حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرتِ مدینہ سے بیس برس قبل مکہ میں قریش کے ایک مشہور قبیلہ بنی مخزوم میں ولید بن مغیرہ کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ بچپن سے ہی ذہین، نڈر اور بہادر تھے۔ گھوڑ سواری، تیزاندازی، تلوار کے کرتب اور نیزہ بازی میں کمال حاصل تھا، یعنی آپ فطرتاً جنگی قابلیت کے مالک تھے۔ اسلام لانے سے قبل قریش کے
فوجی کیمپ کا انتظام آپ ہی کے سپرد تھا۔ غزوۂ احد میں آپ نے عقب سے حملہ کرکے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا تھا۔
آپ کے بھائی ولید بن ولید نے، جو مسلمان ہوچکے تھے اور مدینہ میں مقیم تھے، آپ کو خط لکھ کر اسلام کی دعوت دی، جس کو قبول کرتے ہوئے حضرت خالد بن ولید نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا، اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور پھر اسلام کی خاطر لڑنے والے حضرت خالد بن ولید اسلام کے عظیم جرنیل بن گئے۔ اسی سال یعنی سنہ۸ھ میں جنگ موتہ لڑی گئی، اسلامی لشکر میں آپ ایک عام سپاہی کی حیثیت سے شامل ہوئے،
یعنی اسلام کے دفاع میں آپ کی یہ پہلی جنگ تھی۔ اس جنگ میں اسلامی سپاہ کے تین سالار حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم شہید ہوئے۔ ان حضرات کی شہادت کے بعد حضرت ثابت بن ارقم انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی پرچم اُٹھاکر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کردیا، اس طرح آپ اسلامی فوج کے سپہ سالار مقرر ہوئے۔ آپ میں بلا کی پھرتی تھی، خطابت کے شہسوار تھے، مسلمانوں کو جوش دِلاکر دشمنوں پر حملہ کردیا۔ پھر اس دن آپ نے ایسی جنگ لڑی کہ آپ کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں۔ (صحیح بخاری)
دوسرے دن دونوں فوجیں جب صف آراء ہوئیں تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوج کی ترتیب بدل دی۔ اس نئی ترتیب سے دشمن کو یہ تاثر ملا کہ مسلمانوں کی نئی کمک آگئی ہے۔ جنگ شروع ہوتے ہی آپ نے دشمن پر ایسا زوردار حملہ کیا کہ دشمن کو میدانِ جنگ سے بھاگنا پڑا۔ دشمن کی فوج جب پیچھے ہٹنے لگی تو آپ نے اس کا تعاقب کرکے اپنی جنگی فراست کا ثبوت دیا۔ اس جنگ کا مقصد پورا ہوچکا تھا اور دشمن کو سفیر اسلام حضرت حارث بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ دشمن فوج کی تعداد ایک لاکھ تھی، جب کہ مجاہدینِ اسلام کی تعداد صرف تین ہزار تھی، لیکن حضرت خالد بن ولید اپنی فوج کو جنگی حکمت عملی سے بچاکر مدینہ منورہ واپس لے گئے۔ دنیا کے جنگی ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ اتنی گھمسان کی جنگ میں صرف بارہ مسلمان شہید ہوئے، جب کہ دشمن کے ہزاروں جنگجو لقمۂ اجل بنے۔ اسی جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب عطا فرمایا۔
فتح مکہ کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکر کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا اور تینوں کے علحدہ علحدہ سالار مقرر کئے۔ ایک دستہ کے سالار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ تینوں دستے الگ الگ راستوں سے مکہ میں داخل ہوئے۔ اسی دوران قریش کے ایک گروہ نے حضرت خالد بن ولید کے زیر کمان دستہ پر تیر برسا دیئے، جس سے دو مسلمان شہید ہو گئے۔ لیکن جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوابی حملہ کیا تو کفار اپنی تیرہ لاشیں چھوڑکر بھاگ کھڑے ہوئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنوکنانہ کا بت عزیٰ کو توڑنے کے لئے روانہ فرمایا، پھر آپ کو بنی خزیمہ میں تبلیغ کے لئے روانہ کیا، اس طرح آپ کی کوششوں سے بہت سے مشرکین مشرف بہ اسلام ہوئے۔
غزوۂ حنین میں مقدمۃ الجیش کی کمان آپ کے سپرد تھی۔ گھاٹی میں چھپے ہوئے بنو ثقیف اور بنو ہوازن نے اچانک حملہ کردیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر منتشر اسلامی لشکر اکٹھا ہوا، اس کے بعد مسلمانوں نے جنگ پر قابو پالیا۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خالد بن ولید نظر نہ آئے تو آپﷺ کو بڑی فکر ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت خالد بن ولید کو تلاش کر رہے تھے، اسی دوران آپﷺ نے دیکھا کہ خالد لہولہان ہوکر گرپڑے ہیں۔ آپﷺ جب حضرت خالد بن ولید کے قریب پہنچے تو وہ اپنے زخموں کو بھول گئے اور حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی صحت یابی کے لئے دعا فرمائی۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زندگی میں تقریباً ایک سو پچاس جنگوں میں حصہ لیا۔ آپ کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا، جس پر زخموں کے نشان نہ ہوں۔ آپ کی تمام عمر یہ خواہش رہی کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہوا شہید ہو جاؤں، لیکن آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی، یعنی آپ نے بستر علالت پر وفات پائی۔