ہر کہانی، ناول زندگی کے مختلف رنگ، مختلف خوشبو،بکھیر کر سامنے آتی ہے
وقت کی رفتار کو صفہ قرطاس پہ اپنے رنگ برنگ کہانی سے بکھیرنے والی شمالی ہند کی مشہور کہانی کتھا کا نسوائی پیکر "صادقہ نواب سحر" اردو ہندی مراٹھی زبانوں کی اعتماد بھر نمائندگی، ادبی سمیناروں کا معروف چہرہ، مہاراشٹر کی لوک کتھا کی مٹی سے جڑی مکمل کہانی کار "صادقہ نواب سحر"
کہانی کوئی سناُ متاشا "کے بعد صادقہ صاحبہ کا نام فکشن میں گونجا یہی وہ ناول تھا جس کا چرچا نہ صرف بھارت بھر میں ہوا بلکہ برصغیر کے سنجیدہ ناولوں میں تواتر کے ساتھ ہوا جس نے نہ صرف سنجیدہ قاری بلکہ منفرد لکھنے والے بھی متوجہ ہوے
صادقہ صاحبہ:-اپنے آس پاس کے کرداروں کو زبان عطا کرتی۔ ہیں بلکہ اُن کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو بھی اپنی پکی سیاہی میں جذب کرکے احساس قاری و ایک دنیا کے سامنے ان کے مسائل سے آگاہ کرتی۔ ہیں یہ بات تو طے ہے کہ صادقہ صاحبہ کو پڑھتے ہوے ہر قاری اُچھل ضرور جاتا ہے کہ ارے اس مسائل پر بھی کہانیاں لکھی جا سکتی ہیں اـس کو بھی فکشن کا حصہ بناکر عوام کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے
صادقہ صاحبہ کا حالیہ ناول "جس دن سے" ایک ایسا ہی جیتا جاگتا سانس لیتا زندگی کرتا ہمارے آس پاس کے کرداروں سے چنُا گیا ناول ہے جس پر صادقہ صاحبہ نے وہاں تک رسائی حاصل کی جہاں تک اکثر لکھنے والوں کی قلم کی دھوپ بھی نہیں جاتی
زندگی نامہ کا یہ ناول "جس دن سے" پڑھنے والا مطالعہ کرتے۔
چونک، چونک ضرور جاتا ہے کہ ارے یہ کہانی تو اُس کی ہے یہ کہانی تو "اپنی" ہے صادقہ کے ناول ہوں یا کہانی اُن کے کردار آس پاس بستے ہیں ہمارے درمیان سانس لیتے ہیں، زندگی کرتے ہیں اور پھر بےسیاہی کے ہی مر جاتے ہیں مگر صادقہ صاحبہ جیسی تیز نظر اور گہرا مشاہدہ اُنہیں کہانی یا ناول کے روپ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صفہ قرطاس پہ قید کر ہی لیتا ہے
ناول "جس دن سے" بھی ایسا ہی ناول ہے جب کوئی خاندان ٹوٹ پھوٹ کی کگار پر ہو تو زندگی بکھیر جاتی ہے، اُس کی صورت بگڑ جاتی ہے
زندگی بدصورت ہو جاتی ہے
ہر اٹھنے والے قدم کے نیچے کانٹے محسوس ہوتے ہیں جہاں جسم ہی نہیں انسانی روح اور احساس قاری بھی گھائل ہوجاتے ہیں درد بھرا تلخ سچائی کا بیاینہ ناول "جس دن سے" کا موضوع ہے
جس میں باپ اس لڑکے (ناول کا مرکزی کردار ) کو چھوڑ کر دو اور عورتوں سے شادی رچا لیتا ہے
_____ایسے میں ماں کیا کرے__؟؟؟؟
سماج کی ضروریات کے ساتھ جسم کی بھی ضرورت ہوتی۔ ہے۔ سو وہ ماں بھی کسی دوسرے آدمی کے ساتھ رہنے لگتی ہے دونوں ماں باپ کے الگ الگ رشتوں سے الگ الگ اولادیں بھی ہیں اور یہاں سے ہی صادقہ نواب سحر "کا قلم اپنا جلوہ زندگی نامہ کی تصویر بڑی بےدردی سے پیش کرتا ہے جہاں کوئی بھی کمپرمیز نہیں ہے خاندان کی الجھین کے بعد ایک دنیا باہر کھڑی ہوتی ہے ___بےرحم__اور بےچہرہ دنیا ___ ناول چلتے چلتے کبھی کبھی گھر گھر کی کہانی کا آئینہ،بھی بن جاتا ہے اگر چہ خواتین یہ ناول پڑھیں تو ورق ورق، سطر سطر، پورے احساس اور حقیقی طور پر اس ناول کے تجربات اور اپنے خود کے مشاہدہ سے بھی گزاری ہو گی-کہیں نہ کہیں
مزکورہ ناول میں نا کوئی نظریہ ہے، نا کسی تحریک سے متاثر ہے بس زندگی کی شطرنج پہ کرداروں کے سیاہ سفید مہرے زندگی کے ساتھ اپنی اپنی چالیں چلتے چلے جاتے ہیں
زندگی سے جہدوجہد کا ایسا بیاینہ جو تیڑھے میڑے الجھے رشتوں اور خار دار راستوں میں بھی زندگی تلاش ہی کر لیتا ہے
ناول کا انتساب :-"صادقہ نواب سحر صاحبہ نے اپنی بیٹی "لبنیٰ" اور ناول کے مرکزی کردار "جیتو" کے نام اور اس جیسے بےشمار نوجوان کے نام کیا ہے (ناول کا کردار کا نام بھی علامتی طور پر" زندگی "ہی ہے )
"جس دن سے" میں اعتماد بھر ناقد و منفرد کہانی کتھا کار "رتن سنگھ" نے بھی اپنی قیمتی راے دو صحفہ پر دی ہےجوکہ خود ایک دستخط ہے(ناول ایجوکیشنل پبکیشر سے دستیاب ہےدہلی)
صادقہ نواب سحر صاحبہ مہاراشٹر کے علاقہ کھپولی سے تعلق رکھتی ہیں نیز ہمہ وقت وہ ادب اور ادب نواز اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہتی ہیں مہاراشٹر کی لوک کتھا اور یہاں کے رہن سہن تہذیب اُن کی کہانیوں اور ناول میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اگر ہم انھیں مہاراشٹر کی مانگ میں کہانی کا "سندور" کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا برصغیر میں اُن کی کہانیاں ناول شاعری کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ناقدین فنَ کی نظروں میں اعتماد بھر پکی سیاہی کا نام "صادقہ نواب سحر" ہے
مزید آگے راستہ ہے
مسافر سفر میں ہے
صادقہ صاحبہ کے قلم سے نا جانے اور کتنی تلخ حقیقت کا اظہاریہ ٹپکتا رہے گا اور اردو ادب کو مالا مال کرتا رہے
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
بارہ ربیع الاول بروز جمعہ
شب10/25
⚫احمد نعیم مالیگاؤں بھارت🇮
افسانچہ آسیہ رئیس خان
۱۔ ریلیشن شپ اسٹیٹس
بڑی دیر سے اس کی باتوں کے جواب میں عدیل غائب دماغی سے ہوں ہاں کیے جا رہا تھا۔ عاجز آ کر اس نے تکیہ درست کیا اور سونے کی نیت سے لیٹ گئی۔ ابھی آنکھ بند ہی کی تھی کہ نوٹیفیکیشن کا مخصوص اشارہ ہوا۔ اس نے فون اٹھا کر دیکھا۔ پلنگ کی دوسری طرف فون میں مگن عدیل نے ابھی ابھی اس کی شام والی فیس بک پوسٹ کو لائک کیا تھا، ساتھ ہی دو کمنٹ اور ایک جی آئی ایف بھی دیا تھا۔ اس نے فون پر تیزی سے انگلیاں چلاتے شوہر کو گھورا پھر کچھ سوچ کر اپنا فیس بک پروفائل ایڈیٹ کیا اور کروٹ بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔ اب اس کا ریلیشن شپ اسٹیٹس میریڈ سے بدل کر ’ لونگ ڈسٹنس ریلیشن شپ‘ ( long distance relationship) تھا۔
۲۔ فرق
وہ یو ٹیوب پر ’حقوق العباد‘ کے موضوع پر ایک لیکچر سن رہی تھی کہ بجلی چلی گئی۔ پنکھے کے بغیر اس کا دم گھٹتا تھا۔ ہوا کےلیے دروازہ کھولا ہی تھا کہ بغل کے فلیٹ سے خاتون باہر نکلیں۔ اس کی دانست میں یہ فلیٹ تو خالی تھا۔
’’ آپ کب شفٹ ہوئیں یہاں؟‘‘ خاتون کی مسکراہٹ کے جواب میں اس نے پوچھا۔
’’ اب تو دو ماہ ہونے آئے ہیں۔‘‘ خاتون نے جواب دیا۔
’’ ارے! ‘‘ وہ حیران ہوئی۔ ’’ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا آپ کو۔‘‘
’’ آپ بھی تو آج پہلی بار نظر آئی ہیں۔‘‘
’’ جی، وہ آج بجلی نہیں ہے، کیبل اور وائی فائی دونوں بند ہیں۔‘‘
۳۔ ترقی
اسے اچھی طرح یاد تھا اس کے چھوٹے سے شہر میں فقیر دروازہ کھٹکھٹا کر کھانا مانگا کرتے تھے اور اس کی امّی بھی زائد یا بچا ہوا کھانا ان کے لیے اٹھا رکھتی تھی۔ اب اس بڑے شہر میں بچا ہوا کھانا ضائع کرتے وقت اسے ان فقیروں کی بڑی یاد آتی کیونکہ اس پوش علاقے میں عمارت کے چوکیدار اور خاکروب بھی بچا ہوا باسی کھانا نہیں لیتے تھے۔ آج اپنی عمارت کے قریب ایک فقیرنی اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ پلاسٹک کی تھیلی سے کھانا کھاتی نظر آئی تو وہ خوش ہو گئی۔
’’ وہ میری پلڈنگ ہے وہاں تم روز آیا کرو، میرے یہاں اکثر کھانا بچ جاتا ہے۔‘‘ اس نے ہاتھ کے اشارے سے عمارت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا۔
’’ روز کیا آؤں بی بی جی، میرا فون نمبر لے لو جس دن دینا رہے بلا لیا کرو۔‘‘
۴۔مرض الموت
’’ تمھارے پاپا کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ کیا اسپتال میں بیڈ نہیں ملا تھا؟ ‘‘
’’جی نہیں ، بیڈ مل گیا تھا۔ ‘‘
’’ اچھا۔۔۔! آکسیجن نہ ملنے سے تو بہت سی جانیں گئی ہیں۔ ‘‘
’’ اسپتال میں آکسیجن کی کمی نہیں تھی۔ ‘‘
’’ اوہو، وینٹیلیٹر نہیں ملا آخر میں۔۔۔۔‘‘
’’ نہیں انکل یہ بات بھی نہیں تھی۔ ‘‘
’’ پھر ۔۔۔۔؟ ‘‘
’’ دراصل پاپا نے اسپتال سے ڈسچارج لے لیا تھا۔ ‘‘ اس کے لہجے میں فخر در آیا۔
’’ اوہ ! وہ کیوں؟ ‘‘
’’ ان کا اٹینڈنگ ڈاکٹر مسلمان تھا۔ ‘‘
#_آسیہ_رئیس_خان
ساتھی نہال احمد کی یاد میں ان کی اہلیہ ساجدہ واحدی صاحبہ کے دل کی گہرائیوں سے لکھے گئے چند قطعات
خواب و خیال فکرونظر میں سمائے ہو
لگتا ہے زندگی میں مری لوٹ آئے ہو
شاید اسی کو کہتی ہے دنیا طلسم عشق
پیوند خاک ہوکے بھی پاگل بنائے ہو
صد آفرین وہ مرا غیور مہرباں
ٹھکرا دیا ہے جس نے ہر اک تخت وتاج کو
دیوار و در میں جس کی مہک ہے بسی ہوئی
دل ڈھونڈتا ہے پھر اسی خوشبو مزاج کو
جب سے ہمارے گھر میں وہ چہرہ نہیں رہا
لگتا ہے زندگی میں سویرا نہیں رہا
جب سے وہ ہم سفر مرے گھر سے چلا گیا
آنکھوں سے نیند کا کوئی رشتہ نہیں رہا
مدت ہوئی گھر میں تمہیں دیکھا بھی نہیں ہے
اور ساتھ نہیں ہو مرے ایسا بھی نہیں ہے
ہر خواب میں ہمدم ہو ہراک درد میں ہم درد
ایسی تو محبت کوئی کرتا بھی نہیں ہے
مرے محسن مرے رازداں چل دیے
یہ خراماں خراماں کہاں چل دیے
غنچہ وگل شجر سب پریشان ہیں
باغ کو چھوڑ کر باغباں چل دیے
رہتی ہوں رات دن میں پریشاں ترے بغیر
قسطوں میں مر رہی ہوں مری جاں ترے بغیر
چاہت پھول کرب کی شدت سے جل گئے
ویراں ہے میرے دل کا گلستاں ترے بغیر
نشہ حیات کا اک دم اتر گیا جیسے
تمہارے بن مرا سب کچھ بکھر گیا جیسے
نہ خواہشیں نہ امنگیں نہ آرزو باقی
حقیقتا مرا احساس مر گیا جیسے
کیوں جارہے ہو گھر کو رگ جان چھوڑ کر
رکھ دی ہے آسمان نے آنکھیں نچوڑ کر
تم نے تو زندگی میں کوئی دکھ نہیں دیا
خاموش کیوں آج مرے دل کو توڑ کر
بیٹھے تھے پاس جتنے سب غم گسار روئے
ہم تم کو یاد کرکے جب بار بار روئے
ہر زخم پھر سے مہکا ہر درد پھر سے چہکا
اتنا اے زندگی ہم زاروقطار روئے
بھیگے ہوئے ہیں درد میں دالان و گھر مرے
کب سے سسک رہے ہیں دیوار و در مرے
مجھ سے بچھڑ کے خواب سے بہلا رہے ہو اب
ترکیب کیا نکال لی اے ہم سفر مرے
عہد ساز تاریخی شخصیت, نذر ساتھی نہال احمد
شگفتہ سبحانی (مالیگاؤں)
اک شخص خوبرو سا
اک شخص من چلا تھا
تہذیب حق کا بانی
ساتھی نہال احمد
لوگوں کا آسرا تھے
خوشبو کا راستہ تھے
خورشید بن کے چمکے
ساتھی نہال احمد
وہ گھن گرج کا لہجہ
لہجے کے بول تیکھے
دل میں اتر گئے تھے
ساتھی نہال احمد
وہ انقلاب آۓ
اس دور میں شگفتہ
لوگوں کے تھے مسیحا
ساتھی نہال احمد
دنیا و دیں سمیٹے
تھے *مولوی* کے بیٹے
کتنی زباں وہ سیکھے
ساتھی نہال احمد
شاگرد کوئی ان سا
اس دور اب کہاں ہے
جیتے تو پھر نہ ہارے
ساتھی نہال احمد
سنتے تھے رہبروں کی
لیتے دعا بڑوں کی
بچوں سے تھی محبت
ایسے نہال احمد
تحریک کس نے دیکھی
تحریک کیا بلا ہے
تحریک حق کے بانی
ساتھی نہال احمد
وہ علم کا ستارہ
وہ روشنی کا دھارا،
بانی ء فارمیسی
ساتھی نہال احمد
جب تھے وزیر ساتھی
آیا پھر آئی ٹی آئی
پھر روزگار لاۓ
ساتھی نہال احمد
زنداں کی جھیلی گرمی
تکلیفیں بھی اٹھائیں
پھر مئیر بن کے چھاۓ
ساتھی نہال احمد
بُنتے تھے تانے بانے
سارے اصول جانیں
وہ عہد ساز چہرہ
ساتھی نہال احمد
سرتاج "ساجدہ" کے
"شان" اور "بلند" کے پاپا
قائد وہ جنتا دَل تھے
"ساتھی نہال احمد"
تاریخی شخصیت ہیں
سرسبز آج تک ہیں
لوگوں کے دل میں بستے
ساتھی نہال احمد
ایسا کہاں ملے گا
اب پوچھتی ہے دھرتی
چاہیں جنہیں زمانے
ساتھی نہال احمد
نہ بھول پائے تم کو
یہ بام و در یہ شہری
یادوں میں اب بھی زندہ
" کالی تمہاری پٹّی"
اللہ سے دعا ہے
وہ مرتبہ یہ پائیں
ہو لحد ان کی جنت
بخشش کے درجے پائیں
رو کر پکارے دنیا
ساتھی نہال احمد
ہے یہ دعا خدایا،
اس قوم کو بچانا
جو بانٹتی تھی الفت
جو بانٹتی مروت
تم تھے شہ ِ سیاست
تم تھے شہ ِ قیادت
توپوں کی ہے سلامی
تم کو نہال احمد
ساتھی نہال احمد
ساتھی نہال احمد