البیرونی،ابن خلدون،ابن بطوطہ اور ہیون سانگ جیسے خوش نصیب سیاحیوں کے لئے تو سفر وسیلہ ظفر ثابت ہوا پر ہم جیسے کم نصیبوں کے لئے تو ہمیشہ دوسری مثل ہی صادق آئی۔
ہمارے خیال میں گھر اور سفر ایک دوسرے کی معنوی ضد ہیں۔گھر میں جس قدر آرام ہے،سفر میں اسی قدر مشکلات، تکالیف اور آلام ہیں۔ سفر کے لئےگھر سے قدم باہر نکالیں اور دیکھیں۔۔۔ کوئی چیز اپنی مرضی کے مطابق نہیں، اٹھنا، بیٹھنا،سونا۔کھانا ،پینا ہر کام اپنی مرضی کے خلاف ہوگا۔سفر کار سےہو،بس کا،ریل کا ہو یا ہوائی جہازکا۔۔ آرام کا خیال محال ہے۔
سفر کسی منزل کے لئےکیا جاتا ہے.بہت سے سفر ایسے بھی ہیں جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔
حقیقی سفر کے علاوہ بہت سے معنوی سفر بھی ہیں۔
بچہ جب اسکول جانے کے لائق ہوتا ہے تو اس کا تعلیمی سفر شروع ہوتا ہے۔تعلیمی سفر انسان کی زندگی کا سب سے سہانہ اور یادگار سفر ہوتا جسے انسان تادم مرگ نہیں بھولتا۔اسکول کے اساتذہ،اسکول کے دوست اور اسکول کی یادیں انسان کے ذہن میں ہمیشہ محفوظ ہوتی ہیں۔جو وقتاً فوقتاً سامنے آتی ہیں۔تعلمی سفر کی ایک منزل ہوتی ہے جہاں پہنچنے کے بعد تمام لوگ نئی منزلوں کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔
اسکول کے سفر کے ساتھ ہی مطالعہ اور نظریہ کا سفر شروع ہوتا ہے۔جو مسافر مطالعے کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں وہ تا حیات حالت سفر میں ہوتے ہیں،اس سفر کی کوئی آخری منزل نہیں۔۔۔۔ ہاں سمت سفر اور منزل بدلتے رہتی ہے۔
آپ جانتے ہیں دنیا میں پہلا سفر کس نے کیا؟حضرت آدم علیہ السلام نے,باغ بہشت سے اس دنیا کا۔بقول علامہ اقبال۔۔۔
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
تب سے انسان مسلسل سفر میں ہے۔بس سفر کی نوعیت اور مقاصد بدلتے رہتے ہیں۔کبھی تعلیم کے لئے،کبھی تجارت کے لئے،کبھی سماجی کاموں کے لئے،کبھی عبادت کے لئے،کبھی سیر وتفریح کے لئے۔
زندگی خود ایک سفر ہے۔جو پیدائش سے شروع ہو کر موت پر ختم ہوتا ہے۔قبر،عالم برزخ،میدان حشر اس کی منزلیں ہیں۔جنت یا جہنم اس سفر کی آخری منزل ہے۔یہ ایسا سفر ہے جسے چار وناچار ہر کسی طےکو کرنا ہی ہے۔اس سفر میں نہ کوئی ساتھی ہے نہ ہم سفر۔ہاں نیک اعمال ذاد سفر ضرور ہیں۔جسے انسان پہلے سے ہی آگے بھیجتا رہتا ہے۔آخرت کے سفر کی تیاری اس دنیا میں پوری زندگی کرنا ہوتی ہے۔یہ سفر ہر انسان کو کرنا ہے مگر اکثر لوگ اس کی تیاری سے غافل ہیں۔