بات دستاویزات سے ثابت ہے۔ رتناگیری میں درگاہ حضرت بابا یعقوبؒ کی درگاہ کی ساڑھے سات سو ایکڑ زمین ’راجہ شیواجی‘ کی عطاکردہ وقف زمین ہے۔ یہ بات حال ہی میں سامنے آئی جب اس زمین کو غیر قانونی طور پر فروخت کرن کی کوشش کی گئی۔ اور راجہ شیواجی کے فرمان و احکامات اس زمین کے وقف کردہ ہونے میں ثبوت کے طور پر استعمال ہوئے۔ دراصل یہ دستاویزات ’راجہ شیواجی‘ کے سیکولر راجہ ہونے کا ثبوت ہیں اور اس پروپیگنڈہ کی نفی کا پختہ ثبوت ہیں کہ راجہ شیواجی ایک کٹّر ہندوتواوادی حکمراں تھے۔
وہ بھی ایک زمانہ تھا
۱۹۷۰ ء کی دہائی میں شیو جینتی کے قریب آتے آتے ممبی، تھانے،کلیان، بھیونڈی جیسے شہروں میں فرقہ وارانہ کشیدگی سے خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہوجاتا تھا۔ بطور اردو صحافی میں نے کشیدہ حالت کا متعدد مرتبہ قریب سے جائزہ لیا، بھیونڈی شہر میں شیوجینتی کے جلوس کے تنازع میں فرقہ وارانہ فساد بھی ہوا۔ شیوجینتی کی تقریبات اور شیو جینتی کے جلوس کے سبب متعلقہ علاقوں اور مہاراشٹر کے بیشتر اضلاع میں ہندو مسلم حریفائی کی صورتحال پیدا ہوجاتی تھی۔
کیوں ؟ اسلیے کہ تاریخ کی کتابوں میں شیواجی مہاراج، ارونگ زیب، افضل خان، شائستہ خان وغیرہ کو موضوع بناکر جو فرقہ وارانہ زہر بھردیا گیا، وہ اپنا کام کررہا تھا۔ رفتہ رفتہ تاریخی حقائق کے منظرِ عام پر آنے کے بعد آج شیو جینتی کے موقع پر تھانے، بھیونڈی، کلیان اور ممبئی میں وہ صورتحال باقی نہیں رہی۔ البتہ فرقہ پرست و مفاد پرست طاقتوں کی حرکتیں اور سازشیں جاری ہیں۔
کچھ برس قبل ایک ہورڈنگ بنائی گئی، اس میں شیواجی مہاراج کو افضل خان کا قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ، اس ہورڈنگ کو مغربی مہاراشٹر کے تاریخی شہر میرج میں گنیش چترتھی کے پنڈال کا گیٹ بنایا گیا اور پھر اسکے سبب مریج، سانگلی، اچل کرینجی میں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا۔ افضل خان اور شیواجی مہاراج کے مقابلہ کو آج ڈیجیٹل زمانے میں ہورڈنگ کے ذریعے ہندو مسلم جنگ کی علامت بناکر ہندو مسلم فساد بھڑکانے اور اپنے فرقہ پرست مفادات کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بات مذکورہ فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے ثابت ہوگئی۔
اس حوالے سے یہ سوالات پیدا ہوتےہیں، کہ کون سے وہ عناصر ہیں، جو ریاست اور ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ کو وقفہ وقفہ سے بھڑکائے رکھنا چاہتے
ہیں؟ آخر ان کا مقصد کیا ہے؟ وہ شیواجی مہاراج کی سیکولر شخصیت کو ہندتواوادی اور مسلم دشمن بناکر کیوں پیش کررہے ہیں؟ آخر شیواجی مہاراج کی اورنگ زیب، افضل خان، شائستہ خان وغیرہ سے جنگوں کا سچ کیا ہے؟
ان سوالوں کے جواب مراٹھا مورخین نے دئیے ہیں اور انہوں نے فرقہ پرستوں کو بے نقاب کیا ۔ ایسے بہادر مورخین میں کامریڈ گوند پنسارے بھی شامل ہیں جنہوں نے ـ’’ شیواجی کون ہوتا ـ‘ ‘ یہ کتاب لکھ کر تاریخ کا سچ سامنے لایا اور ان کی بے باکی سے بوکھلا کر دہشت گردوں نے ان کا قتل کردیا ، لیکن بندوق کی گولی سے قلم کی طاقت کو جھکایا نہیں جاسکتا ، یہ سچ ہے ، اس لئے تاریخ سے کھلواڑ کی حرکتوں کا مقابلہ ضروری ہے ۔
افسانہ
ایک تھا بجو کا
طاہر انجم صدیقی ( مالیگاؤں،
٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر بن خادم امریکی ورلڈٹریڈ سینٹر چھوڑنے کے دوسرے دن اپنے ملک کے ایئر پورٹ سے گاؤں پہنچ چکے تھے ۔ ان کی اے سی کار حویلی کی جانب جانے والے کچے راستے پر آہستگی سے رینگ رہی تھی اور وہ سفید رنگ کا پٹھانی سوٹ پہنے ، سر پر سفید عمامہ باندھے ، اپنے ڈرائیور کے ساتھ ہی بیٹھے اطراف کا جائزہ لے رہے تھے ۔ کچے راستے کے چھوٹے بڑے گڑھوں اور ابھرے پتھروں پر اچھلتی کودتی آہستہ روی سے آ گے بڑھتی کار کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ بھی ڈاکٹر بن خادم کی طرح اپنے گاؤں پہنچ کر بڑی شادو مسرور ہے اور اچھل کود سے اپنی مسرت کا اظہار کررہی ہے۔ کارکی کھڑکی سے اندر داخل ہونے والے ہوا کے جھونکے کھیتوں کی مٹی کی بھینی بھینی خوشبوؤں کے ساتھ کچی پکی فصلوں کی مہک بھی لئے چلے آرہے تھے اور ڈاکٹر بن خادم سے ٹکرا کر، ان کی گھنی داڑھی کے لمبے لمبے بالوں کو گدگداکر دوسری کھڑکی سے باہر نکلتے جارہے تھے ۔ وہ راستہ سیدھے ان کی حویلی پر ختم ہوتا تھا ۔ راستے کے دونوں طرف چھوٹے بڑے کھیتوں کا سلسلہ دور تک چلا گیا تھا ۔ ان میں سے کسی کھیت کی فصلیں کاٹی جاچکی تھیں تو کسی کی کاٹی جا رہی تھیں ۔ کہیں کھیتوں میں ہل جوتے جارہے تھے تو کہیں بیج بو یا جارہا تھا ۔ کسی کھیت میں سر اٹھانے والے پودوں پر دواؤں کا چھڑکاؤ کیا جا رہا تھا تو کسی کھیت میں تیار فصلیں کھڑی جھوم رہی تھیں ۔ جنہیں دیکھ کر ان کے ہو نٹوں پر ایک پرُسکون سی مسکراہٹ پھیل رہی تھی اور وہ اپنی اے سی کار میں بیٹھے اطراف پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے اپنی حویلی کی طرف بڑ ھتے چلے جا رہے تھے ۔ ان کا ڈرائیور بڑی آہستگی سے کار آگے بڑ ھا رہا تھا ۔
اچانک ہی ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ سکڑی، پیشانی پر بل پڑے اور وہ بے ساختہ بول پڑے.
’’گاڑی روکو ڈرائیور !گاڑی روکو۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
کار روک کر ڈرائیور نے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا.
’’وہ دیکھو۔۔۔بجوکا کھڑا ہے اس کھیت میں!‘‘
ڈرائیور نے ڈاکٹر بن خادم کی نظروں کا تعاقب کیا تواسے کھیت میں واقعی بجوکا کھڑا نظر آیا. بانس کی دو کھپچیوں پر پیلی پینٹ اور لال شرٹ اڑس کر سر کی جگہ اوندھی رکھی گئی مٹی کی ہانڈی ہر کالے رنگ سے آ نکھ ، منہ ، ناک اور کان بنا کر کھیت میں کھڑا کیا گیا وہ بجوکا واقعی کوئی انسان ہی دکھائی دے رہا تھا ۔ اس کے کپڑے ہوا کے تیز جھونکوں سے پھڑ پھڑارہے تھے اور کپڑوں کی یہ پھڑ پھراہٹ روکی گئی کار تک پہنچ رہی تھی جسے سن کر ڈرائیور نے کہا.
’’واقعی صاحب ! یہاں تو بجو کا کھڑا ہے !!۔۔۔۔۔حیرت ہے۔۔۔۔بجوکا اور وہ بھی آپ کے علاقے میں ؟۔۔۔۔۔بڑی حیرت کی بات ہے ۔۔۔ویسے یہ کھیت عیدو بھائی کا ہے ۔۔۔بلاؤں کیاانہیں ؟۔۔۔۔‘‘
’’ہاں!۔۔۔۔۔‘‘
ان کا جواب سن کر ڈرائیور نے کار کا انجن بند کیا اور دروازہ کھول کر قدم باہر نکالاہی تھا کہ کہہ اٹھا.
’’ارے! عیدو بھائی تو یہیں ہیں ۔۔۔او عیدو بھائی! ۔۔۔۔دیکھو ڈاکٹر صاحب تمہیں بلا رہے ہیں ۔۔۔۔‘‘
ڈرائیور کی آواز پر عیدو بھائی پانی کی نالی کی منڈیر درست کرتے کرتے اٹھ کھڑے ہوئے اور کار کی طرف لپکے ۔ کار کے قریب پہنچ کر کچھ کہنے کے لئے وہ منہ کھولنا ہی چاہتے تھے کی ڈاکٹر بن خادم انہیں گھورتے ہوئے بولے.
’’یہ تمہارے کھیت میں بجوکا کیوں کھڑاہے عیدو بھائی ؟۔۔۔۔۔کیا میں نے یہ زمین تمہیں اسی لئے دی ہے؟۔۔۔میں نے تمہیں زمین دیتے ہوئے اس گاؤں میں موجود کھیتی باڑی کا اصول بتا کر کہا نہیں تھا کہ تم بھی اپنے کھیت میں بجوکا نہیں لگاؤ گے ؟؟۔۔۔۔تم کو معلوم ہے نا کہ میں کھیتی باڑی کو زمین اور ہر طرح کی سہولت صرف اسی لئے دیتا ہوں کہ تم لوگ اپنا پیٹ بھر سکو ۔۔۔۔مگر صرف اپنا پیٹ بھرنے کیلئے چھوٹے چھوٹے معصوم پرندوں کو بھوکا رہنے پر مجبور مت کرو ۔‘‘
’’ہاں !ڈاکٹر ساب !۔۔۔۔اوکا ہے نا ۔۔۔۔ہمارا بٹوا ہے نا۔۔۔۔رمجو ۔۔۔دراسل واہی کہے را کی ۔۔۔۔‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتا ۔۔۔بس تم ابھی جاؤ اور بجوکا کو اپنے کھیت سے اکھاڑ پھینکو ۔۔۔۔اور سنو عیدو بھائی! اگر دوبارہ کھیت میں بجوکا دکھائی دیا تو میں نے تم کو کھیتی کیلئے جو زمین دی ہے اور جو بہت ساری سہولیات دیتا ہوں وہ سب چھین لوں گا سمجھے ۔۔۔۔ان بیچارے چھوٹے چھوٹے پرندوں کو بھی پیٹ ہوتا ہے ۔۔۔ان کو بھی بھوک لگتی ہے ۔۔۔۔۔ان کو بھی اپنی زندگی پیاری ہوتی ہے ۔۔۔۔اور وہ بھی خدا کی مخلوق ہیں اور خدا کی زمین کی پیداوار میں ان کا بھی حق ہوتا ہے ۔۔۔مگر ہم لوگ کھیتوں میں بجوکا کھڑاکر کے اپنے ذرا سے فائدے کے لئے ان معصوم جانوں کا حق چھین لیتے ہیں۔۔۔خبردار جو آئندہ ایسی غلطی کی تو۔۔۔۔جاؤ اور اکھاڑ پھینکو اسے ۔۔۔‘‘ ’’اچھا ساب!‘‘
اتنا کہہ کر عیدو بھائی اپنے کھیت کی طرف جا نے کیلئے مڑے تو ڈاکٹر بن خادم نے اپنی آنکھیں بھینچ لیں ۔ ان کی آنکھوں کے کناروں سے آ نسو ٹپک پڑے اور انہوں نے ایک سرد آ ہ بھر کر ڈرائیور کو کار آ گے بڑھانے کو کہا ۔
ڈرائیور نے اپنی طرف کا کھلا ہوا دروازہ بند کیا اورانجن اسٹارٹ کر کے کار آ گے بڑھا دی ۔کار دوبارہ آہستگی سے آگے بڑھنے لگی تو اس نے کن انکھیوں سے ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر کار میں لگے شیشے میں ان کا چہرہ دیکھا ۔ ان کے ہونٹوں کی پُرسکون مسکراہٹ غائب تھی ۔انہوں نے اپنے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ رکھا تھا ۔ ان کی آنکھوں کے کنارے بھیگے ہو ئے تھے ۔ ان کی پیشانی پر بل تھے اور گہری گہری سانسیں لینے سے ان کی نتھے پھول رہے تھے ۔۔۔وہ آہستہ روی سے کار آ گے بڑ ھا رہا تھا ۔
تھوڑی دیر بعدکار حویلی کے وال کمپائونڈ میں داخل ہوگئی ۔ڈاکٹر بن خادم کار سے اترے اور بو جھل قدموں سے حویلی کے صدر درواز کی طرف بڑھ گئے.
حویلی کے ایک کمرے میں پہنچ کر انہوں نے اپنا عمامہ اتار کر ایک اسٹول پر رکھا اور خود کو صوفے پر اوندھا گرا لیا۔ تھوڑی دیر تک وہ صوفے پر یونہی پڑے گہری گہری سانسیں لیتے رہے پھر سر اٹھا کر صوفے پر ہی پڑا ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کردیا ۔ انہیں ٹی وی کے اسکرین پر امریکی صنعت و حرفت کا مرکز ورلڈ ٹریڈ سینٹر آگ اور دھوئیں اگلتا نظر آیا اور نیوز ریڈر کی آواز ان کے کان کے پردوں سے ٹکرائی.
’’آج امریکی ائیر لائنز کے دو مسافر بردار جہاز اغوا کر لئے گئے. اغواکے تھوڑی دیر بعد اغوا کاروں نے دونوں جہازوں پر مکمل کنڑول کر کے ان کا رخ امریکی ورلڈ ٹریڈ سنیٹر کی طرف موڑ دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دونوں جہاز اس سے ٹکرا دیئے ۔ یکے بعد دیگرے ہونے والی ٹکر سے امریکہ کا ۱۱۰؍ منزلہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر زمین پر بیٹھتا چلا گیا اور ان جہاز وں میں موجود مسافروں کے ساتھ ہی ٹریڈ سنیٹر میں موجود تقریباً پانچ ہزار افراد بھی لقمہ اجل بن گئے ۔‘‘ نیوزریڈر کی آواز تھمی اور ٹی وی پر دوجہاز پرواز کرتے دکھائی دیئے ۔ دونوں ہی ورلڈ ٹریڈسینٹر کے پس منظر سے اس کے قریب آتے نظرآئے اور پھر انہوں نے دیکھاکہ ایک جہاز برق رفتاری کا مظاہرہ کر تا ہوا سیدھا ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا گیا ۔ ٹریڈ سینٹر آگ کے ساتھ ساتھ کالے دھوئیں بھی اگلنے لگاپھر چند ثانیے بعد دوسرا جہاز بھی دھواں اور آ گ اگلتی اس عمارت سے اس تیزی سے ٹکرایا کہ اس کا اگلا سرا عمارت کی دوسری سمت سے باہر کی طرف جھانکنے لگا اور پھر پورا ورلڈ ٹریڈ سینٹر آگ کے ساتھ دھوئیں اگلتا زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔ ٹی وی اسکرین پر اس منظر کو دیکھ کر ڈاکٹر بن خادم نے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔ ان کے ماتھے پر شکنیں پڑگئیں اور ذہن کی اسکرین پر ان کے بچپن کا ایک منظر اجاگر ہو گیا ۔
وہ ایک کھیت میں کھڑے اس بجوکا کو حقارت سے دیکھ رہے ہیں جسے ان کے چھوٹے چھوٹے معصوم ہاتھوں نے کھیت کی زمین سے اکھاڑ پھینکا ہے ۔ بجوکا کا مٹی کی ہانڈی کا سر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھراپڑا ہے ۔ ان کا معصوم ذہن طیش میں آ گیا ہے اور وہ آ گے بڑھ کر بجوکا کے دونوں ہاتھوں پر پیر رکھ کر کھڑے ہو گئے ہیں پھر نیچے جھک کر اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنی پوری طاقت لگاکر کھڑے ہو گئے ہیں ۔ بجوکا کے دونوں ہی ہا تھ چٹاخ چٹاخ کی آواز کے ساتھ ٹوٹ گئے ہیں ۔ اس کے بعد اس کاا یک پیر بھی انہوں نے توڑ کر ایک طرف پھینک دیاہے ۔۔۔۔بجوکا کی یہ درگت دیکھ کر ادھر اُدھر درختوں پر دبکے بیٹھے پر ندے کھیت کی تیار فصل سے اپنا حصہ حاصل کرنے کے لئے اترنے لگے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر ان کی آنکھیں بھر آئیں ہیں اور ہونٹوں پر ایک ابدی مسکراہٹ پھیل گئی ہے ۔ انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر سر نیچے جھکا لیا ہے ان کی آنکھوں سے آنسو کے قطرے نکل کر کھیت کی زمین میں جذب ہو گئے ہیں اور ان کی نظر بجوکا کے کھڑے رہنے کی جگہ پر جا پڑی ہے ۔ انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر کے ٹوٹے بکھرے بجوکا پر حقارت سے تھوک دیا ہے۔ اپنے ذہن کی اسکرین پر دھندلکا چھانے کے بعد انہوں نے ٹی وی اسکرین پر دیکھا ۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹرکی فلک سے باتیں کرتی پرانی تصویر اس پر اجاگر تھی ۔ اسے دیکھ کر انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر نہیں بلکہ وہ بھی ایک بجوکا ہے ۔۔۔۔۔ایک بہت بڑا ظالم بجوکا۔۔۔جو دنیا کے چھوٹے چھوٹے کمزور ممالک کے معصوم انسانوں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے اپناہا تھ پھیلانے اور سر اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتے ہی ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا ۔ انہوں نے دوایک گہری گہری سانسیں لے کر اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر کھول بند کیں اور صوفے پڑا ریموٹ اٹھا کر پوری طاقت اور حقارت سے ٹی وی پر موجود ورلڈ ٹریڈ سینٹر نامی ظالم بجوکا کو دے مارا اور اپنا ماتھا صوفے پر ٹیک گہری گہری سانسیں لینے لگے
⚫⚫
تازہ غزل
شام روٹھی ہے محبت کے گنہگاروں سے
دھوپ اترتی ہی نہیں یاد کی دیواروں سے
بڑھ گئی شہرِ زلیخا میں وہ نقدِ یوسف
لوگ خاموش گزر جاتے ہیں بازاروں سے
ہم سے زنداں میں بھی چھوڑا نہ گیا رنگِ طرب
جشن برپا کیا زنجیر کی جھنکاروں سے
مرتبہ اور ہے ہم خاک بسر لوگوں کا
اپنی بنتی ہے نہ شاہوں سے نہ درباروں سے
اپنے چہرے پہ وہی تہمتِ خال و خد ہے
شرم آتی ہے ہمیں آئنہ برداروں سے
ایک تصویر مرے ذہن میں آئی اکبر
اور پھر زخم ابھرنے لگے دیواروں سے
صدیق اکبر
اے مرے چارہ گر
میرے زخموں کو سیتے ہوئے تیرے لفظوں کی سوزن میں زنگ لگ چکے
تیری آنکھوں کے سورج مرے یخ لہو کو تپش دے رہے تھے
وہ اب ڈھل چکے
اے میرے مسیحا
تجھے کیا ہوا
تیرے ماتھے پہ یہ ٹمٹماتے ستارے،
یہ اچھے شگون کی علامت نہیں ہے
ترے ہر نفس پہ گماں ہورہا ہے
تری روح میں کچھ، دھواں ہو رہا ہے
وہ کیا ہے
متائے دل جاں ؟
وہی غم کا درماں؟
وہی دست عیسیٰ؟
وہی صبر ایوب؟
وہی روح مریم؟
وہی مصروکنعاں کے مابین حائل برس ہا برس کی مسافت پہ قائم عدو کی حدوں میں گرفتار بیٹھا
وہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشق یعنی
اے میرے مسیحا
تری آنکھ بند ہورہی ہے
مرے پاس آ میرے سینے سے لگ کر ذرا چین لے لے
مرے درد کی سر حدوں سے گزرتا تو خود دردگیر ہوچکا ہے
مرے دردگیر
مرے ہاتھ کیوں چپچپے ہیں
ترے جسم پر سرخ رنگوں سے بنتی بگڑتی نگارش ہے کیسی
یہ کیا ہے
یہ تیرا لہو ہے؟
کہ میرا لہو ہے؟
اے میرے مسیحا
مرے چارہ گر
اےمرے دردگیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اپنا لہو ہے
(مجتبیٰ زید )2021