شہر کا شاید ہی کوئی ایسا کوچہ یا گلی بچی ہو جہاں اس بزرگ کاکا نے یہ صدائیں نہ لگائی ہوں۔
ہمارا ماننا ہے کہ بمشکل ایک یا دو سال کے اندر کاکا، کا انتقال ہوگیا اور اس مانوس صدا کی سماعت سے ہم ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے.
آج ہماری صدا یہی ہے ، اوریہ صدا ہے کتابوں کے حوالے سے....
" گھر میں رکھی_____نئی جُونی_____دھول کھاتی___کتابوں کو_____ ہم تک، پہونچا دو_وووووو____"
گذارش یہ ہے کہ شہر مالیگاؤں میں، جن لوگوں کے گھروں میں کتابیں رکّھی رکّھی دھول کھا رہی ہوں ، خواہ کسی بھی موضوع پر اور کسی بھی زبان میں ہوں، وہ ہمیں عنایت کریں.ہم شکریے کے ساتھ ان کتابوں کو اپنی لائیبریری کی زینت بنائیں گے.اس سلسلے میں ہم از خود آپ تک پہونچ کر ان کتابوں کو حاصل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں.
اسی طرح وہ اہل علم حضرات جنہوں نے کتابیں تالیف کر رکھی ہوں، وہ اگر اپنی کتابوں کی ایک کاپی ہمیں اپنی لائیبریری کے لیے ہدیتاً ارسال فرمادیں، ہم آپ کے دلی ممنون ہوں گے.
بیرون شہر کے مصنفین ہمارے ایڈریس پر اپنی کتابیں ارسال کر سکتے ہیں.ڈاک خرچ ہمارے ذِمّہ ہوگا.
اگر آپ کے پاس ایسی کتابیں ہوں، جنہیں آپ پڑھ چکے ہوں یا جن کا کوئی پڑھنے والا نہ ہو اور آپ انہیں ہدیتاً عنایت (Donate) کرنے کے خواہش مند ہوں تو کمنٹ سیکشن میں ہمیں ضرور آگاہ کریں.ہم خود آپ سے انباکس میں رابطہ کر کے بقیہ تفصیلات معلوم کرلیں گے. بصورتِ دیگر آپ ہمیں اس نمبر پر واٹسپ کر سکتے ہیں.9834926449
"آج میرے پاس بلڈنگیں ہیں ،پراپرٹی ہے، بینک بیلنس ہے، بنگلہ ہے، گاڑی ہے___ تمہارے پاس کیا ہے_____؟؟؟؟؟"
"میرے پاس____؟ میرے پاس، انمول کتابیں ہیں جناب______"
~ فرنود رومی
20 اپریل ، 2022
افسانہ
افسانہ :غالب سالا بچ گیا
محمد ہاشم خان
سیاہی ٔ شب میں اوپر دوربہت دورآفاق کی پہنائی میں، قوس در قوس ٹمٹماتے ہوئے لرزیدہ تاروں کی زردی مائل مدھم روشنی طوفان میں ہچکولے کھاتی کشتی کے مانند نظرآرہی تھی۔پہلے تو اسےکچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اچانک وہ کس جگہ پر آگیا ہے،کس ساعت زوال میں کب، کیوں اور کس نے اسے اس پاتال میں پھینک دیا۔اس قدرپُرہول تاریکی اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی،حالانکہ جدوجہد،گھٹ گھٹی،ناکامیاں اور محرومیاں اس کی زندگی کا جزء لاینفک تھیں لیکن تاریکی اس کی زندگی میں کہیں نہیں تھی،درون و بیرون کہیں بھی نہیں۔ کیوں کہ جب اس نے دیکھا کہ حالات سے مفر کی گنجائشیں ختم ہوگئی ہیں تو اس نے لاحاصلی کی اذیت میں مسرت تلاش کرلی ایک کام چور کندذہن کلرک یا پھر ایک ناکام چھچھلے شاعرکی طرح۔لاحاصلی کی کچھ اذیتیں تو اس نے کمائی تھیں،کچھ دوست احباب کی سوغات تھیں اور پھر بہت کچھ اذیتیں رفتگاں کے ساتھ زندگی کا مقدر ہوگئیں،اذیتوں میں مسرت تلاش کرنے کی یہی وہ خُوتھی جو چراغ زیست کی لَو کو مدھم نہیں ہونے دے رہی تھی۔
اس نے اپنےچاروں طرف سیم زدہ مٹی کی سیلن کی عجیب سی مہک جس میں سڑی ہوئی بوسیدہ پھٹّوں کی بوبھی شامل تھی محسوس کی جونہ تو سوندھی تھی اور نہ ہی کھات کی سڑاند جیسی۔جوں جوں حس ِمشترک تیز ہوتی جارہی تھی وہ بے نام مشترک بو اس کے وجود سے قریب ترین محسوس ہورہی تھی ۔دفعتاً اس نے سرِمژگاں کوئی چیز رینگتی ہوئی محسوس کی اور پھر ایک تیز چبھن کادرد بھرا احساس ہوا،آنکھ اب پوری کھل گئی تھی۔جسم زخموں سے لہولہان تھا اوردرد کی شدت ناقابل برداشت تھی،اٹھ کر بیٹھنا چاہا لیکن اعضاءنے ساتھ نہیں دیا۔ ذہن میں ایک ہی سوال شورکناں تھاکہ وہ یہاں کیسے پہنچا اور یہ کہ یہاں سے باہر کیسے نکلا جاسکتا ہے، لیکن سوچنے کی سکت اس کےتوحش و بے چینی کاساتھ نہیں دے پارہی تھی،سچ تو یہ ہے کہ اس کےاندرکچھ سکت ہی نہیں رہ گئی تھی،ہاتھ پاؤں شل تھے۔۔۔۔’تو کیا میں مرچکا ہوں؟‘ اس نے سوچنا شروع کیا’لیکن کب اور کیسے؟۔۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ،مجھے ابھی جینا ہے،ابھی بچی کو سائیکل دلانا ہے،کیسے دلاؤں گا وہ تو مجھے بھی نہیں معلوم لیکن یہی کہہ کر آیا تھا۔ کئی ماہ سے آجکل ،آج کل کے وعدے پر ٹالتا آیا ہوں ، اب اور نہیں ٹال سکتاکیوں کہ آج میری بیٹی کی آنکھیں بتارہی تھیں کہ اسے میرے وعدوں پراب یقین نہیں رہ گیاہے اورمجھے اس چیز کو غلط ثابت کرنا ہے۔اگر وہ مجھ پر یقین نہیں کرسکی تو پھر اس کی پوری زندگی لایقینی کے گرداب میں تباہ ہوجائے گی، میں اس کا پہلا یقین ہوں اور اس یقین کوباطل نہیں ہونے دینا ہے،مجھے جلدی گھر پہنچنا چاہئے، میرے بچے انتظار کررہے ہوں گے۔بڑے بیٹے کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے،دو ماہ سے یہی کررہا ہوں،میں کتنا بے حس ہوگیا ہوں ،یہ میرے ہاتھ پاؤں اٹھ کیوں نہیں رہے ہیں،تو کیا واقعی میں مرچکا ہوں؟لیکن میں تو سوچ سکتا ہوں اور مردے بھلا کہاں سوچتے ہیں ۔کیا پتہ وہ بھی سوچتے ہوں بس ان کی ترسیل نہ ہوپاتی ہو، تو کیا زندگی اور موت کے درمیان ایک سوچ کی ترسیل کا ہی فرق ہے، کیا میں واقعی ایک لاش ہوں،نہیں میں لاش نہیں ہوں،میری بچی کو یہ بات اچھی نہیں لگے گی، میں لاش نہیں ہوں،پھر میں مردوں کے بارے میں اتنا کیوں سوچ رہا ہوں،یہ کونسی جگہ ہے؟مجھے یہاں سے نکلنے کی کوئی تدبیرکرنی چاہئے،یہ میرے ہاتھ کیوں نہیں اٹھ رہے ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔
جب اس نے تاریکی کا سینہ چاک کرکے باہر نکلنے کی کوشش کی تو احساس ہوا کہ بدن کا کوئی بھی عضو ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ اپنے اعضا کو ٹٹولنا شروع کیا اور یہ جان کر خوفزدہ ہوگیا کہ جسم کا کوئی بھی عضو اپنی اصل حالت میں سلامت نہیں ہے۔اعضا ءمیں حرارت ہے لیکن صرف حس کی حد تک،یعنی کہ وہ صرف محسوس کرسکتا تھا۔بدن میں درد کی تیز لہر دوڑنے لگتی ہے،یہ درد پہلے سے موجود تھا،بچوں کی فرمائشوں کے نامکمل ہونے کی شکل میں، بیوی کے صبراورحالات کے جبر کی صورت لیکن محرومیوں نے احساس نہیں ہونے دیا تھا اور اب کچھ زیادہ ہی احساس ہورہا تھا۔دفعتاً وہ بھربھری مٹیاں اپنے پاؤں پرگرتا ہوا محسوس کرتا ہے،خوف رگ و ریشے میں واپس دوڑنے لگتا ہے کہ کہیں یہ بھربھری مٹیاں تابوت نہ بن جائیں اور وہ ہمیشہ کے لئے تہہ خاک خاک ہوجائے۔مدد کے لئے پکارنا چاہتا ہےلیکن آواز حلق سے باہر نہیں نکلتی گویا کہ نرخرےمیں زقوم پھنس گیا ہو ۔تھوڑی بہت مزاحمت کے بعد تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے،آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کرتا ہےلیکن چہار سو مہیب تاریکی میں کچھ نظر نہیں آتا ،وہ کسی بڑے گہرےسوکھے کنویں میں ہے،کھائی میں ہے، منہ کھلے غار یا کسی بڑی کھلی ہوئی قبر میں ہےکچھ بھی اندازہ کرنے سے قاصر ہے،دور تک صرف خلا اورخلا میں جگمگاتی سڑک کی مانند ستاروں کی کہکشاں نظرآرہی ہے جس پر چل کر وہ اپنے گھر پہنچ سکتا ہے۔کاش ایسا ہوتا۔وہ آنکھیں موندلیتا ہے اور واپس سوچنا شروع کردیتا ہے،اسی اثناء میں دورسے بہت ہی کریہہ اور بھیانک آوزیں آتی ہوئی سنائی دیتی ہیں گویا کوئی دیوہیکل پاگل ہاتھی چنگھاڑ رہا ہو،غشی طاری کرنے والی،جان لینے والی آوازیں۔یہ کوئی اسرافیلی آواز ہے،یا آس پاس کوئی دھماکہ ہوا ہے۔اسے خبر نہیں کہ کب تک بجلی کی کڑکڑاہٹ سے زیادہ خوفناک آوازوں کی دہشت کے اثر میں رہا،اچانک کوئی چیز اس کےاوپر دھڑ سےگری ، چیخ حلقوم میں اٹک کررہ گئی ،درد کی شدت سے پورا بدن اینٹھ گیا۔ وہ اس دھڑ کو اپنے اوپر سے ہٹاناچاہتا ہے لیکن بے بس ہے۔کچھ وقت گزرنے کےبعد اس نےمحسوس کیا کہ سینے پرسینے کا لمس حرارت پیداکررہی ہے اور وہ حرارت اندرون بدن رگ وریشے میں خون بن کر دوڑنے لگی ہے۔اب اس کے ہاتھ پاؤں میں صرف حرارت ہی نہیں حرکت بھی تھی،اس نے دھڑ کو اپنے اوپر سے ہٹایا، ٹٹول کر محسوس کیا کہ یہ کوئی لڑکی ہے۔ ہاتھ بدن پیمائی کرتے ہوئے چشمۂ حیات پر پہنچے تو وہ ایک چیخ مار کر اٹھ بیٹھی ۔
کیا کررہا ہے ؟
سوری ،سوری،غلطی سے ہوگیا۔آئی ایم سوری۔آئی ایم سوری
کچھ دیر تک دونوں کے درمیان سکوت رہا ،پھر اس لڑکی نے خود کو الگ کیااور گویا ہوئی
’میں کہاں ہوں؟اتل کہاں ہے؟میں تواس کے ساتھ سلیبریٹ کرنے کے لئے نکلی تھی،یہاں کیسے آگئی؟
’مجھے بھی نہیں معلوم ہم کہاں پھنسے ہیں، باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈو پلیز!‘
’میرےکو کچھ نظر نہیں آرہا ہے،تو بھی برابر نہیں دکھ رہا ہے۔’تو کب سے ادھر ہے؟‘
اسے یہ انداز تخاطب انتہائی ناگوار لگا اوربہت بے رخی سےکہا ’نہیں معلوم‘
’وہ بھی نہیں معلوم۔یہاں سے باہر نکلیں تو شاید کچھ اندازہ ہو۔‘
مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔رات ختم ہو تو شاید کوئی راستہ دکھائی دے۔مگررات کب ختم ہوگی۔اس لڑکی نے بہت رحم انگیزبے بسی سے پوچھا
’مجھے تاروں کو دیکھ کر حال بتانا نہیں آتا‘
وہ دونوں اپنے اپنے طور پر حالات اور مقام کا جائزہ لینا شروع کردیتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رات کے ختم ہونے کا انتظار کریں لیکن اس اندھیری رات میں رات کیسے ختم ہوسو چار و ناچاردونوں اپنی اپنی زندگی کے ضائع کردہ لمحوں کی بازیافت شروع کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
وہ لڑکی جس کےبوائے فرینڈ کا نام اتل ڈھورہے،اس کی کہانی اور زندگی میں کوئی رس نہیں ہے،رس جسم میں تھا مگر باہر نہیں نکل سکا تھا،وہ ایک اسپرم بینک میں نمونے جمع کرتی تھی، نئی نئی ملازمت پر لگی تھی، ہفتہ عشرہ تک تو اسے اپنی جاب سے گھِن آتی رہی پھر بتدریج فنتاسی کی ایک دنیا آباد ہونا شروع ہوئی ۔ مجموعی ماحول اور بالخصوص الگ الگ قد کاٹھ کے ڈونرس کو دیکھ کر عجیب سا سرور حاصل کرتی، جب اصل زندگی میں لذتوں کے حصول میں وسائل حائل ہوں تو فنتاسی اور تخیل کا اپنا الگ ہی لطف ہوتا ہے،بدنی خواہشوں کی طنابیں ٹوٹنے لگتی ہیں۔وہ بھی منہ زورلہروں کا زیروبم پورے جسم میں محسوس کررہی تھی اور اسی خوشی میں وہ اپنے دوست کے ساتھ پارٹی منانے نکلی تھی،گھر میں صرف اس کی بیوہ ماں ہے ،ایک بڑا بھائی تھا لیکن وہ ایک بار دوا لینے کے لئے نکلا تو پھر واپس نہیں آیا،اسےواپسی میں ماں کے لئے دوائیاں بھی لےکر جانا تھا،اتل نے آخری شو دیکھنے کی ضد کی،لیکن شہر کے حالات کچھ ماہ سے ٹھیک نہیں تھے اس لئے وہ آخری شو پر راضی نہیں ہوئی،کہنے کو تو فرقہ وارانہ فسادبند ہوگیا تھا لیکن سچ یہ ہے کہ یہ یکطرفہ منظم منصوبہ بندفساد تھا اوراس کی راکھ یہاں وہاں حسب خواہش سلگنے لگتی تھی،چونکہ اتل اس کا بچپن کا دوست تھا اور اس سے پیار بھی تھا،اس لئے اس نے اتل کی خواہش کو ٹالنا مناسب نہیں سمجھا لیکن فلم شام کے شو میں دیکھنا طے ہوا۔
جب اتل کے ہاتھ اس کے جسم پر یہاں وہاں پڑنے لگے تو اس کو احساس ہوا کہ یہ آخری شو کی ضد کیوں کررہا تھا،فلم ختم ہونے کے بعد جب وہ دونوں باہر نکلے تو ایک دوسرے کے لئے جذبات بدل چکے تھے،ہونٹ سے راگنی اور جسم سے چاندنی ٹپکنے لگی تھی،اب درمیان میں ایک حجاب حائل ہوگیا تھا ،رسمساتی آنکھوں میں ایک طوفان موجزن تھا،جسم میں خواہشوں کی نہر جاری ہوگئی۔ایک جگہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دونوں بے ترتیب سانسوں اور دھڑکنوں کو سنبھالے ہوئے کھڑے رہے ،کچھ اشارے ہوئے اور اشاروں کی پگڈنڈی پکڑے چل پڑے۔۔۔۔۔۔جب وہ دونوں ایک کمرے میں بیٹھے ،بے ترتیب دھڑکنوں کی نذر ہونے کا ارادہ کررہے تھے کہ اسی دوران پولیس نے چھاپہ مارا، بہت سے لوگ گرفتار ہوئے،یہ دونوں بھی پکڑے گئے۔چونکہ یہ بہت خوبصورت تھی اس لئے آفیسرنے دونوں کو گمنام مقام پر ایک فارم ہاؤس میں رکھ دیاجس کا علم صرف جرم میں برابرکےشریک لوگوں کو ہوتاتھا، انہوں نے کچھ دنوں تک اسے اپنےساتھ رکھا اور جب فساد اپنے عروج پر پہنچ گیا تو انہوں نے ۔۔۔۔۔۔۔
اتل کا کیا ہوا؟
اس کے بعد میراکیا ہوا؟ یہ نہیں جاننا چاہوگے؟ اس لڑکی کے لہجے میں جس کے بوائے فرینڈ کا نام اتل ڈھور تھا،درد،شکستگی اور لاچاری تھی۔
نہیں، تمہاری کہانی سے کوئی دلچسپی نہیں،لڑکیوں کا ریپ اور قتل اب عام ہوگیا ہے۔اسے وائکم محمد بشیر کے ایک افسانے کی لائن یاد آگئی’عرب اپنی لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا کرتے تھے،ٹھیک کرتے تھے۔‘
تو اتل کا کیا ہوا؟
میری امی کا کیا ہوا؟ یہ نہیں جاننا چاہوگے؟
تمہاری امی کے ساتھ کیا ہوا،مجھے اس میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اگر زندہ ہوں گی تو ہاتھ میں تمہاری تصویرلئےپولیس اسٹیشنوں میں دردر کی ٹھوکریں کھارہی ہوں گی،میرے خیال میں وہ زندہ ہوں گی کیوں کہ مصیبت کی ماری مائیں جلدی نہیں مرتی ہیں، اگر زندہ ہیں تو یہ ان کے ساتھ ٹھیک نہیں ہورہا ہے،ان کا مرجانا بہتر ہے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تم نے کچھ پڑھاہے،کیا مطلب ہے اس کا؟
میں نے کچھ نہیں پڑھا اور اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
،اتل ڈھور کا کیا ہوا؟
آفیسر بول رہا تھا کہ تیرے یارکو مارکرہم نےایسی جگہ پھینک دیا ہے کہ وہاں اب اور لاشوں کی بارش ہوگی۔ جلد ہی تجھے بھی اس کے پاس پہنچا دیں گے۔
تجھے کیوں مارنا چاہتا تھا،تجھ سے دل بھرگیا تھاکیا؟
اسے یاد آیا کہ ایک دن بڑے قد اور لمبی انگلیوں والا افسراپنے جونئر سے کہہ رہا تھا’اب یہ لڑکی بھی انجوائے کرنے لگی ہے‘اور اس کے بعد کا پورا خونریز منظراس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا،وہ اپنی پہلی اور آخری چیخ کے بارے میں بتاناچاہتی تھی،وہ بتانا چاہتی تھی کہ پہلی چیخ میں اس کی روح نکل گئی تھی اور آخری چیخ کی کربناک لہروں میں کہیں وہ،کہیں اس کی ماں ،کہیں اس کا معشوق اور کہیں اس کے سارے خداایک ایک کرکے ڈوب رہے تھےلیکن کہانی سننے والے کواس کی کسی بھی چیخ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ستارے ایک ایک کرکے اوجھل ہورہے تھے،وقت آخر شب میں داخل ہورہا تھا۔۔۔
تو بول، تو یہاں کیسے آیا؟
آہ !اس نے ایک طویل کراہ بھری سانس لی اور گویا ہوا۔ میری کہانی ذرا طویل ہے،کاش تم میری زبان سمجھتیں۔لیکن یہاں اب کوئی اور نہیں ہے اس لئے صبر کرو اور سنو اگر کچھ سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لینا۔۔۔۔۔سنو!
یہ زندگی وہ ندی ہے جو کسی ایک رخ پر کبھی نہیں بہتی کہ یہ ناپیداکنار ہے، ہاں ٹھہرتی ضرور ہے،سستاتی ہے،تازہ دم ہوتی ہے اور پھر چلنے لگتی ہے،بہنے لگتی ہے، بہکنے لگتی ہے اور پھر پل بھر کے لئے رک جاتی ہے،ادھر ادھر نظر دوڑاتی ہے اور راستہ بھٹک کر کسی پگڈنڈی پر چلنے لگتی ہےجو آگے جاکر اس قدر سکڑ جاتی ہے کہ وہاں سے گذرنا نا ممکن ہوتا ہے۔یہی وہ مقام ہوتا ہے جب خودکشی عزیز لگنے لگتی ہے،سگریٹ کے آخری کش کی طرح یا زندگی عزیزتر ہوجاتی ہے جام میں بچے ہوئے آخری گھونٹ کےمانند ۔دو سال سے ہماری زندگی مجہولیت و محزونیت کی گرفت میں تھی۔گرفت دن بہ دن مضبوط ہوتی جارہی تھی،اس قدر مضبوط کہ کسی بھی وقت ڈھیلی پڑ سکتی تھی اور ایک دن وہ لمحہ آہی گیا جب ہرشئی پر گرفت ڈھیلی پڑگئی۔
ایک دن صبح ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعدپہلے تو میں اپنے ایک دوست کے پاس گیاکہ شائد وہاں سے کچھ کام بن جائے۔ نہیں ایسا نہیں ہوا،یہاں پر میں خود کومہذب ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہوں جب کہ ایسا ہے نہیں، بات یہ ہے کہ صبح جب اٹھا اور چائے طلب کی توبیوی نے کہا کہ چائے نہیں ہےکیوں کہ دودھ،چائے پتی،پیسے کچھ بھی نہیں تھے،بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی ،اس نے مجھے لعن طعن کرنا شروع کردیا،بات بڑھتی گئی یہاں تک کہ میں نےیہاں وہاں کااپنا سارا غصہ بیوی پر نکال دیا۔
تم سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہو،اس لڑکی نے بات منقطع کرتے ہوئے یوں کہاگویا ابھی اس کا گلہ دبادے گی۔
اور ساری عورتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ اس نے جواب دیا ،اب تمہیں سمجھ میں آگیا ہوگا کہ میں تمہاری سرگزشت کیوں نہیں سننا چاہتا تھا۔
تو میں نے سارا غصہ اپنی بیوی پر انڈیل دیاکیوں کہ اب وہ میری حوصلہ افزائی کم اور طعنہ زنی بہت کیا کرتی تھی، میں نے بھی اسے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ زندگی اتنی خوبصورت نہیں ہے کہ اتنے سارے سمجھوتے کروں۔میں گھر چھوڑ کر جارہا تھا کہ میری بچی آگئی۔ میری بیوی نے اسے بھیجا تھا یا وہ خود ہی آگئی تھی مجھے علم نہیں،لیکن وہ میرے پاؤں پکڑ کر کھڑی ہوگئی ،اس نے کہا’ ابو آج میری سائیکل لائیں گے نا؟ ‘ اس کی معصوم آنکھوں اور زبان کی مٹھاس میں زندگی کا حسن نظرآیا،اب میں نارمل ہوگیا تھا،ڈھیرسارا پچھتاوا بھی تھا،معافی مانگنے کے لئے بیوی کے پاس واپس گیا لیکن تب تک وہ خود کوباتھ روم میں بندکرچکی تھی،وہ یقیناً باتھ روم میں رو رہی ہوگی اور اپنی قسمت پرماتم کررہی ہوگی،اسے دونوں کا حق حاصل تھا،اس کے علاوہ میں اسے اور کوئی خوشی نہیں دے سکا۔ میں نے بچی کو یقین دلایا اور ایک ایک کرکے اپنے تین امیر دوستوں کے پاس گیا اس یقین کے ساتھ کہ بات بن جائے گی،میں نے ہرایک کوحیلے بہانے سے بتانے کی کوشش کی کہ میں کسی بہت اہم غرض سے آیا ہوں،جب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ میرے آنے کا مدعا جان چکے ہیں تووہاں سے نکل کر پرانے مالک کے پاس گیا،ابھی تک اس نے میرا حساب کتاب کلیئر نہیں کیا تھا۔جب میں پہنچا تو وہاں مالک کی جگہ میری نجی چیزیں منتظر تھیں۔چیزیں سمیٹ کر جب سیڑھیاں اترآیا تو خود کو چوراہے پر کھڑا پایا ،سڑک وہی تھی۔۔قدموں کی تھکن سے آشنا۔سب کچھ ویسا ہی تھا۔۔۔زیست کے وزن سے بوجھل، لیکن سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کس راستے جاؤں۔شام ڈھل چکی تھی،گھر جانے کی خواہش تیز ہورہی تھی لیکن امید سانس بہ سانس مررہی تھی،تبھی انجنا ہولار کا فون آیا، میں تو اسے بھول ہی چکا تھا۔نہیں، نہیں، ایسا کچھ نہیں تھا جیسا تم سمجھ رہی ہو۔ وہ شادی بیاہ میں گانے وغیرہ گایا کرتی تھی،ایک فن شناس نےاس کے اندر پوشیدہ ہنر کو بھانپ لیا، اسے مشق کرنے اور پروفیشنل ہونے کا مشورہ دیا،لیکن شادی بیاہ میں گاناگاکر گھر چلانے والی لڑکیاں یا خواتین مہنگائی کے اس دور میں پروفیشنل ہونے کی قیمت ادا نہیں کرسکتیں ۔ اس فن شناس نے رحم کیا اور وہ اس کے ساتھ شہر آگئی اور اسی کے ساتھ رہنے لگی۔اس کے ہنر کو نکھارنے میں ایک کردار میرا بھی تھا ،میرا کام اس کی زبان ٹھیک کرنا،صحیح تلفظ کی ادائیگی اور شاعری کی نزاکتوں سے واقف کرانا تھا۔اب وہ اپنے پیشے میں ماہر ہوگئی تھی، اس کی ایک بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ مرزا غالبؔ کا کلام گائے، موسیقی کے استاد نے شاید یہ بات کہی تھی کہ جب تک آپ غالب ؔ کو نہیں گائیں گی لوگ آپ کو تسلیم نہیں کریں گے،تب سے وہ غالبؔ پر کام کررہی تھی ۔
یہ مرزاغالب کون تھا؟ اس لڑکی نے سوال کیا
اردو کا ایک بہت بڑا شاعر تھا،خود بھی برباد ہوا اور سالے نے مجھے بھی برباد کردیا۔
اس نے کیا کیا؟ لڑکی نے بہت معصومیت سے پوچھا
خود تو اپنی پوری زندگی تباہ کرلی اور مجھےبھی کہیں کا نہیں چھوڑا،اس کے چکر میں ،میں بھی کہیں کا نہیں رہا۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ وہ برباد ہونے کے باوجود زندہ ہے اور میں؟ میں کہیں نہیں ہوں۔ اس کی شاعری کو میں حقیقت سمجھ کر جینے لگا اور برباد ہوتا چلا گیا، ایک طرف تو کہتا ہے کہ
بندگی میں بھی وہ آزادہ وہ خودبیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
اور پھر دوسری طرف کہتا ہے
پھر دل طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیاتم کہنا کیا چاہتے ہو؟
جب وہ مجھے سمجھ میں نہیں آیا تو تم کو کیا آئے گاخاک،کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مجھے کچھ اور کرنا چاہئے تھا لیکن اس کی وجہ سے کچھ نہیں کرسکا،اس کی شاعری میں اپنی محرومیوں کا علاج ڈھونڈ لیا تھا۔
ہولارشہر کے ایک دوسرے کنارے پر رہتی تھی،حالات جس رخ پر جارہے تھے اس حساب سے وہاں جاناجوکھم بھرا تھا،ہرچند کہ چہرے مہرے سے میں کسی خاص کمیونٹی کا فرد نظر نہیں آرہا تھا پھر بھی میری چھٹی حس جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی، پھر بچی کا پاؤں پکڑ کر کھڑا ہونا مجھے یاد آگیا۔جب میں وہاں پہنچا تو ہولار باب مارلی کی ’نوویمن نو کرائی‘ سن رہی تھی۔مجھے بھی سننے کے لئے کہا۔کوئی وقت ضائع کئے بغیرمیں سیدھا اصل موضوع پر آگیا، غزلیں پہلے ہی اسے منتخب کرکے دے چکا تھا،جہاں جہاں اسے تلفظ کی دقت ہوئی ٹھیک کیا،معانی سمجھائے ،اس نے محسوس کرلیا کہ آج میں اپنے رنگ میں نہیں ہوں۔
ہولار نےآتے وقت ایک لفافہ تھمایا اور کہا’ حالات بہت خراب ہیں،تمہارا اور دیر رکنا ٹھیک نہیں، باقی کام پرسوں دن میں کرلیں گے۔‘
جب میں واپس آرہا تھا تو پورا شہر فسادکی آگ میں جل رہا تھا، الگ الگ مقامات پرچار دلت نوجوانوں کی لاشیں ملیں اوراقلیتی طبقے کے نوجوانوں کو ان کا قاتل قراردیا گیا،پولیس اور گورنمنٹ کا یہی ورژن تھا اور یہی ہرجگہ چل رہا تھا۔مرنے والوں میں ایک کی شناخت اتل ڈھور کے طور پر کی گئی ہے،اسی لئے میں تجھ سے بار بار پوچھ رہا تھا کہ اتل کا کیا ہوا؟
اوہ مائی گاڈ! لڑکی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکی۔
وہ کچھ دیر تک رکا رہا پھر اپنی گفتگو واپس شروع کی۔
جب میں واپس آرہا تھا تو جگہ جگہ پولیس کی ناکہ بندی تھی،ہرطرف سناٹا تھا، پہلی بار شہر میں رات کا صحیح معنوں میں احساس ہوا، پولیس نے دو تین مقامات پر تلاشی لی،شناختی کارڈ چیک کئے اور پھر ایک جگہ انہوں نے کہا کہ یہ راستہ محفوظ نہیں ،دوسرے راستے سے جائیے۔جب ہم دوسرے راستے سے جارہے تھے توکچھ دور جانے کے بعد بلوائی سامنے آگئے، انہوں نے رکشہ روکا، میں نے جھوٹ بول کر بچنے کی کوشش کی لیکن میرے ہاتھ میں موجود کتابوں نے ساری کہانی بیان کردی،کاش وہ کتابیں کہیں راستے میں پھینک دیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دونوں کی کہانی مکمل ہوچکی تھی،رات ڈھل چکی تھی،ستارےخورشید کی جلومیں روپوش ہوگئے تھے،کہکشاں کی سڑک بھی،جب سورج کی شعاؤں سے اس کی نیند کھلی تواس نے رات کے اپنے قصہ گو ساتھی کو جگانا شروع کیا،اٹھو صبح ہوگئی۔اٹھو ،دیکھو دن نکل آیا ہے،اس نے الٹ پلٹ کر دیکھا وہ مرچکا تھا۔۔۔تم ایسے نہیں مرسکتے،تم نے مجھے بہت حوصلہ دیا ہے۔تم ایسے نہیں مرسکتے،تم ایسے نہیں مرسکتے،اومائی گاڈ ،تم ایسے نہیں مرسکتے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لڑکی اکثر عدالت کے باہر کھڑی نظرآتی ہے کہ ایک دن اسے انصاف ضرورملے گا،ایک بیٹا سوچ رہا ہے کہ اب اس کی آنکھ کا علاج کون کرائے گا،ایک عورت روز باتھ روم میں بند ہوجاتی ہے کہ کاش اسے جاتے ہوئے ایک بار دیکھ لیتی اورایک بچی انتظار کررہی ہے کہ اس کا باپ ایک دن سائیکل لے کرآئے گا اور شہر کے دوسرے چھور پرانجنا ہولار ریاض کررہی ہے’لوح جہاں پہ حرف مکررنہیں ہوں میں۔‘
غزل
یار وعدے کے وہ پکے بھی تو ہوسکتے تھے
جتنے جھوٹے ہیں وہ سچے بھی تو ہوسکتے تھے
یہ الگ بات کہ خاموش رہے سب ورنہ
شہر میں عشق کے چرچے بھی تو ہو سکتے تھے
لکھ کے محفوظ رکھا ہوگا کسی نے ورنہ
ختم دنیا سے یہ قصے بھی تو ہو سکتے تھے
خودکشی کرنا ضروری تو نہیں تھا ہمدم
تم تھے بیمار تو اچھے بھی تو ہوسکتے تھے
تو نے غیروں سے لگا رکھی ہے امید جفا
یار دشمن ترے اپنے بھی تو ہوسکتے تھے
شاعر.. اسدہاشمی
سائبان
ہیں جو گردشیں مہ و سال کی!
مری زندگی کی
یہ اصل ہیں،
یہ جو دھول ہے شب
روز کی
مری کی یہ اڑان ہے،
یہی تجربوں کی ہے
دھوپ سی،
یہی اک سجل مرے
روپ کی جیسے
میں نے رکھا ہے،
سنت کر،
کہ شفق شفق ہے حصار میں
یہ دھنک دھنک سی دیار میں،
کبھی سوچتی ہوں میں
بیٹھ کر ...
ہیں جو گردشیں مہ سال کی،
سو کسی کے ہاتھ ہی
سونپ دوں.،
مری زندگی کا جو اصل
ہے
یہ جو اک سجل مرے
روپ کی
جو کوئی ملے تو
میں واردوں!
مرے تجروں کی یہ دھوپ کو
مری فکر کی یہ اڑان کو
جیسے میں نے رکھا ہے
سینت کر
کہیں سائبان سا تان دوں
حبیبہ اکرام ۔۔۔۔۔۔۔ممبئی