سمجھتے ہیں کہ بچّوں کی ضد یا شرارت کم کرنا ہے تو اُنہیں مار ٹھوک کر اور ڈانٹ ڈپٹ کرکے ختم کیا جاسکتا ہے جبکہ یہ فکر اور سوچ تعلیماتِ اسلامیہ کے اور رواں صدی کے تقاضوں نیز بچّوں کی بدلتی ذہنیت کے بالکل برخلاف ہے۔بچّوں کے اندر تعلیمی اور اخلاقی تبدیلی لانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اُنہیں جانوروں کی طرح مارا جائے یا پھر دشمنوں اور مجرموں کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کرکے لوگوں کے سامنے ذلیل کرکے اُن کی نفسیات کو ٹھیس پہنچائی جائے۔بچّوں کو اگر ہم اپنا وفادار بنانا چاہتے ہیں تو اِس ایڈوانس ٹیکنالوجی کے دور میں جانوروں کی طرح ضربیں لگانا کام نہ آئے گی۔بلکہ درست طریقہ یہ ہے کہ والدین اور اساتذہ اُن کی شرارت اور غلطیوں پر دوستانہ ماحول میں گفتگو کرکے اُنہیں سمجھانے کی کامیاب کوشش کریں۔ایڈوانس ٹیکنالوجی کے اِس دور میں نوخیز بچّوں کو اگر والدین یا اساتذہ سخت و سست الفاظ بول رہے ہیں تو بچّے اُس کو نفسیاتی طور پر اپنی ذلت سمجھتے ہوئے گھر سے راہ فرار اختیار کرلے رہے ہیں یا پھر زیادہ ہی اُس بات کو دل اور دماغ پر لے رہے ہیں تو پھانسی لگاکر اپنی جان ہی گنوادے رہے ہیں۔اِس سلسلے میں والدین اور معمارانِ قوم سے میرا سوال ہے کہ آخر ہم کس زمانے میں جی رہے ہیں؟ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں جسے ایڈوانس ٹیکنالوجی کی صدی کہا جاتا ہے۔اِس دور میں بچّوں کے اندر اصلاحی پہلو سے تبدیلی لانے کے تقاضے بدل گئے ہیں،لوگوں کے سوچنے سمجھنے کے انداز بدل گئے ہیں۔اور بالخصوص اِس صدی کے بچّے جن کے قلوب و اذہان پر جدید ٹیکنالوجی کے آلات کی وجہ سے غیر محسوس طاقتوں کا قبضہ ہوگیا ہے اب ہم چاہتے ہیں کہ اُن پر شدت اور سختی کرکے اُنہیں اپنا بنالیں!اِس صدی میں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔مٹی کے گھروندے اور پلاسٹک کے کھلونوں سے کھیلنے والے،بارش کے پانی میں کاغذ کی ناو چلاکر دل بہلانے والے اب اُس دور میں جی رہے ہیں کہ اُن کے بیٹے اور پوتے اِس دور میں باغیانہ رول ادا کرنے والے سیریل،ایکشن موویز،ویب سیریز،بڑوں سے بغاوت کا کردار سیکھانے والی فلمیں اور معاشرہ میں تخریب کاری کرنے والے ڈرامے دیکھ کر اُنہیں افکار کے حامل ہوچکے ہیں اور ہم چاہتے ہیں اُن پر سخت ایکشن لے کر اُن بچّوں کی اصلاح کریں!جس کا نتیجہ بچّوں کی طرف سے ری ایکشن کے طور پر راہِ فرار یا پھانسی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔بیسویں صدی کے اختتام تک حالات یہ تھے کہ بچّوں کو کسی بات پر والدین یا اساتذہ سرزنش کرتے یا پھر مار دیتے تو بچّوں کی طرف سے اُس عمل کا قطعی ردّ عمل نہیں ہوتا تھا بلکہ جس غلطی پر بچّے کو مار پڑتی وہ غلطی ہی درست ہوجاتی اور والدین و اساتذہ کا خوف بچّے کے دل میں مزید بڑھ جاتا۔اب ہمارے بچّوں کے اندر ڈیجیٹل و شوشل میڈیا پر آنے والے سیریل و موویز کی وجہ سے معاشرہ کے تئیں اور بالخصوص گھریلو معاملات سے متعلق تخریبی صلاحیتیں جنم لے چکی ہیں۔اب بچّے اُن کی اصلاح کرنے والے والدین اور بڑوں کے باغی ہوگئے ہیں۔پھر بھی ہم تربیت کا وہی بیسویں صدی والا پرانا مارپیٹ،سخت و سست کہنے والا انداز اپنائے ہوئے ہیں۔جب بچّوں کی فکر اور اُن کی ذہنیت تبدیل ہوگئی ہے تو اب تربیت بھی اکیسویں صدی کے انداز میں کیجئے اور بچّوں پر شفقت سے پیش آئیے اُن کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے اُن کی اصلاح کیجئے۔تجزیہ یہ ہے کہ اکثر بچّے اسکول یا مدرسہ کی تعلیم میں ناکامی کے سبب گھر سے بہت زیادہ خوف زدہ کیے جاتے ہیں۔شروع کلاس ہی سے بچّے کو ریس کے گھوڑے کی طرح سب سے آگے رکھنے کے لیے مارکس اور فیصدی کا نہ ختم ہونے والا ڈر ان کے قلوب و اذہان میں بٹھادیا جاتا ہے۔اسی ڈر کے سائے میں وہ بچّہ دسویں اور بارہویں تک پہنچتا ہے لیکن جیسے ہی وہ اُس راہ میں ٹھوکر کھاتا ہے مارکس یا فیصدی(پرسنٹ)کم آتا ہے تو گھر والوں کی ڈانٹ اور سرزنش کے خوف سے غلط قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔ایسے وقت میں اکیسویں صدی میں جدید آلات کے جھرمٹ میں زندگی گزارنے والے نازک مزاج بچّے آپ سے آپ کی ہمدردی چاہتے ہیں۔اُنہیں اِس موقع پر آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اُنہیں آپ صحیح مشورہ دے کر خوف کی چادر سے باہر نکالیے۔ورنہ آپ کی تھوڑی سی سختی یا بے توجہی اُس بچّے کی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔اللہ پاک ہمارے بچّوں کے حال پر رحم فرمائے۔آمین
یہ بچّے ہیں کسی ریس میں حصہ لینے والے گھوڑے نہیں!✍🏻 *حافظ محمد غفــــــران اشرفی**(جنرل سکریٹری سنّی جمعیة العوام)*
مئی 27, 2023
اکثر والدین اور مدارس و اسکول کے اساتذہ یہ