زاہد بھائی صاحب، میرے والد کے قریبی شناسا اور دوستوں میں تھے، آپ سے میری پہچان
2015 میں ہوئی تھی اور نہایت ہی مختصر عرصہ میں، میں جان گئی تھی کہ زاہد بھائی ایک بے انتہا مخلص اور سماج کے ہمدرد انسان تھے.
ان کے وصال کی خبر نے مجھے ٹراما کی کیفیت سے گزرنے پر مجبور کیا، مجھے کئی دن تک یقین نہیں ہوا کہ کل تک جو شخص مجھے وومن ہائی کمیشن، مائناریٹی اسکیم نیز اسکالر شپ کے بارے میں متعدد بار سمجھا رہا تھا، وہ اب ہم میں نہیں، آپ کی تعزیتی نشست میں میں کچھ بھی نا کہہ سکی.
زاہد بھائی صاحب، نے ہمیشہ مجھے اپنی چھوٹی بہن کا درجہ دیا اور بہت حوصلہ دیا، لکھنے کی ترغیب دی اور کھل کر تحریروں پر حوصلہ افزائی کی،
سماج شاید یہ نا جانتا ہو کہ کئی ایسے طلباء گزرے ہیں جن کی پڑھائی کی پوری ذمہ داری برادر، زاہد بھائی نے نبھائی،
مجھے کسی طالب علم یا طالبہ کا پتہ چلتا، میں انہیں آگاہ کرتی
کہتی، زاہد بھائی ایک جگہ دسویں کی کتابیں چاہئے،
جواب ملتا، "ایڈرس بھیجو"
کبھی کہتی، بھیا، ایک جگہ یونیفارم اور بستہ نیز راشن کی ضرورت ہے
کہتے، "سمجھو پہنچ گیا"
اور واقعی پہنچ جاتا
کسی غریب فیمیلی کی عید ہوتی زا ہد بھائی کسی کو خبر کئے بنا، غریب بچوں کو عید کے کپڑے، چپل، سوئیاں دلاتے
اور صدقہ و خیرات کا انتظام کرتے اور ہمیشہ کہتے، *اللہ میرے بچوں کو سدا سلامت رکھے*(آمین)
چھ مہینے سال بھر میں کبھی زاہد بھائی صاحب سے ملاقات ہوتی، کبھی آرٹیکل پر تبادلہ خیال ہوتے، کبھی اخبارات کے کور پیج سیٹ ہوتے، کبھی عید نمبر کے سرورق وہ خوشی خوشی دکھاتے، راۓ طلب کرتے اور میں چنندہ ڈیزائن سے کسی ایک کو اوکے کرتی
کبھی اخبار میں اشتہار دے کر پیسے نا دینے والوں کا حساب کاؤنٹ ہوتا، زاہد بھائی حساب کر کے بہت ہنستے، کہتے میرے اخبار کا دیوالیہ نکل جاۓ گا، سال سال بھر لوگ بنا پیسے کے اشتہار لگوا لیتے ہیں
ساجد مجھے پھپھو کہتا دوڑ کر چاۓ لاتا،
آدھے گھنٹے کی مختصر گفتگو، سیر حاصل ہوتی، سارے جہان کا نالج سمیٹ کر میں آتی، اور ان کے مشوروں کی روشنی میں، آگے کا لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا.
مجھے یاد نہیں کہ زاہد بھائی صاحب کے در سے کوئی سوالی خالی ہاتھ گیا ہو،
وہ ایک بے انتہا مخلص اور ہمدرد انسان تھے.
*زاہد بھائی کی ایک خواہش تھی وہ کہتے، شگفتہ صرف ایک کام کرو، دیوان عام چاہتا ہے کہ مالیگاؤں کی اعلٰی ظرف اور باحوصلہ خواتین کا پورا نمبر شائع ہو، میں چاہتا ہوں یہ انٹرویو تم ڈیزائن کرو*
ہم لوگ اس سال اسی کام میں مصروف تھے، سماج میں بہترین کارہاۓ نمایاں انجام دینے والی خواتین پر گفت و شنید کے سلسلے دراز تھے، ایڈرس اور کانٹیکٹ انفو کلیکشن شروع تھے، وہ دس بار پوچھتے تمہیں اگر مناسب لگے تو ہی ان خاتون کا انٹرویو لو ورنہ تم خود سرچ کر لو کسی کو، میں نام جمع ہی کررہی تھی
اور درمیان میں یہ روح فرسا خبر نے مجھے کئی دنوں تک مغموم رکھا، جب حواس بحال ہوۓ تو احساس ہوا کہ *دنیاۓ صحافت کا ایک روشن ستارہ ماند ہوا اور کئی نگری بجھا گیا*
ایک مرتبہ دو سال قبل بھیونڈی میں فی البدیہہ اساتذہ کا تقریری مقابلہ تھا، میں نے وہ پروگرام دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور ان سے کہا، زاہد بھائی میں وہ مقابلہ دیکھنا چاہتی ہوں، ایڈرس بھیجئے پلیز
میں جب بھیونڈی صمد ہائی اسکول میں مسابقہ دیکھنے پہنچی تو کسی کو بھی نہیں جانتی تھی، سب سے پیچھے کی سیٹ پر جا کرچپ چاپ بیٹھ گئی
اچانک
پروگرام شروع ہوتے ہی میرے نام کا باقاعدہ اناؤنسمنٹ ہوا، اور نہایت ہی احترام کے ساتھ میرا تعارف پیش کیا تھا،مجھے مہمان خاص کی سیٹ آفر کی گئی اور گل پیشی کے ساتھ ہی مہمان نوازی میں کوئی کسر نا چھوڑی گئی
اور بھیونڈی کی خواتین کے ساتھ بہت ہی اچھا وقت گزار کر بہت سی شفقتیں سمیٹ کر میں مالیگاؤں لوٹی،
مجھے پورا یقین تھا کہ اس کے پیچھے زاہد بھائی تھے، جب ان سے پوچھا تو کہا، *شہر مالیگاؤں کی تم واحد قلمکار ہو جو سماج کے سلگتے مسائل پر لکھتی ہو شگفتہ، بیٹا تمہارا قلم چیختا ہے میں چاہتا ہوں تم لکھو اور لکھ لکھ کر سماج میں اپنا نام قائم کرو ، تمہاری طرح میرے شہر کی کوئی بچی کسی دوسرے شہر جاۓ تو میں چاہتا ہوں اس کے احترام میں کوئی کمی نا رہے*
کبھی غریب بچوں کے کھانے کا انتظام کرتے
کبھی کسی کی اسکول فیس معاف کرواتے
جب میں پوچھتی بھیا، فلاں فلاں مقالہ نگار اچھا لکھ رہی ہیں
تو کہتے *تم ایسے دس مقالےلکھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈالتی ہو* ، کچھ لوگ سماج میں منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں، لیکن سماج کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اس کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھے بغیر اس کا حل فراہم کرے. سماج میں ہیرو پیدا نہیں ہوتے، وہ اپنی لگن سے ہیرو بنتے ہیں
زاہد بھائی صاحب، ایک ایسا صحافی تھا، جو والدین کا بے حد فرمانبردار، اولادوں کی آنکھوں کا تارا، بہنوں کا مان اور بیٹیوں کیلئے سایہ ء شفقت تھا وہیں دوستوں کیلئے ایک خوش مزاج شخص تھا
تیور تو ایسے تھے کہ جو کام کرنے کا بیڑہ اٹھایا جاتا اسے تکمیل تک پہنچایا جاتا.
کم عرصہ میں دیوان عام نے بڑی شہرت حاصل کی
وہ اردو ادب کے دلدادہ تھے لیکن مجھے ہمیشہ کہتے، *مراٹھی کی جانب توجہ دو، مراٹھی سرکاری زبان ہے*
مجھے افسوس ہے آپ کی زندگی میں آپ نے جو خواتین نمبر کی ذمہ داری مجھے سونپی تھی وہ میری مصروفیات کے سبب پایہء تکمیل تک نا پہنچ سکی
لیکن ان شاء اللہ، آپ کے اس خواب کو اختتامی پیراۓ تک ضرور پہنچایا جاۓ گا،آپ کا وصال صحافی طبقے کا ایک بڑا قیمتی خسارا ہے جس کی بھرپائی نا ممکن ہے.
دعاگو ہوں
اللہ رب العزت، برادر زاہد دیوان ( جنہیں مرحوم لکھتے قلم ساتھ نہیں دے رہا) کو جنت الفردوس کے اعلیٰ درجات سے سرفراز کرے
اور فرزندان کو ہمیشہ ان کے خوابوں اور نیک ارادوں کو پورا کرنے کی ہدایت و توفیق عطا فرماۓ، آمین
*نذر زاہد بھائی صاحب*
ہمارے بعد کوئی چاند
پھر نہ چمکے گا
ہمارے بعد کہیں روشنی نہیں ہوگی....
جلا سکو تو جلالو
اندھیری راتوں میں،
ہمارے بعد... چراغوں
کی لو بجھی ہوگی، ،
شگفتہ ہم سے سنورتی تھی کائنات ابھی
ہمارے بعد کی دنیا
بجھی بجھی ہوگی.....!
▪️▪️
مکالماتی مائکروف :-
مائکروف # نمبر 4
مصنفہ : زادی زیب
|||||||||||||||||| دیوار پر ٹنگا چوہا ||||||||||||||||||||
"مجھے غصہ آرہا ہے۔"
"مجھ پر؟"
"اففوہ ۔۔۔ آپ بھی نا ۔۔۔ خود کو بیچ میں لے آتے ہیں ہر بات میں۔"
"اچھا ۔۔۔ یعنی کوٸی اور بھی ہے؟"
"اتنے بھولے نہ بنیں ۔۔۔ آپ کو پتہ ہے میں کس کی بات کررہی ہوں۔"
"ہمم ۔۔۔۔ کوٸی بات ہوٸی کیا؟"
"بات کیا ہونی ۔۔۔ اپنی تو جان کو روگ لگ گیا۔"
"کیوں ؟ آپ تو اپنی ساری باجیوں ، آپاٶں اور سہیلیوں کو چھوڑ کر بہو لاٸی تھیں ۔۔۔ اب کیا ہوا؟"
"عقل پر پتھر پڑ گٸے تھے ۔۔۔۔۔۔ اُسے تو حجرے سے نکلنا نصیب نہیں ہوتا۔"
"ہمم ۔۔۔۔ عقل پر پتھر پڑنا بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔۔۔۔ اسے آسمانی فیصلہ سمجھیں۔"
"خود کو نہ جانے کیا سمجھتی ہے۔"
"آخر مسٸلہ کیا ہے؟"
"مسٸلہ کیا ہونا ۔۔۔۔ سسرال کے اطوار برتنے میں بھلا کیا براٸی ۔۔۔۔ مگر وہ تو پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتی۔"
"ہمم ۔۔۔۔۔ کہیں آپ کے کان ” امی جی, امی جی “ کی گردان تو سننا نہیں چاہتے؟"
"اونہہ ۔۔۔۔۔ میرا بس چلے تو اس کا منہ نوچ لوں۔"
" ارے بیگم ۔۔۔ خوفِ خدا کریں ۔۔۔ آپ کا غصہ تو آدم خوری کی حد کو چھورہا ہے۔"
"بس کردیں آپ ۔۔۔۔ اُس کا جادو آپ پر بھی چڑھ گیا ہے ۔۔۔۔ ہے ہی جادوگرنی ۔۔۔ اشرف کو دیکھو ۔۔۔ کیسے اُسے دیکھ کر باچھیں کِھلی پڑتی ہیں اُس کی ۔۔۔۔۔۔ زن مُرید کہِیں کا!"
”زن مُرید ۔۔۔۔صدقے ۔۔۔۔ ہماری پیش بینی یہ دیکھ رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہی بتیسی گھگی میں بدل جاٸے گی ۔۔۔۔۔ قسمے۔"
"دیکھیے بہت ہوگیا۔۔۔"
"ناراض کیوں ہوتی ہو ۔۔۔۔ رکو ۔۔۔ ہممم ۔۔۔ یہ لو۔۔"
"ہیں ۔۔۔۔ میں اس کا کیا کروں؟"
"ارے لو تو سہی ۔۔۔ دیکھو کیا من موہنی صورت ہے فوٹو والی کی۔"
"ایک تو آپ کے یہ چونچلے ۔۔۔۔ یہ کون سی تھراپی کرنے چلے اب؟"
"آپ اسے اپنا مفعول تصور کریں ۔۔۔ یہ قلم لیں اور اس پر اپنے شوق آزماٸیں۔"
"ہیں ۔۔۔ یں ۔۔۔۔ "
"جی ۔۔۔ یہ ٹوٹکا عامل بابا کے چکر سے بہرحال بہتر ہے۔"
"یہ لیں ۔۔۔۔ ٹھیک؟"
"ہمم ۔۔۔ آپ نے اس مسکراتے چہرے کو نفی کے خطوط سے اُدھیڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ ردّ و تنسیخ کی اس مشق کے بعد آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوا ۔۔۔۔؟"
"پتہ نہیں ۔۔۔ آپ بھی ۔۔۔ بات کو کہاں لے جاتے ہیں۔"
"بیگم ۔۔۔۔۔ غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ اس لیے کبھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوتا۔"
"تو پھر آپ بتاٸیں ۔۔۔۔ میں اس سوختگی کا کیا کروں؟"
"اتنا غصہ کرنا بالکل ایسے ہے جیسے زندہ چوہے کی دُم پر کِیل ٹھونک کر اُسے دیوار پر لٹکانا ۔۔۔۔۔ اب اس ٹھوکا ٹھاکی میں ہاتھ گیا یا پاؤں ۔۔۔۔ اور چوہے کی رنجہ فرماٸی الگ۔"
"غصہ تو ہے نا ۔۔۔۔ اس کے ہونے سے انکار کیسےممکن؟"
"جی بالکل ۔۔۔۔ ہم نے کب انکار کیا ۔۔۔۔۔ بظاہر بے سروپا غصہ کہیں اندر کی بنیاد سے ظہور کرتا ہے۔"
"ہیں ۔۔۔۔۔ یں "
"دراصل جب کعبے کے بُت ٹوٹتے ہیں تو انا پرست یوں ہی چراغ پا ہوتے ہیں۔"
"ہیں جی ۔۔۔۔۔"
"جی ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک سبب ہے "
"اچھا۔۔۔۔۔ اور دوسرا کیا ہے؟"
"دوسرا یہ کہ ہر انسان کا اپنا ایک مرکز ہوتا ہے، جہاں سے وہ جاری ہوتا اور جاری رہتا ہے۔"
"اففوہ ۔۔۔۔ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔"
"میں یہ عرض کررہا ہوں کہ آپ اپنے قبلے پر راضی رہیے اور بہو کے مرکز کو بھی تسلیم کر لیجیے۔"
"اونہہ ۔۔۔اپنا فلسفہ آپ ہی جانیں ۔۔۔ مجھے نہ سمجھاٸیں۔"
"ہمم ۔۔۔۔ ٹھیک ۔۔۔ ٹھیک ۔۔۔۔۔ ارررررر۔۔۔۔۔۔۔۔"
"کیوں جی کیا ہوا؟ کیوں اُچھل گٸے؟؟"
"ہمم کچھ نہیں ۔۔۔ مجھے لگا ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ جیسے چوہا ۔۔۔۔ شاید ۔۔۔۔ ہمم۔۔۔ "
____________
پیچیدگی، ابہام اور دانشوری
🔴انس معین
دانشور کہلانے والو!
تُم کیا سمجھو؟
مُبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں؟
تھل کے رِیگستان مِیں رہنے والے لوگو!
تُم کیا جانو؟
ساون کیا ہے؟
اَپنے بَدَن کو
رَات مِیں اَندھی تاریکی سے
دِن مِیں خُود اَپنے ہاتھوں سے
ڈھانپنے والو
عُریاں لوگو!
تُم کیا جانو؟
چولی کیا ہے، دَامن کیا ہے؟
شہر بَدَر ہوجانے والو!
فُٹ پاتھوں پر سونے والو!
تُم کیا سمجھو
چھت کیا ہے، دیواریں کیا ہیں
آنگن کیا ہے؟
اِک لڑکی کا خزاں رسیدہ بازُو تھامے
نَبض کے اُوپر ہاتھ جمائے
اِیک صَدا پر کان لگائے
دھڑکن، سانسیں گننے والو!
تُم کیا جانو؟
مُبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں؟
دھڑکن کیا ہے، جیون کیا ہے؟
سَترہ نمبر کے بِستر پر
اَپنی قید کا لمحہ لمحہ گننے والی
یہ لڑکی جو
برسوں کی بیمار نظر آتی ہے تُم کو
سولہ سال کی اِک بیوہ ہے
ہنستے ہنستے رو پڑتی ہے
اَندر تک بھیگ چُکی ہے
جان چُکی ہے
ساون کیا ہے؟
اس سے پُوچھو
کانچ کا بَرتن کیا ہوتا ہے؟
کچّا بندھن کیا ہوتا ہے؟
چولی، دَامن کیا ہوتا ہے؟
اس سے پُوچھو
مُبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں؟
سُونا آنگن، تنہا جیون کیا ہوتا ہے؟
آنِسؔ مُعین
غزل
فلک سے کوئی ستارہ گرے تو رک جاؤں
اداس پیڑ کا پتہ ہلے تو رک جاؤں
تھکن سے چور ہوں جاری ہے زندگی کا سفر
زرا سی دیر کو رستہ رکے تو رک جاؤں
کسی کے ساتھ میں چلنا ہے میرا طئے لیکن
کسی کے واسطے رکنا پڑے تو رک جاؤں
قدم سے لپٹا ہوا ہے مسافرت کا جنوں
یہ کیسے ہو کوئی روکے مجھے تو رک جاؤں
میں بزم یار سے نکلا تو سوچ کر نکلا
کوئی خلوص سے آواز دے تو رک جاؤں
وہ جھولے میلے وہ بچپن کی یاد تازہ ہو
کہیں پہ راہ میں سرور ملے تو رک جاؤں
رفیق سرور