کہتے ہیں کہ امیت شاہ چانکیہ ہیں !
امیت شاہ کے تعلق سے یہ تصور ، ان کے بھکت ، اور بی جے پی آئی ٹی سیل کا بنایا ہوا ہے ، ورنہ ساری دنیا جانتی ہے کہ امیت شاہ صرف موقع پرست ہیں ، دوسروں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی چالیں جھوٹ ، مکر ، فریب اور دھمکیوں پر مبنی ہوتی ہیں ۔ ہاں امیت شاہ کو ایک نقلی چانکیہ مانا جا سکتا ہے ۔ سوال ہے کہ پھر کون ہے سیاست کا اصلی چانکیہ ؟ اس سوال کا جواب کہیں بہت دور تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، یہیں مہاراشٹر میں ، انہیں ، جو سیاست کے حقیقی یا اصلی چانکیہ کی تلاش میں ہیں ، شردپوار کی شکل میں مذکورہ سوال کا جواب مل سکتا ہے ۔ پوار کی چانکیہ نیتی کی یوں تو انگنت مثالیں ہیں ، لیکن نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ( این سی پی ) کی صدارت سے استعفیٰ دینا اور پھر پارٹی ورکروں اور پارٹی لیڈروں کی ’ منّت سماجت ‘ پر استعفیٰ واپس لینا ، پوار کی چانکیہ نیتی کی تازہ ترین اور ایک ایسی مثال ہے ، جسے سیاسی حلقوں میں شردپوار کا ’ ماسٹر اسٹروک ‘ مانا جا رہا ہے ۔ شردپوار نے جب ، اپنی خود نوشت ’ لوک مازے سنگتی ‘ کی رونمائی کی تقریب میں اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا تھا ، تب سیاسی حلقوں میں ، ایک بھونچال آ گیا تھا ، یہ بھونچال اپوزیشن میں بھی تھا ، اور حکمراں سیاسی جماعت بی جے پی میں بھی ، اور خود ان کی اپنی جماعت این سی پی میں بھی ۔ عوام میں بھی اس اعلان کے اثرات تھے کہ لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ ، پوار سے یہ مطالبہ کرنے کے لیے امنڈ پڑی تھی ، کہ وہ استعفیٰ واپس لے لیں ۔ کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے تھے ، جیسے کہ بھلا ایک ایسے موقع پر جبکہ ان کی اپنی سیاسی پارٹی این سی پی میں ’ بغاوت ‘ جیسے حالات ہیں ، یا ایک ایسے موقعہ پر جب بی جے پی پوری طاقت کے ساتھ این سی پی کو توڑنے کی کوشش میں ہے ، یا ایک ایسے موقعہ پر جب اجیت دادا پوار ، جو ان کے حقیقی بھتیجے ہیں ، پارٹی پر قابض ہونے کے لیے مواقع تلاش رہے ہیں ، شردپوار نے استعفیٰ کا اعلان کیوں کیا ؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے ، کہ استعفیٰ کا اعلان مذکورہ سوالوں کے جواب کے لیے ہی تھا ۔ اپنے استعفیٰ کے فیصلے سے ، اول تو شردپوار نے پارٹی کو اپنی ’ طاقت ‘ کا ، اور پارٹی ورکروں کو اپنی ’ اہمیت ‘ کا ، اور پارٹی کے لیڈروں کو اپنی ’ ضرورت ‘ کا احسا س دلایا ، اور پھر استعفیٰ واپس لینے کا اعلان کر کے اس حقیقت پر ایک مُہر لگا دی کہ ، جب تک وہ حیات ہیں نہ انہیں کوئی قیادت سے ہٹا سکتا ہے ، نہ ہی اس بارے میں سوچ سکتا ہے ، اور نہ ہی اُن کے بغیر این سی پی کے لیڈران اپنی سیاسی اننگ لمبے عرصہ تک کھیل سکتے ہیں ۔ شرد پوار کا استعفیٰ کا اعلان ایک پیغام تھا اجیت دادا پوار کے لیے ، امیت شاہ کے لیے اور ان دوسرے لیڈروں یا سیاست دانوں کے لیے ، جو یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ این سی پی کو توڑ کر ’ مہا وکاس اگھاڑی ‘ کو توڑ دیں گے ، جیسے کہ دیویندر فڈنویس ۔ استعفیٰ کے اعلان سے قبل سیاسی گلیاروں میں زور و شور سے یہ ’ خبر ‘ گردش کر رہی تھی کہ اجیت دادا پوار جلد ہی اپنے کچھ ساتھیوں کو لے کر بی جے پی سے گٹھ جوڑ کر لیں گے ، اور ایکناتھ شندھے کو ، جو شیوسینا توڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے ، اور مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت گرا کر ، بی جے پی کے لیے حکومت میں واپسی کا ایک سہارا بنے ، کنارے لگا دیا جائے گا ۔ اس خبر کے ساتھ یہ خبر بھی گردش میں تھی کہ اجیت دادا پوار کا ، ساتھ این سی پی کے کئی لیڈر دیں گے ۔ یہ خبر یقیناً شردپوار نے نظرانداز نہیں کی ہوگی ، وہ ایک گھاگ سیاست داں ہیں ،کوئی ۶۳ سال کا ان کا سیاسی تجربہ ہے ، اپنے تجربے کی بنیاد پر انھوں نے حالات کو سمجھا ہوگا ، ان کے سامنے کئی سوال آئے ہوں گے ، کیا یہ پارٹی جسے انھوں نے بڑی جتن سے بنایا ہے ، ان کے ہاتھ سے اتنی آسانی سے نکل جائے گی؟ کیا واقعی اجیت دادا پوار ان کے ساتھ کھیل کھیلیں گے ؟ اور اگر این سی پی کے کچھ لیڈر بی جے پی سے مِل جاتے ہیں تو کیا انھیں بھی ادھوٹھاکرے جیسے حالات کا سامنا کرنا ہوگا ؟ پھر بیٹی سپریہ سولے کا کیا ہوگا ؟ پوار کے سامنے مزید سوال رہے ہوں گے ، کیا امیت شاہ انھیں سیاسی بساط پر مات دے دیں گے ؟ کیا دیویندر فڈنویس نے جو اتنے بڑے بڑے خواب دیکھ رکھے ہیں ، وہ این سی پی کے بکھراؤ کے نتیجہ میں سچ ثابت ہو جائیں گے ؟ شاید اِن سوالوں نے انھیں اس استعفیٰ والے ’ ماسٹر اسٹروک ‘ پر آمادہ کیا ہوگا ۔ ویسے اس ’ ماسٹر اسٹروک ‘ کا نتیجہ ایک گھاگ سیاست داں کی سوچ کے عین مطابق رہا ہے ۔ اجیت دادا پوار استعفیٰ واپسی کے اعلان کے بعد ’ غم ‘ میں ڈوبے نظر آ رہے ہیں ، وہ شردپوار کے خلاف کھل کر بغاوت نہیں کر سکتے کیونکہ انھیں پہلے بھی اندازہ تھا ، اور اب تو خوب اندازہ ہو گیا ہوگا ، کہ وہ نہ شردپوار کی ’ طاقت ‘ اور ’ اہمیت ‘ کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ، اپنے لیے ، ان کی ’ ضرورت ‘ سے منھ موڑ سکتے ہیں ۔ رہے دوسرے لیڈر جو ان کا ساتھ دینے پر تیار ہو سکتے تھے ، وہ ڈر گیے ہوں گے ، بی جے پی کے ساتھ جانا اب ان کے لیے ایک طرح سے ’ سیاسی خودکشی ‘ کے مترادف ہوگا ، ریاست کے اسمبلی الیکشن بہت دور نھیں ہیں ، پوار کیا ہاتھ ان کے سر سے ہٹا کہ وہ ڈوبے ! اس طرح پوار نے اپنی پارٹی کو بی جے پی کا مہرہ بننے سے بھی بچا لیا ہے اور ٹوٹ پھوٹ سے بھی ۔ یہ پیغام امیت شاہ کے لیے بھی ہے ۔ مہاراشٹر کی کمان امیت شاہ سنبھالے ہوئے ہیں ، فڈنویس ان کے دست راست ہیں یا یہ کہہ لیں کہ وہ امیت شاہ کے اشارے پر ناچنے والی کٹھ پتلی بن گیے ہیں ۔ شیوسینا کو توڑنے کے لیے فڈنویس نے ہر وہ کام کیا جو امیت شاہ نے ان سے کہا ، لیکن امیت شاہ کیا کھیل صرف شیو سینا کو توڑنا نھیں تھا ، وہ مہاوکاس اگھاڑی کو ختم کرنا چاہتے تھے ، اور اسی لیے انھوں نے این سی پی میں سیندھ لگائی تھی ، لیکن پوار نے ایک جھٹکے میں بازی پلٹ دی ۔ اب امیت شاہ تلملا رہے ہوں گے ، کیوکہ انھیں خوب پتہ ہے کہ اگر مہاراشٹر میں بی جے پی کو کامیاب ہونا ہے تو شندھے اس کے لیے نامناسب ہیں ، مناسب این سی پی یا کانگریس یا پھر ادھوٹھاکرے ہی ہیں ، وہ اسی لیے ہر پارٹی کو توڑ کر یہ کوشش کر رہے تھے کہ بی جے پی کو ایک مضبوط سایسی اتحادی مل جائے ، مگر اِس امید پر پوار نے پانی ڈال دیا ہے ۔ پوار سےامیت شاہ کوئی پہلی بار نھیں ہارے ہیں ، جب انھوں نے شیوسینا کو صاف جواب دے دیا تھا کہ وہ کسی شیوسینک کو وزیراعلیٰ نہیں بنا سکتے ، وزیراعلیٰ تو فڈنویس ہی بنیں گے ، تب انہیں یہ لگ رہا تھا کہ ادھو ٹھاکرے ہاتھ پیر ڈال دیں گے کہ شیوسینا کی ساکھ ایک ’ فرقہ پرست ‘ پارٹی کی ہے ، لیکن پوار نے اپنی این سی پی کو تو شیوسینا کے ساتھ کیا ہی کانگریس کو بھی اس بات پر راضی کر لیا اور مہاوکاس اگھاڑی کا قیام عمل میں آیا ۔ یہ امیت شاہ کی ایک بڑی شکست تھی ۔ پھر جب امیت شاہ نے کوشش کی کہ اجیت دادا کو توڑ لیں ، تب بھی پوار نے بازی پلٹ دی اور ایک ایسی حکومت گر گئی جس نے حلف تک لے لیا تھا ۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ امیت شاہ نے شیوسینا کو توڑ کر مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت گرا دی اور بی جے پی شندھے کی مدد سے حکومت میں آ گئی ، لیکن یہ ایک ایسی حکومت ہے جو بی جے پی کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے ، اس کی وجہ سے فڈنویس و شندھے کے تئیں لوگوں میں غصہ بھی پنپا ہے ۔ اور اب پھر نقلی چانکیہ کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے ، وہ اس بار بھی این سی پی کو توڑ نھیں سکے ہیں ۔ اس سارے معاملہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے کبھی بھی شندھے اور ان کے ساتھ بی جے پی سے ہاتھ ملانے والے ممبران اسمبلی کے بارے میں فیصلہ آسکتا ہے ۔ قانون کے واقف کاروں کا یہ ماننا ہے کہ یہ سب ڈِس کوالیفائی ہوں گے ، یعنی ان کی اسمبلی کی رکنیت چلی جائے گی ، ایسا ہوا تو یہ موجودہ حکومت پریشانی میں آجائے گی ۔ اس پریشانی کا حل امیت شاہ اور فڈنویس کو اجیت دادا پوار کی شکل میں نظر آ رہا تھا ، جس سے اب انھوں نے ہاتھ دھو لیا ہوگا ۔ سوال ہے کہ کیا دوبارہ مہاوکاس اگھاڑی یہ کوشش کرے گی کہ حکومت بنا لے ؟ شاید نہیں ، کیونکہ الیکشن دور نہیں ہیں ، اور چند دن حکومت کر کے اگھاڑی یہ نہیں چاہے گی کہ عوام کے سوالوں کے حصار میں آئے ، وہ یہ چاہے گی کہ یہی سرکار بنی رہے اور سارے اچھے و برے کاموں کا ٹھیکرا اسی کے سر پھوٹے ۔ مہاوکاس اگھاڑی کو اس کا آئندہ اسمبلی الیکشن میں فائدہ مل سکتا ہے ۔ تو یہ ہے شردپوار کا سیاسی کھیل ، اسی لیے وہ سیاست کے حقیقی چانکیہ مانے جاتے ہیں ۔ اب وہ پٹنہ کے لیے اڑنے والے ہیں جہاں نتیش کمار بی جے پی سے مقابلہ کے لیے ایک متحدہ اپوزیشن کے قیام کے لیے کوشاں ہیں ۔