آپ ؐ کی مکی زندگی سے یہ چند خاص سبق ملتے ہیں کہ اہل ایمان کو حق و صداقت کے اپنے موقف پر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ جمنا چاہئے اور اس کی طرف پورے وثوق کے ساتھ دعوت دینی چاہئے ، جہاں تک ہو سکے اپنے پڑوسیوں، اہل خاندان اور اہل وطن سے خواہ وہ کسی بھی فکر و خیال اور مذہب کے ماننے والے ہوں ، اخلاق و محبت، خیر خواہی و ہمدردی اور بہتری و بھلائی کا برتائو کرنا چاہئے
اسلام عالمی اورابدی مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کاسرمدی پیغام دنیا کے ہر گوشے میں بسے ہوئے انسانی افراد اور معاشرے کے لئے یکساںطور پر قابل عمل ہے۔ اس عالمی اور آفاقی مذہب کے پیغمبر آخر الزماں سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا ہر مرحلہ اور ہر پہلو پوری امت مسلمہ کیلئے ایک کامل اسوہ اور مکمل نمونہ ہے جیسا کہ قرآن کریم کی شہادت ہے: ’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسولؐ اﷲ (کی ذاتِ مبارکہ) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے۔‘‘ (سورہ احزاب: ۲۱)
گھریلو زندگی ہویا سماجی زندگی، مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی، عبادات ہوں یامعاملات، سیاسیات ہوں یا اخلاقیات و مذہبیات، آپؐ کی حیات ِ مبارکہ کا عملی نمونہ ہر شعبۂ زندگی میں تمام انسانوں کے لئے قابلِ تقلید ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کے لئے، جو اس ملک میں اقلیت میں ہیں،ایک مکمل عملی نمونہ موجود ہے۔ ہمارے ملک میں اکثریت غیر مسلمین کی ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلمان یہاں کی آبادی کا تقریباً ۱۵؍ فیصد ہیں۔ یہ ملک ہم مسلمانوں کا اپنا محبوب وطن ہے اور مسلمان اس سرزمین کے ایک اٹوٹ حصہ کے طور پر صدیوں سے آباد ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد اسی خاک میں مدفون ہیں اور اس بر صغیر میں ہماری تہذیب و تمدن اور تاریخ و روایات کے کتنے ہی انمٹ نقوش اور لاثانی یادگاریں ثبت ہیں کہ اگر اس گراں قدر تہذیبی، ثقافتی و تاریخی ورثہ کو ہندوستانی تاریخ سے مٹادیا جائے تو یہاں کی تاریخ روکھی اور بے رنگ نظر آنے لگے گی۔
حصولِ آزادی کے بعد بھی گو مسلمانوں کو اس ملک میں مسلسل گزشتہ ۷۰؍ برسوں سے معاشی و تعلیمی اور سیاسی و سماجی آزمائشوں کا سامنا ہے؛ لیکن ملک کے مجموعی حالات مسلمانوں کے لئے اگر ہمت افزا نہیں تو کم از کم مایوس کن اور دل شکن بھی نہیں۔ یوں تواسلام کی ساری تعلیمات پر کاربند ہونا مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری اور اسلامی تقاضا ہے، تاہم مسلمانوں کیلئے ملک کے موجودہ حالات میں نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ’’مکی نمونہ‘‘ خاص طور پر مکمل عملی نمونہ پیش کرتا ہے۔
امانت و دیانت اور پاکیزگی و شرافت
مکی زندگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی شناخت تھی آپؐ کی صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی۔ مکی زندگی میں نبوت و رسالت سے سرفراز ہونے سے پہلے اور بعد کے زمانہ میں آپؐ کی شناخت آپؐ کی صداقت و امانت، شرافت و پاکیزگی، تواضع و انکساری اور تقویٰ و پاکبازی تھی؛ مکہ کا ہر باشندہ آپؐ کی شرافت و پاکیزگی اور اعلیٰ اخلاق کا قائل تھا۔ آپؐ کو عام طور پر صادق اور امین کہا جاتا تھا۔ خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اس کے مقام تک اٹھا کر رکھنے میں قریش کے اندر جو سخت اختلاف پیدا ہوا اور جس کی وجہ سے خوںریز جنگ چھڑنے والی تھی، وہ آپؐ کی جوانی کا زمانہ تھا، لیکن قریش کے سرداروں اور بڑے بوڑھوں کو جب یہ ہاشمی نوجوان دکھائی پڑا تو سب نے بیک آواز ہو کر کہا:’’ یہ محمدؐ امین شخص ہیں، ہم ان سے خوش ہیں، یہ امین ہیں۔‘‘ اور سب نے اس نوجوان کے حکیمانہ فیصلے کو بخوشی قبول کیا اور اس طرح ایک خون ریز جنگ چھڑتے چھڑتے رہ گئی۔ (سیرۃ المصطفیٰ۱۱۶:۱، بحوالہ سیرت ابن ہشام)
نبی اکرم ﷺ پر نبوت کے ابتدائی مراحل میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ نبوت کے پیغام اور توحید کی دعوت کو علی الاعلان اپنے قبیلہ والوں تک پہنچا یا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر تشریف لاتے ہیں اور قریش کے قبائل کو آواز دیتے ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں :’’ اے قریش! اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے دشمن کی فوج حملہ آور ہونے کو تیار ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟‘‘ پوری قوم یک زبان ہو کر کہتی ہے: ’’ہاں! ہم نے آپ میں سوائے صدق اور سچائی کے کچھ نہیں پایا۔‘‘ (صحیح بخاری )
آپؐ کی امانت و دیانت کا عالم تھا کہ مکہ کے بڑے بڑے تاجر خواہش مند ہوتے تھے کہ آپؐ ان کا تجارتی سامان لے کر شام و یمن وغیرہ کی عالمی منڈیوں میں جائیں تاکہ آپؐ کے ذریعہ ان کی تجارت کو فروغ حاصل ہو۔ نبوت و رسالت سے سرفراز ہونے کے بعد بھی مکہ کے وہ لوگ جو آپؐ کی دعوتِ اسلام کو نہیں مانتے تھے، وہ بھی آپؐ کے پاس اپنی امانتیں بغرض حفاظت رکھ جاتے تھے؛ انہیں اس بات کا اطمینان تھا کہ ان کی امانت اس امینؐ کے علاوہ کسی اور کے ہاتھوں میں اتنی محفوظ نہیں ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا دوسرا سب سے واضح عنصر آپؐ کا بے پناہ جذبۂ صبر و استقامت، اولو العزمی اور اپنے صحیح موقف پر پہاڑ کی طرح قائم رہنے کی قوت تھی۔ تبلیغ ِ اسلام اور دعوتِ حق کے بعد مکہ کی اکثریت آپؐ کے خلاف تھی۔ وہ ہمیشہ آپؐ کے اور مٹھی بھر مسلمانوں کے در پئے آزار رہتے، انہیں تکلیف پہنچاتے، ایذا دیتے اور دن رات اسلام، پیغمبرؐ اسلام اور متبعینِ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کے اس برتائو کا جواب صبر و خاموشی اور ہمت و استقامت سے دیا۔ آپؐ نے دعوتِ حق کے اپنے موقف سے ذرہ برابر پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا، حتیٰ کہ آپؐ کو پورے عرب کی بادشاہت، مال و دولت، حسین ترین عورتوں اور خواہش کے مطابق ہر چیز پیش کئے جانے کی پیش کش بھی کی گئی ، لیکن آپؐ نے اس دعوت حق کے سامنے ہر کسی پیشکش کو حقارت سے ٹھکرادیا۔ آپؐ نے حضرت ابو طالب کی فہمائش کے جواب میں فرمایا : ’’چچا جان!اگر میرے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے میں سورج رکھ دیا جائے اور کہا جائے کہ اس کام (دعوت دین) سے باز رہو، تو بھی میں ایسا نہیں کرسکتا۔‘‘
تصادم سے گریز اور دعوت و تبلیغ کا تسلسل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صبر آزما اور مخالف ماحول میں اہلِ مکہ کے سامنے اعلیٰ اخلاقی نمونہ پیش کیا ۔گالیوں کا جواب دعائوں سے، پتھر کا جواب نرم کلامی سے اور دلآزاری کا جواب ہمدردی و غم گساری سے دیا۔ آپؐ نے اس ماحول میں تصادم سے گریز کیا اور حکمت و بصیرت کے ساتھ مصروفِ عمل رہے۔ لوگوں کی بھلائی اور دنیا و آخرت کی کامیابی کے لئے ان کو خدائے واحد اور اللہ کے پسندیدہ دین کی طرف بلاتے رہے۔ دعوت و تبلیغ کا جو فرضِ منصبی آپؐ نے اٹھایا تھا، اس پر پوری دلجمعی، استقامت اور سختی سے قائم رہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ کی دعوت دلوں کے قلعوں کو تسخیر کرتی چلی گئی اور مکہ کی ایک بڑی تعداد نے مخالف ماحول میں بھی اسلام میں کشش محسوس کی ۔ جو لوگ کل تک آپؐ کے مشن کے شدید ترین دشمن تھے، وہ آپؐ کے اخلاق عالیہ اور دعوت حق کی گرمی سے پگھل کر پانی پانی ہوجاتے اور اہل ایمان کے حلقے میں شامل ہوجاتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے یہ چند خاص سبق ملتے ہیں کہ اہل ایمان کو اپنے حق و صداقت کے موقف پر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ جمنا چاہئے اور اس کی طرف پورے وثوق کے ساتھ دعوت دینی چاہئے ۔
جہاں تک ہوسکے اپنے پڑوسیوں، اہل خاندان اور اہل وطن سے خواہ وہ کسی بھی فکر و خیال اور مذہب کے ماننے والے ہوں ، اخلاق و محبت، خیر خواہی و ہمدردی اور بہتری و بھلائی کا برتائو کرنا چاہئے نیز، معاشرے کے سامنے ہمیشہ اپنے اعلیٰ کردار و عمل، تقویٰ و طہارت، امانت و دیانت اور اخلاص و خیر خواہی کے ذریعہ بلند پایہ اخلاقی اقدار و آداب کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
ہجرت حبشہ سے چند سبق
نبوت کے پانچویں برس دو مرحلوں میں تقریباً سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺکی ایماء پر حبشہ (موجودہ ایتھوپیا، افریقہ) کی طرف ہجرت فرمائی۔ گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہجرت میں حصہ نہیں لیا لیکن چونکہ آپؐ کے اصحاب (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے آپ کے مشورہ سے ہجرت اختیار کی تھی اور آپؐ کی تعلیمات کی روشنی میں انھوں نے وہاں زندگی گزاری ؛ اس لئے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا ہی ایک حصہ تصور کیا جاتا ہے۔
حبشہ ایک غیر مسلم ملک تھا، وہاں کا حکمراں نجاشی اس وقت نصرانی تھا۔مسلمانوں کی جمعیت وہاں کی قلیل ترین اقلیت تھی؛ لیکن حبشہ کی زندگی میں حضرات صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں جو لائحہ عمل اختیار کیا، وہ ہندوستان جیسے ملک میں رہنے والی مسلم اقلیت کے لئے ایک بہترین اسوہ ہے۔
حبشہ پہنچنے کے بعد ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ کفار مکہ کے دو نمائندوں عبد اللہ بن ربیعہ اور عمرو بن العاص نے حبشہ کی سرزمین بھی مسلمانوں پر تنگ کرنی چاہی اوربادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا چاہا۔ اس موقع پر حبشہ کے مسلمانوں نے جو طریقۂ کار اختیار کیا، وہ ہمارے لئے روشن نمونہ کا درجہ رکھتا ہے۔ مسلمانوں نے سب سے پہلے اجتماعیت اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے، حضرت جعفرطیار رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر منتخب کیا۔ پھر انھوں نے باہمی مشورہ اور اتفاقِ رائے سے یہ طے کیا کہ جس دین حق کی خاطر ہم نے اپنا وطن چھوڑا ہے، اس کے خلاف ہم کچھ نہیں کہیں گے اور جو کچھ حق ہوگا ، حکمت و بصیرت کے ساتھ معقول و مدلل انداز میں اس کو سامنے رکھیں گے۔ نیز، اپنے جائز مقصد کے حصول اور اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے عادل بادشاہ کے عدل و انصاف اور قانون کا سہارا لیں گے؛ چنانچہ جب قریشی نمائندوں نے نجاشی کے سامنے مسلمانوں پر یہ الزام لگایا کہ یہ بد دین ہوكر اپنے ملک سے بھاگ آئے ہیں ، ان کو واپس کیا جائے، تو نجاشی نے مسلمانوں سے صفائی پیش کرنے کو کہا۔ ان روشن اصولوں کی رہنمائی میں حضرت جعفرِ طیار رضی اللہ عنہ نے نہایت معقول انداز میں کہا کہ: کیا ہم غلام ہیں جو تمہارے یہاں سے بھاگ آئے ہیں، یا ہم نے کسی کا قتل کیا ہے یا ہم کسی کا مال ہڑپ کرکے آئے ہیں۔اس بر محل اور معقول سوال کا جواب ان قریشی نمائندوں کے پاس نہیں تھا۔
پھر نجاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ آخر وہ کون سا دین ہے جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ اس کے جواب میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے حضرت رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیمات کا جو خلاصہ پیش کیا وہ ایک بہترین دینی اور سماجی نمونہ تھا۔ حضرت جعفرؓ نے اسلام کے تعارف پر مشتمل جو تقریر نجاشی کے دربار میں کی تھی، اس میں رسول پاک ﷺ کی ۱۴؍ تعلیمات کا ذکر تھا: (۱) توحید (۲) سچائی (۳) امانت داری (۴) صلہ رحمی (۵) پڑوسیوں سے اچھا سلوک (۶) حرام کاموں سے پرہیز (۷) خوںریزی سے گریز (۸) بدکاری سے پرہیز (۹) جھوٹی بات سے پرہیز (۱۰) مالِ یتیم سے پرہیز (۱۱) عورتوں پر الزام تراشی سے گریز (۱۲) نماز قائم کرنا (۱۳) زکوٰۃ دینا اور (۱۴) روزہ رکھنا۔ان تعلیمات میں، مذہب، اخلاق اور سماج سب کچھ کی رہنمائی موجود ہے۔
دوسرے دن قریشی نمائندوں نے ایک دوسری چال چلی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق عبدیت کے اسلامی عقیدہ کے خلاف نجاشی عیسائی بادشاہ کو بھڑکانا چاہا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ عليه السلام کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔ مسلمانوں کے لئے یہ مشکل وقت تھا؛ لیکن حق پرستی اور صداقت شعاری کے روشن اصولوں کی روشنی میں جو اسلامی عقیدہ تھا، وہ حضرت جعفر طیار نے بلاکم و کاست پیش کردیا اور بالآخر حق کا بول بالا ہوا اور باطل رسوا و ذلیل ہو کر واپس ہوا۔
کتب ِ سیرت و احادیث میں حبشہ میں مسلمانوں کی عام زندگی کی تفصیلات نہیں ملتیں، لیکن جو کچھ جابجا روایات میں ملتا ہے، اس سے بھی ان کے طرزِ معاشرت کی ایک جھلک دکھائی دیتی محسوس ہوتی ہے۔ حضرات صحابہؓ نے اپنی چھوٹی سے بستی بنا کر تجارت وغیرہ کا پیشہ اختیار کیا اور مقامی غیر مسلم آبادی کے ساتھ معاملات کیا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں دنوں نجاشی بادشاہ کو ایک بغاوت کا سامنا کرنا پڑا؛ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کی کامیابی کیلئے دعا کی۔ اس سے یہ اصول ماخوذ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ملک اور عادل رہنما کے ساتھ وفاداری اور خلوص و محبت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
مسلمانوں کو ہجرتِ حبشہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے، نازک اور اہم مواقع پر اجتماعیت اختیار کرکے باہمی مشورہ سے کام لینا اور اپنا امیر منتخب کرلینا چاہئے، یہ طے کرلینا چاہئے کہ کسی حال میں بھی حق و صداقت کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور اپنے ایمان و یقین کا سودا نہیں کریں گے، نیز، جذباتیت سے گریز کرتے ہوئے حکمت و بصیرت سے کام لینا چاہئے ۔ دین کی دعوت، حکمت،معقولیت اور مدلل طریقہ سے اپنے ہم وطنوں کو دینی چاہئے اور ہمیشہ طاقت کا مقابلہ حکمت و دانائی سے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ملک کے نظامِ عدل سے واقفیت حاصل کرنا چاہئے اور اسے اپنے تحفظ اوراپنا حق حاصل کرنے كے لئے استعمال کرنا چاہئے۔