شرد گوؤند راؤ پوار کا نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ( این سی پی ) کی صدارت سے استعفیٰ ایک اہم سیاسی واقعہ ہے ۔ پوار نے ۲۷ برس کی عمر میں کانگریس کے ٹکٹ پر اسمبلی کا الیکشن جیتا اور ۳۸ سال کی عمر میں ریاست مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ بن کر ، سب سے کم عمر کا وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل کیا ، اور کانگریس سے نکلنے اور اپنی پارٹی بنانے کے باوجود ، وہ کانگریس کی مرکزی حکومت اور یو پی اے میں تین باروزیر رہے ، مہاراشٹر میں کانگریس سے کامیاب اتحاد کیا ، اور اپنی سیاست سے ٖصرف مہاراشٹر ہی نہیں پورے ملک پرکوئی پانچ دہائیوں تک ، اپنے اثرات مرتب کرتے رہے ۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ شردپوار نے ایک ایسے سیاست داں کا کردار ، جو سیاسی توڑ جوڑ میں ماہر ہے ، بخوبی نبھایا ۔ ایک سیاست داں کے طور پر وہ بہت بارسوخ اور انتہائی طاقتور تھے ۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ استعفیٰ پوار کی سیاسی زندگی کا خاتمہ ہے ، یا اس کا مطلب پوار کی سیاسی طاقت کا گھٹنا ہے ، تو وہ پوار کو نہیں سمجھ سکا ہے ۔ اگر پوار کے اعلان ، اور اس تعلق سے ان کے بیان پر ، غور کیا جائے ، تو یہ صاف اندازہ ہوجاتا ہے ، کہ این سی پی کی صدارت سے ہٹ کر بھی شرد پوار پہلے ہی کی طرح طاقتور بھی رہیں گے ، اور پہلے ہی کی طرح پارٹی کی نیّا بھی کھیتے رہیں گے ۔ پوار نے یہ نہیں کہا ہے کہ وہ ’ سیاست سے استعفیٰ دے رہے ہیں ‘ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ’’ میں عوامی زندگی میں سیاسی اور سماجی کام کرتا رہوں گا ۔‘‘ مطلب یہ کہ وہ عملی سیاست سے فی الحال دستبردار نہیں ہو رہے ہیں ۔ تو سوال یہ ہے کہ جب سیاست کو چھوڑنا نہیں ہے ، تو انھوں نے این سی پی کی صدارت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیوں کیا ؟ اس سوال کا جواب ، ان کے اعلان کے بعد ، پارٹی ورکروں اور پارٹی لیڈروں کے رویے میں تلاش کیا جا سکتاہے ۔ کسی بھی ایک لیڈر نے ، بشمول اجیت پوار ، شرد پوار کے اعلان پر بظاہر خوشی کے شادیانے نہیں بجائے ، سب ہی نے پوار پر زور ڈالا کہ وہ اپنے استعفیٰ کے اعلان کو واپس لیں ۔ اور یہی پوار کی سب سے بڑی طاقت ہے ، کوئی بھی لیڈر ، کیا چھوٹا کیا بڑا ، کھل کر ان کی مخالفت نہیں کر سکتا ۔ پوار نے اپنے استعفیٰ کے اعلان سے اپنی پارٹی کے لیڈران کو ، یہ پیغام دیا ہے کہ وہ آج ۸۲ سال کی عمر میں بھی ، این سی پی کی روح ہیں ۔ اسے ایک طرح سے ، پارٹی کے اُن سیاست دانوں کے لیے ، جو ممکن ہے کہ بی جے پی سے ملنے کا من بنا رہے ہوں ، ایک واضح اشارہ بھی سمجھا جا سکتا ہے ، کہ صدارت چھوڑ کر بھی ، وہی پارٹی کے گائیڈ بھی ہیں اور کھیون ہار بھی ، لہذا اگر پارٹی میں بنے رہنا ہے ، تو ان کے ہی اشارے پر کام کرنا ہوگا ۔ پوار کے استعفیٰ کے بعد کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، مثلاً یہ کہ کیا اب اجیت پوارکو کھلی چھوٹ مل جائے گی ؟ اس سوال کے ساتھ ہی یہ سوال بھی وابستہ ہے کہ اب این سی پی کی صدارت کون سنبھالے گا ، اجیت پوار یا شردپوار کی بیٹی سپریہ سولے ؟ مزید ایک سوال ہے کہ اب ’ مہاوکاس اگھاڑی ‘ کا کیا ہوگا ؟ ایک اہم سوال مزید ہے ، شردپوار بی جے پی کے خلاف جس ’ اپوزیشن اتحاد ‘ کے لیے سرگرم تھے ، اب اس کا کیا بنے گا؟ اِن سوالوں کے جواب جلد یا بدیر مل جائیں گے ، لیکن اتنا تو واضح ہی ہے کہ شردپوار آسانی کے ساتھ سپریہ سولے کو اجیت پوار کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے ۔ اجیت پوار لاکھ یہ کہیں ،کہ این سی پی کی صدر چاہے وہ بنیں یا سپریہ ، صدارت پوار ہی کی وراثت میں جائے گی ، وہ ہر حال میں چاہیں گے کہ صدارت ان کے ہی ہاتھ میں آئے ۔ لیکن پوار نے پارٹی کو چلانے کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی ہے ، وہ پوار کی خواہش کو نظرانداز کرکے اجیت پوار کے سامنے جھک جائے ، یہ اتنا آسان نہیں ہے ۔ شردپوار نے جس پارٹی کو برسوں سینچا ہے ، اور جسے کھڑا کرنے میں شدید محنت کی ہے ، اسے دھڑوں میں بٹتا نہیں دیکھ سکتے ۔ شایدصدارت سے ہٹنے کی ایک وجہ ، کسی ایک کو خوش کرکے ، دوسرے کی سیاسی زندگی کو پختہ بنانا ہو ۔ بیٹی اور بھتیجے دونوں کو ’ فِٹ ‘ کرنا ہو ! شردپوار ایک گھاگ سیاست داں ہیں ، انہوں نےاستعفیٰ بہت سوچ سمجھ کر ہی دیا ہوگا ۔ بہت ممکن ہے کہ این سی پی کے کسی ایسے اقدام سے ، جس کے لیے وہ راضی ہوں لیکن عوام کو یہ جتانا چاہ رہے ہوں کہ وہ راضی نہیں ہیں ، اٹھنے والے ہنگامے پر ، وہ یہ کہہ کر اپنی بے بسی جتائیں کہ اب ’ میں صدر نہیں ہوں ‘ ۔ خیر ، اس استعفے کے ملک کی سیاست پر یقیناً اثرات مرتب ہوں گے ، اب وہ اچھے اثرات ہوں گے یا خراب ، اس کا فی الحال کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ، لیکن امید یہ رکھنی چاہیے کہ شردپوار جس طرح اپنی ساری زندگی بظاہر سیکولر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے رہے ہیں ، اپنے استعٖیٰ کے بعد بھی وہ اسی طرح کھڑے نظر آئیں گے ، اپنی سوچ نہیں بدلیں گے ، کیونکہ اگر انھوں نے سوچ بدلی تو بی جے پی کے لیے ۲۰۲۴ ء بہت آسان ہوجائے گا ۔