سترہ دنوں میں فلم ’ دی کیرالا اسٹوری ‘ نے 198 کروڑ روپیے کما لیے ہیں ! یہ فلم صرف تیس کروڑ روپیے کی لاگت سے بنائی گئی تھی ، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس فلم کا منافع 550 فیصد ہوا ہے ! یہ اعداد و شمار دو باتیں سامنے لاتے ہیں ، ایک تو یہ کہ ’ نفرت ‘ ایک زبردست کاروبار ہے ، اور دوسرا یہ کہ اگر ’ نفرت ‘ کے کاروبار کی بنیاد اسلاموفوبیا کی بنیاد پر رکھی جائے ، تو چھپّر پھاڑ کمائی ممکن ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ لوگ ’ نفرت ‘ کی بنیاد پر بنی فلموں کو دیکھنا پسند کرتے ہیں ، اور اپنی اس پسند کے نتیجے میں فلم سازوں کو مزید حوصلہ فراہم کرتے ہیں کہ وہ ’ دی کیرالہ اسٹوری ‘ جیسی فلمیں بنائیں ، حقائق کو مسخ کریں اور اپنی جیبیں دولت سے بھر لیں ۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب ’ نفرت ‘ کو فلمی دنیا نے کاروبار بنایا ہے ، لوگ ابھی بھی فلم ’ دی کشمر فائلز ‘ کو بھول نہیں سکے ہیں ، جو کشمیری مسلمانوں کو انتہا پسند ، دہشت گرد ، ہندو کُش ثابت کرنے کے لیے تمام انتہاؤں کو پار کر گئی تھی ۔ لوگوں کو خوب یاد ہوگا کہ وویک اگنی ہوتری کی فلم نے ملک بھر میں کشمیریوں کے خلاف ، اور اسی بہانے عام مسلمانوں کے خلاف ، ایک ایسی فضا قائم کی تھی کہ کئی جگہ تشدد پھوٹ پڑا تھا اور تھیٹروں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرے نعرے لگائے گئے تھے ۔ وہ فلم محض 25 کروڑ روپیے کی لاگت سے بنائی گئی تھی ، لیکن اس نے 341 کروڑ روپیے سے زائد منافع کمایا تھا ۔ فلم حقیقت سے کوسوں دور تھی ، ایک مخصوص نظریے کو بنیاد بنا کر سارے کشمیری مسلمانوں کو کٹگھڑے میں لا کر کھڑا کر دیا گیا تھا ، اور جو کشمیر کے حقیقی ’ مجرم ‘ تھے ، جیسے کہ اس وقت کے کشمیر کے گورنر جگموہن ، وہ ’ ہیرو ‘ بنا دیے گئے تھے ۔ وویک وگنی ہوتری کروڑوں کے مالک ہو گئے ، اور اُن کا سارا قصور ، مثلاً یہ اعتراف کہ وہ بیف کھاتے ہیں یا دیوی دیوتاؤں کے تعلق سے اناپ شناپ ، سب بی جے پی کی ’ پروپیگنڈا مشین ‘ میں آکر دھُل گیا ۔ اور کیسے نہ دھلتا ، اس فلم کا پرچار خود ملک کے وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ اور ساری بی جے پی جو ، کر رہی تھی ۔ اور اب ’ دی کیرالہ اسٹوری ‘ کے فلمساز وِپُل شاہ اور ہدایتکار سدِپتو سین بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ اس فلم کی بنیاد ’ جبراً تبدیلیٔ مذہب ‘ ، ’ لو جہاد ‘ اور ’ ہندو لڑکیوں کے استحصال ‘ پر رکھی گئی ہے ۔ دعویٰ تھا کہ 32 ہزار ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنا کر دہشت گردی کے لیے داعش کو سونپ دیا گیا تھا ، اور وہ بھی صرف ایک ریاست کیرالہ میں ۔ حالانکہ یہ سارا بیانیہ جھوٹ کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا تھا ، اور عدالت نے باقاعدہ فلمساز سے کہا کہ وہ 32 ہزار کے دعوے کو فلم کے ٹیزر سے حذف کر دے ، ویسے تب تک جو نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا تھا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فلم بنانے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی ۔ یہ ثابت ہونا کہ اعداد و شمار غلط ہیں ، صاف صاف فلمساز اور ہدایتکار کی بدنیتی کو سامنے لاتے ہیں ، اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسلامو فوبیا کی بنیاد پر ، یا ’ نفرت ‘ پروس کر وہ دولت کمانا چاہتے تھے ! عدالت سے اس فلم پر پابندی لگانے کی مانگ کی گئی تھی ، جسے مسترد کر دیا گیا ۔ عدالت کا یہ ماننا ہے کہ ’ آزادیٔ تحریر و تقریر ‘ پر اور ’ آرٹ ‘ پر کسی طرح کی پابندی نہیں لگا ئی جاسکتی ۔ اور فلم میکنگ بھی ’ آرٹ ‘ ہی ہے ۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا فلموں کو صرف اس لیے کہ وہ آرٹ کے زمرہ میں آتی ہیں ، یہ چھوٹ دی جا سکتی ہے کہ وہ ’ نفرت ‘ کا کاروبار کریں ؟ ملک بہت تشویش ناک حالات سے گزر رہا ہے ، اور برسرِ اقتدار ٹولہ ، ’ نفرت ‘ پھیلانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا ، اس کی مثال ’ دی کیرالہ اسٹوری ‘ خود ہے ، جس کی کرناٹک کے اسمبلی الیکشن میں پی ایم نریندر مودی اور ان کے وزراء و بی جے پی کے کاریہ کرتاؤں نے خوب تشہیر کی ۔ اس فلم کو ’ انتخابی مہم ‘ کا ایک حصہ بنا لیا گیا تھا ، اور مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف ’ نفرت ‘ پھیلائی جائے ، انہیں ظالم اور جابر اور ہندو لڑکیوں کا استحصال کرنے والا بتا کر ہندوؤں کے ووٹوں کی حصولیابی کو ممکن بنایا جائے ۔ یہ سب بالکل عیاں ہے ، اس کے باوجود عدالت نے کیوں اس فلم کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کیا ! اِن دنوں سپریم کورٹ میں میڈیا کے ذریعے ہیٹ پھیلانے کا معاملہ زیرسماعت ہے ، اور معزز جج صاحبان نے اس معاملے میں سخت ریمارکس بھی دیے ہیں ، سوال یہ ہے کہ کیا فلمیں اس ملک کی میڈیا کا حصہ نہیں ہیں ؟ جس طرح میڈیا کے ذریعے ’ نفرت ‘ پھیلائی جا سکتی ہے ، اسی طرح فلموں کے ذریعے بھی ’ نفرت ‘ پھیلائی جا سکتی ہے ، بلکہ بڑے پیمانے پر ’ نفرت ‘ پھیلائی جا سکتی ہے ، کیونکہ فلمیں کہیں بڑا میڈیم ہیں میڈیا کے مقابلے ۔ یہ خطرہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ’ دی کیرالہ اسٹوری ‘ جیسی مزید فلمیں بنیں گی ، اس فلم کی کامیابی نے فلمی دنیا کو ایک راہ دکھا دی ہے کہ ’ نفرت ‘ کی بنیاد پر فلمیں بناؤ اور تجوریاں بھر لو ۔ یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ ایسی فلموں پر پابندی لگائی جائے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ ایسی فلمیں بنانے کے پسِ پشت جو مقصد ہے ، اسے دھیان میں رکھا جائے ، اور ان کی نمائش سے قبل انہیں اس طرح سے تراش خراش دیا جائے کہ ان کے ذریعے صرف مسلمان ہی کی نہیں ، کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی تکذیب نہ ہو سکے اور نہ ہی حقائق سے کھلواڑ ۔
نفرت کا زبردست کاروبار
مئی 23, 2023
شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
Tags