– قسط: 03
– قدیم یونان کی تاریخ
قدیم یونان کی تاریخ کو ہم چار بُنیادی حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ؛
1) یونانی ڈارک ایج (The Greek Dark Age)
2) آرکیک دور (The Archaic Period)
3) کلاسیکل دور (Classical Period)
4) ہیلینسٹیک دور (Hellenistic Period)
1) یونانی ڈارک ایج (The Greek Dark Age)
ڈارک ایج تقریباً 1200BC سے 800BC تک جاری رہتا ہے اور اس کو ڈارک ایج اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے بارے کوئی تاریخی ریکارڈز موجود نہیں ہے یعنی ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ اس دور کے اندر کیا ہوا تھا اور کیا خیالات و رجحانت ہوا کرتے تھے۔
تقریباً 800BC میں ہمیں پہلی بار Homer اور Hesiod کے وہ ورکس (works) Iliad اور Odyssey وغیرہ مل جاتے ہیں کہ جس کے نتیجے ہمارے پاس پہلی دفعہ تاریخی ریکارڈ آتا ہے کہ جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قدیم یونانی سوچ کیا تھی جس کو پھر ہم آرکیک دور کہتے ہیں جو 800BC سے 500BC تک جاری رہتا ہے۔ 500BC سے لے کر 323BC تک جو کہ سکندر اعظم (Alexander) کی موت کی تاریخ، ایک اگلا دور یعنی کلاسیک دور شروع ہوتا ہے جس میں افلاطون، سقراط اور ارسطو آتے ہیں یہ دور تاریخ کا ایک گولڈن (golden) حصہ ہے جس میں یونانی فلسفے کو فروغ ملتا ہے۔ آخری دور کو ہیلینیسٹک دور کہا جاتا ہے جو سکندر اعظم کے موت کے بعد شروع ہوتا ہے یعنی 323BC سے تقریباً 146BC تک۔
2) آرکیک دور (The Archaic Period)
عام لوگوں کا یہ تاثر ہے کہ قدیم یونانی تہذیب کا تعلق مغرب سے ہے، ہے بھی مگر یونانی تہذیب عروج پر نہ پہنچتی اگر اس پر مشرق (East) کا اثر نہ ہوتا۔
خاص طور پر ایسرینز (Assyrians) کا اثر، فونییشینز (Phoenicians) اور مصر کا بہت گہرا اثر ہے۔
بلکہ فونییشینز (Phoenicians) نے ہی سب سے پہلے لکھائی ایجاد کی اور یونانیوں نے بھی وہی لکھائی فونییشینز سے لی۔ لکھائی کے نتیجے میں سب سے پہلے وہ ورکس (کام) تیار کیے گئے جو یونانی مذہبی نقطہ نظر کو بیان کرتی ہے۔
ہومر (Homer) اور ہیسیوڈ (Hesiod) دو ایسے افراد تھے کہ جنہوں نے شاعری کے انداز میں ان خیالات و رسومات کو درج کیا جو کہ یونانی تہزیب کا حصہ تھی۔
– ہومر کے ورکس (Works of Homer)
۰ ایلیَڈ اور اوڈیسی (The Iliad and the Odyssey)
– ہیسیوڈ کے ورکس (Work of Hesiod)
۰ ورکس اینڈ ڈیز (Works and Days)
۰ تیوجینی (Theogony)
۰ شیلڈ آف ہیریکلی (Shield of Heracles)
یہ ورکس قدیم یونان کے لوگوں کے لئے وہ حیثیت رکھتی تھی جو آج مسلمانوں کے لئے قرآن اور عیسائیوں کے لئے انجیل حیثیت رکھتی ہے۔
تاریخ میں پہلی بار اولیمپیک (Olympic) 776BC میں منعقد ہوئی۔ یہ وہ تاریخ ہے جس میں ڈارک ایج ختم ہوتی ہے اور ایک نیا دور یعنی آرکیک (The Archaic Period)
دور شروع ہوتا ہے۔
یونانی لوگ دراصل پولیتیئسٹس (Polytheists) تھے یعنی ان کے کئی دیوتا یا خدا ہوا کرتے تھے جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔
ان کے چودا (14) دیوتا تھے جنہیں Olympian Gods کہا جاتا ہیں اور ان کے مزید 370 دیوتا تھے جو اس کی پرستش کرتے تھے۔
جو ان کے Olympian Gods تھے ان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ان میں انسانوں جیسی خصوصیات تھیں۔
مثال کے طور پر وہ برائی بھی کرتے تھے اور اچھائی بھی کرتے تھے۔
جو دیوتا کا بادشاہ تھا اس کا نام تھا Zeus، اور جو Zeus کا بھائی تھا اس کا نام تھا Hades جو بالکل اس کے مخالف کھڑا تھا اور وہ انڈر ورلڈ (under world) میں رہتا تھا۔
ہرا (Hera) شادی کی دیوتا تھی، Aphrodite پیار کی دیوتا، Aries جنگ کی دیوتا، Apollo لائٹ کی دیوتا، Poseidon سمندر کی دیوتا اور اس طرح مختلف دیوتا کا تعلق مختلف چیزوں سے تھا۔
یونانیوں کا یہ خیال تھا کہ دنیا میں انسان پر مصیبت تب آتی ہے جب انسان ان دیوتاؤں کی پرستش چھوڑ دے۔
ان کا خیال تھا کہ جب انسان ان دیوتاؤں کی پرستش چھوڑ دے تو ان دیوتاؤں کی پاور (Power) کم ہو جاتی ہے اور ان کی انسانوں کی دیکھ بھال میں دلچسپی نہیں رہتی۔ یونانیوں کا یہ بھی خیال تھا کہ انسانوں کے درمیان، دو قبیلوں، دو ریاستوں یا دو فوجوں کی درمیان جنگ کی وجہ بھی دو دیوتاؤں کے درمیان تضاد کی وجہ سے ہوتی ہے۔
2) کلاسیکل دور (Classical Period)
کلاسیکل دور 500BC میں شروع ہوا۔ یہی وہ دور تھا جس میں نئے پیداواری قوت کے نتیجے میں زیادہ پیداوار پیدا ہوتی ہیں اور بہت زیادہ خوشحالی آتی ہے۔
یہی وہ دور ہے جس کے اندر آبادی پانچ گنا بڑھ جاتی ہے اور نئے پیداوار اور آبادی میں اضافے کے نتیجے میں نیا لٹریچر، نئے آرٹس (Arts) اور نئے علوم پیدا ہوتے ہیں۔
جو سیاسی ڈھانچہ تھا ان میں چھوٹے چھوٹے شہر تھے اور ان کی اپنی اپنی حکومت ہوا کرتی تھی۔
ان چھوٹے چھوٹے شہروں کا کوئی مذہب نہیں تھا کیونکہ لوگ مختلف دیوتا کی پرستش کرتے تھے اور ایک مشترکہ مزہب نہیں تھا اس لئے ایک مذہبی ریاست بنانا ممکن نہیں تھا۔ ان کے درمیان کوئی اتفاق نہیں تھا اور اکثر و بیشتر آپس میں لڑتے رہتے تھے۔
دو سب سے اہم جو ریاست تھے وہ ایتھنز (Athens) اور اسپارٹا (Sparta) ہے جس کا ریاستی ڈھانچہ بنیادی طور غلام داری نظام پر کھڑا تھا۔ انہوں نے Non-Greek لوگوں کو اپنا غلام بنایا تھا اور وہ چھوٹے اور بڑے کام ان سے کرواتے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان سوسائٹیز (societies) کو کم ازکم تین حصوں/طبقات میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
– تین قسم کے طبقات
۱) اریسٹاکریسی (Aristocracy)
۲) فری مین یا ڈماس (Freeman/Demos)
۳) غلام (Slaves)
یعنی ایک وہ طبقہ تھا جس کو ارسٹوکریسی (Aristocracy) کہا جاتا ہے، جو غلاموں کے آقا تھے۔
جو دوسرا طبقہ تھا اسے Freeman یا یونانی زبان میں Demos کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو نہ خود غلام تھے اور نہ ان کے کوئی غلام تھے۔
ڈماس (Demos) کے نیچھے جو طبقہ تھا وہ غلام ہوا کرتے تھے، جو ارسٹوکریسی (Aristocracy) طبقے کے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔
تو اسپارٹا کے اندر تقریباً آدھے سے زیادہ لوگ غلام تھے اور وہ زرعی و گھریلو (Domestic) دونوں کام کیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایتھنز Athens میں اس سے بھی زیادہ غلام تھے مگر اسپارٹا اور ایتھنز میں فرق یہ تھا کہ ایتھنز میں demos کے پاس ایک نیوی (Navy) تھی جس میں فری لوگ (Demos) کام کیا کرتا کرتے تھے جو نہ غلام طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور نہ اریسٹوکریسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے چونکہ ڈماس (Demos) کا نیوی میں ایک اہم کردار تھا تو اس کے نتیجے میں ان کا سیاست اور ریاستی امور میں بھی ایک اہم کردار تھا۔
یاد رہے اسپارٹا اور ایتھنز کا جو سیاسی نظام تھا وہ بالکل مختلف تھا۔
اسپارٹا میں جو ارسٹوکریسی (آقا) والا طبقہ تھا وہ مکمل طور پر سیاست پر قابض تھا لیکن دوسری طرف ایتھنز میں ارسٹوکریسی اور ڈماس (Demos) کے درمیان ایک قسم کا سمجھوتہ تھا اور اس سمجھوتے کے نتیجے میں ہی پولیٹیکل سسٹم (Political system) کو ڈیموکریسی (Democracy) کہا جاتا تھا.
ڈیموکریسی (Democracy) اس لئے کہا جاتا ہے کہ ایتھنز کے لئے ڈماس (Demos) اہم تھے اور ان کا اہم کردار تھا۔
یہ بھی یاد رہے اس ڈیموکریسی (Democracy) میں غلاموں اور عورتوں کو کوئی کردار نہیں تھا اور نہ ان لوگوں کا کوئی کردار تھا جو یونان سے تعلق نہیں رکھتے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جو پورا غلام داری کا نظام تھا، اِس غلام داری نظام کا یونان (Greek) پر ایک بڑا ثقافتی اور نظریاتی اثر تھا وہ یہ کہ ہاتھ سے کام کرنے والے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، ان لوگوں کو بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جو تجارت کیا کرتے تھے یعنی حتٰی تجارت کو بھی غلامی سے منسلک کیا گیا تھا۔
صرف ان لوگوں کو زیادہ اچھا اور محترم سمجھا جاتا تھا جو دماغ سے کام کیا کرتے تھے جو دانشور تھے اور جو خالص فلاسفرز ہوا کرتے تھے۔
– لیکچرر: ڈاکٹر تیمور رحمان
– تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزی
____------_-_____
⚫مایکروفکشن
میری آنکھیں جاگ رہی ہیں 🔴
🎬احمد نعیم
دن حوصلہ بیچ کر، - رات تھکن بچھا کر -! جب میں خلوت کی بارش میں نہاتا تو ستارے پیدا ہوتے، میں اِن ستاروں کو اپنی آنکھوں پر ٹانک لیتا -! اِس لیے کہ جب میری آنکھیں ویران ہوجائیں تو اِن ستاروں کی چمک میرے سمت ِ سفر میں روشنی کا سامان ہوجائیں -
ستارے ٹوٹتے ہیں -______!!!!
میں سو رہا ہوں -
میری آنکھیں جاگ رہی ہیں
______میرے یار بند کردو اِن آنکھوں کو ⚫⚫
_______________31/12/2020
شب تین بجے
شاعر مظفر وارثی مرحوم
وہ نہ آئے تو ہوا بھی نہیں آیا کرتی
اس کی خوشبو بھی اکیلی نہیں آیا کرتی
ہم تو آنسو ہیں ہمیں خاک میں مل جانا ہے
میتوں کے لیے ڈولی نہیں آیا کرتی
بسترِ ہجر پہ سویا نہیں جاتا اکثر
نیند آتی تو ہے، گہری نہیں آیا کرتی
عَلیٰ الْاِعْلان کیا کرتا ہوں سچی باتیں
چور دروازے سے آندھی نہیں آیا کرتی
صرف رنگوں سے کبھی رس نہی ٹپکا کرتا
کاغذی پھول پہ تتلی نہیں آیا کرتی
عشق کرتے ہو تو آلودۂ شکوہ کیوں ہو
شہد کے لہجے میں تلخی نہیں آیا کرتی
موت نے یاد کیا ہے کہ مظفر اس نے
اپنی مرضی سے تو ہچکی نہیں آیا کرتی