ہم بھارت کی عوام سیکڑوں برس سے بادشاہت کے ہی رحم و کرم پر رہے. ہم میں بادشاہ کی بے دست و پا عوام کی تمام خصوصیات در آئیں....انگریزی دور اقتدار میں بھی ہماری روش برقرار رہی، اسی لئے آزادی کے بعد جب ہمارے ہاں جمہوریت کے قیام کی بات کی گئی تو بعض دانشوروں نے بھارت میں اس تجربے کی ناکامی کی پیش گوئی کی تھی...
ہماری آزادی کو 75 برس ہو چکے، ہم آج بھی اپنے سیاست دانوں کو اپنے محسن کے طور پر دیکھتے ہیں، ہم میں اکثر لوگ سیاست دانوں کو وہ مقدس یا اہم شخصیت گردانتے ہیں جن کے آنے سے ہماری محفل میں چار چاند لگ جائے... اس ذہنیت سے نکل آنا لازمی ہے، ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ اگر فلاں شخصیت نے سڑک بنوادی یا کوئی رفاحی کام کیا تو احسان کیا، یہ کوئی احسان نہیں...اس سلسلے میں احسان اور فرض کے فرق کو واضح کرنا لازمی ہے. بالفرض آپ کے والدین یا ان میں سے کوئی کھانا کھا رہا ہو اور وہ آپ سے پانی طلب کریں تو انہیں پانی دینا اولاد کا فرض ہے لیکن اگر اولاد اپنے والدین کی ضرورت سے قبل ہی ان کی ضرورت پوری کردے تو یہ احسان ہے. اگر سیاست داں سڑک بنانے کیلئے فنڈ پاس کراتے ہیں تو وہ کوئی احسان نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور فنڈ کی رقم جیب خاص سے نہیں سرکاری خزانے سے جاری ہوتی ہے. اس فرض کی ادائیگی مفت نہیں ہوتی بلکہ عوامی خزانے سے ان کی تنخواہ کا بھی انتظام کیا گیا ہے. اس سلسلے میں اس بات کی تفہیم لازم ہے کہ سیاست داں کا کوئی کام ایسا نہیں کہ انہوں نے عوامی ضرورت سے قبل ہی ہماری ضرورت کو پورا کر دیا... میں یہ نہیں کہتا کہ سیاست دانوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے بلکہ انکی حوصلہ افزائی وقت کی ضرورت ہے لیکن انہیں اس قدر اہمیت نہ دی جائے کہ خود کو فرعون سمجھنے لگیں اور ان کے بعد خالی ہونے والی جمہوری کرسی کو اپنے بیٹے کا حق سمجھے
بھارت کی جمہوریت اس وقت اپنے قیام کے مقاصد کلی طور پر حاصل کرے گی جب حقیقی معنوں میں عوامی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا. اور ہم اپنے سیاسی لیڈروں کو اپنا نمائندہ سمجھیں گے، نا کہ علاقائی راجہ، جمہوریت اس وقت تقویت پائے گی جب ایک عام آدمی بھی جمہوری نظام میں شمولیت کو ناممکن نہیں سمجھے گا... ہم اس وقت کلی طور پر کامیاب ہوں گے جب ہمارے یہاں ملک کی بنیاد عوامی پسند اور ناپسند ہوگی