٭ماتھے کی آنکھوں سے٭
(سلسلہ نمبر 4)
گذشتہ دنوں پڑوسی شہر دھولیہ میں نکاح کی مجلس میں جانا ہوا ۔
دعوت نامے میں عشاء بعد نکاح کا وقت لکھا ہوا تھا ، اور ہم لوگ عشاء کی جماعت کے فوراً بعد پہنچے ، پہنچتے ہی ایک دوست نے کہاکہ ہم لوگ دیر پر پہنچے شاید نکاح کی مجلس نہ مل پائے ،
ہم لوگوں نے نماز عشاء ادا کی اور جب شامیانے ( شادی کے منڈپ ) میں پہنچے تو وہاں پر ابھی مہمانوں کا آنا شروع ہوا تھا کم و بیش ایک گھنٹہ بعد بارات روانہ ہوئی گھر کے پاس دولہے کے دوستوں اور مقامی نوجوان لڑکوں نے پٹاخے ستھلی بم پھوڑ کر خوشی کا اظہار کیا ۔
لیکن وڑجئی روڈ پر آتے ہی نوجوانوں کا ایک گروپ بلٹ اور دیگر ٹو وھیلر گاڑیوں کے ہارن سائلنسر سے بے تحاشہ آواز پیدا کرتے ہوئے ادیواسی جنگلی قبائلیوں کے جیسے ، او ، او ، او ، او جیسی آوازیں نکالتے ، بم پھوڑتے ، آگ کا سیلینڈر ہاتھوں میں لہراتے ، دیوانہ وار شور مچاتے ہوئے رات گیارہ بجے مسجد پہنچے ، امام صاحب نے بھی چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق پانچ سے دس منٹ میں نکاح پڑھایا اور باراتیوں اور دولہے میاں کو رخصت کردیا نہ نکاح کے فضائل و برکات بیان کئے نہ نکاح جیسی عظیم سنت سے شہد کی مکھیوں کی طرح چمٹی ہوئی برائیوں کو اجاگر کرکے ان برائیوں کو ختم کرنے کا درس دیا ، نہ واعظ و نصیحت کی۔
بیچارے امام صاحب کرتے بھی کیا آدھی رات کو نکاح پڑھا کر پھر صبح پانچ بجے فجر میں آنے کی فکر ان کو ستارہی ہوگی کیونکہ وہ جانتے ہیں یہی مسلمان جو آدھی رات کو اخلاقیات کی ساری حدوں کو پار کرکے نکاح کی سنت ادا کرنے مسجد میں پہنچے ہیں اگر ہم فجر میں دو پانچ منٹ بھی اذان جماعت میں لیٹ ہوجائے گے تو یہی نام نہاد مسلمان ظہر میں ہم سے باز پرس کرنے پہنچ جائے گے ،
کیا امام صاحب فجر میں آنکھ نہیں کھلی تھی کیا ?
اتنی دیر کیسے لگادئیے ?
نماز کا وقت ختم ہونے پر تھا جب اذان دئیے ?
خیر بارات وہاں سے نکلی دوسری مسجد کی جانب وہی ہوڑ ہپاڑ کرتے ہوئے روانہ ہوئی چونکہ دو لوگوں کا الگ الگ مسجد میں نکاح تھا اب تو رات کے بارہ بجنے میں کچھ وقت رہ گیا تھا نوجوان باراتی اپنی دھن میں مست شور مچاتے ہوئے دوسری مسجد پہنچے میں یہ منظر دیکھ کر ہمارے یہاں کے معاشرے کی باالخصوص شادی میں ختم ہوتی خرافات کی تعریف کرتے ہوئے ہمراہ دوست سے کہنے لگے کہ اپنا مالیگاؤں بہت بہتر ہے اس معاملے میں الحمدللہ ۔
اس مرتبہ میں مسجد کے باہر ہی کھڑے ہوگیا ۔ پاس ہی کھڑے تین بزرگوں کو میں نے سلام کیا اور ان کا مزاج بھانپنے کے فوراً بعد بارات کی خرافات سے متعلق سوال داغا
میں : یہ رات کے نکاح کا رواج صرف متوسط غریب کم پڑھے لکھے طبقے میں موجود ہے یا پھر پورے دھولیہ شہر میں یہی رواج ہے ۔
ایک بزرگ جو میرے سوال کا مقصد سمجھ گئے تھے انہوں نے وضاحتی انداز میں کہاکہ
یہ رواج پورے مسلم سماج امیر غریب ، پڑھے لکھے ان پڑھ سب میں یکساں رائج ہے ، ہاں برادران وطن دن ہی میں بارات نکالتے ہیں ۔
میں: دیر رات کو بارات کے ہنگامے سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہیں اس پر کوئی منع نہیں کرتا ہے ۔
تینوں بزرگ ایک ساتھ : منع کرتے ہیں مگر نوجوان کسی کی سنتے کہاں ہے ۔
میں : یہاں سرداری نظام چلتا ہے ، سرداروں کے بغیر کوئی شادی نہیں ہوتی تو کیا آدھی رات کو یہ پٹاخے بازی ڈھول تاشے تماشے ہول ہپاڑ پر روک نہیں لگا سکتے ۔
میں نے پوچھا کیوں نہیں مانتے ۔
تو کہنے لگے کہ چند سرداران مل کر نکاح اور شادی کی اگوائی کرتے ہیں جس سے انہیں ہزار پندرہ سو روپئے کی رقم نذرانے کے طور پر مل جاتی ہے جو وہ آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں اگر سرداران زیادہ دباؤ بنائے گے تو لوگ انہیں بڑا پن نہیں دے گے اس طرح ان کو وہ چند روپئے جو نذرانے کے طور پر مل جاتے ہیں نہیں ملے پائے گے ۔
میں نے کہاں کہ یہ جو گناہ ان کے سر چڑھ رہا ہے آدھی رات کو ان کی ہول ہپاڑ سے کتنے مریضوں ، چھوٹے بچوں ، اسکولی طلباء و طالبات ، اور سونے والے عام شہریان کو کتنی تکلیف کتنا خلل پڑتا ہوگا ان تمام لوگوں کی آہ سب ان سرداران کے سر جاتی ہیں اور اللہ کے حضور بھی منہ دکھانا ہے ، یہاں کے تھوڑے سے منافع کیلئے آخرت کا خسارے کا سودا کررہے ہیں اس سے بہتر ہے کہ سرداران کو سرداری سے دستبردار ہوجانا چاہئے اور اہلیان شہر کو اس خرافات پر قدغن لگانے میں پہل کرنا چاہئے ۔