نوری مشن مالیگاؤں
عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن صالح ملا
فرش سے ماتم اُٹھے وہ طیب و طاہر گیا
یکم مئی ٢٠٢٣ء/١٠ شوال ١٤٤٤ھ بروز پیر بوقتِ دوپہر مالیگاؤں کی سرگرم دینی شخصیت الحاج حافظ ساجد حسین اشرفی سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے- انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون- تدفین شب میں شہر کے بڑا قبرستان میں عمل میں آئی- نمازِ جنازہ شیخ طریقت حضرت سید محمود اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی صاحب نے پڑھائی-
حافظ ساجد حافظ حسین اشرفی صاحب کے قائم کردہ ادارے یہ ہیں:
(١) دارالعلوم غوث اعظم
(٢) مدرسہ اہلسنّت اُمّ حبیبہ
(٣) مسجد اہلسنّت زیتون حجن
(٤) مسجد اہلسنّت سید انوار اشرف
(٥) مسجد اہلسنّت شہناز حجن
آپ فروغِ دین و سُنیّت کے لیے تاعمر سرگرمِ عمل رہے- تاحیات جدوجہد کرتے رہے- ان کے ادارے ان کی سعی پیہم اور جہدِ مسلسل کی مثالیں ہیں- ان کے یہاں سے ہر سال طلبہ فارغ ہوتے- بچیاں بھی زیورِ علم سے آراستہ ہوتیں- طلبہ کی بہاریں اُن کی تگ و دو کا آئینہ ہے- فارغین مختلف علاقوں میں خدمتِ دین و سُنیّت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں- آپ کے ذریعے درجنوں انجمنیں وجود پائیں- نوجوانوں میں انقلاب برپا ہوا-
مسجد اہلسنّت خانقاہ اشرفیہ میں مدتوں خدمت انجام دی- فرق ہاے باطلہ کی تردید میں آپ کی سنجیدہ تقریروں نے اہم رول ادا کیا- اپنے مسلک و سُنیّت کے اظہار میں کبھی مداہنت سے کام نہیں لیا- اظہارِ حق برملا فرمایا- بکثرت تقریریں عقائدِ اہلسنّت کے عنوان پر مسجد خانقاہ اشرفیہ کے منبر سے کیں- تقریر میں رافضیت و وہابیت و دیگر فِرق ہاے باطلہ کے رَد میں بکثرت مضامین ہوتے- کئی بار تو بدمذہبوں کو اشتعال آیا- لیکن! زبانِ مومن کی کیفیت یہ رہی: بول کہ لب آزاد ہیں تیرے....
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
اہلسنّت کے مخلص داعی و مبلغ تھے- سلسلۂ اشرفیہ کے لیے بے لوث خدمات انجام دیں- اکابرِ اہلسنّت کا احترام کرتے تھے- اکابر سلسلۂ اشرفیہ بالخصوص اعلیٰ حضرت حضور اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمۃ کے طریقے پر گامزن تھے- اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا کے مسلک کی نمائندگی کے لیے دارالعلوم قائم کیا- ان کے ادارے میں اسی مسلکِ عشق و عرفاں کی شرط پر تعلیم دی جاتی ہے-
سال بھر مختلف تقاریب کا انعقاد ہوتا- روحانی محافل پابندی سے سجاتے- متعدد مواقع پر راقم نے بھی شرکت کی سعادت حاصل کی ہے- انھوں نے خواتین اسلام کے لیے بھی پابندی کے ساتھ تربیتی پروگراموں کا اہتمام کیا ہے اور طبقۂ نسواں کی تعلیم و تربیت کے لیے ہمیشہ مستعد رہے ہیں- ان کی روحانی تربیت کے لیے تگ و دو کی ہے- متوسلین و محبین کو چاہیے کہ ان سے اظہارِ محبت میں ان کے مدارس کا ساتھ دیں، ان کی قائم کردہ محافل کو جاری رکھیں- ان کے ادارے میں بچوں بچیوں کو داخل کریں- مالی اعانت سے مدارس کی رگوں کو تازہ لہو فراہم کریں-
عزیمت اور استقامت ان کی ذات کا اہم وصف تھا- اس ضمن میں اکثر میری گفتگو ہوا کرتی تھی- وہ حق پسند تھے، حق گو تھے، حق شناس تھے- غالباً اکتوبر ٢٠٢٢ء میں ایک مخلوط جلسے میں ان کی شرکت ہوئی- بدمذہبوں سے اشتراک و ادغام سے سلفِ صالحین نے منع فرمایا ہے- میں نے فی الفور رابطہ کیا- اور کہا کہ حافظ صاحب! آپ کی شخصیت اور بے داغ کردار سے ہمیں یہ اُمید نہ تھی- بہر کیف ١٢ نومبر سانحہ میں قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنے والے بھائیوں سے اظہارِ ہمدردی میں حافظ صاحب مضطرب تھے اور اسی آڑ میں بدمذہبوں نے دباؤ بنوا کر اشتراک میں کامیابی حاصل کی- حافظ صاحب کو میں نے کہا کہ اس طرح کا اشتراک محروسین کو کچھ فائدہ نہ دے سکے گا- کورٹ میں معاملہ ہے- وکلا کی مضبوط پیروی ہی حل ہے، جو جاری ہے- حافظ صاحب نے فرمایا کہ: میں اب کسی بھی صورت میں ایسے اتحاد سے دور و نفور ہوں- انھوں نے سخت بیزاری و نفرت کا برملا اظہار کیا- قبول حق کا یہ جذبہ مثالی بھی ہے اور باعثِ عمل بھی- اور ان لوگوں کے لیے درس ہے جو گستاخ فرقوں سے شیٖر و شکر ہوتے ہیں-
کچھ مدت بعد ان کا فون آیا- فرمایا کہ مجھے متعدد بار بدمذہبوں نے دعوتِ اتحاد دی، لیکن میں نے سختی سے منع کر دیا کہ میں ایسے اشتراک سے دور ہوں مجھے بالکل مدعو نہ کریں- انھوں نے برملا ان سے دوری کا اظہار کیا اور آخری سانس تک ان سے دوری بنائے رکھی- ان کی گستاخیوں سے عوام مسلمین کو باخبر کرتے رہے- تصلبِ دینی کی تعلیم دیتے رہے-
اعتقادی رخ سے کئی نشستوں پر مشتمل ملاقات رہی- مدینہ کتاب گھر پر بھی متعدد بار گفتگو ہوئی- سبھی کا موضوع اتحاد اہلِ سنّت اور گستاخوں سے بیزاری رہا- بلکہ ان کا وفورِ شوق تو اعلیٰ حضرت کے گستاخوں سے بھی نفرت و دوری بنائے رکھنے پر مُصر تھا- یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس ضمن میں گستاخِ اعلیٰ حضرت کے خلاف دَردِ دل اور سوزِ دروں قلم بند بھی کیا ہے- اور وہ تحریر محفوظ ہے-
ہر سال ان کی نگرانی میں نئی مالدہ کالونی کے مستحق و بیواؤں میں نوری مشن کی طرف سے تحفۂ میلاد "راشن کِٹ"کی تقسیم ہوا کرتی تھی جس کی لسٹ باقاعدہ طور پر بنوا کر بھیجتے تھے.... در اصل ہر سال نوری مشن راشن کٹ پروگرام سے ایک حصہ نئی مالدہ کالونی کے مستحقین کے لیے متعین رہتا ہے.... علاوہ ازیں متعدد علمی کاموں سے متعلق مضبوط رابطہ رہا کرتا تھا- اللّٰہ تعالیٰ ان کی قبر کو جنت الفردوس کی بہاروں کا مسکن بنائے اور خدمات کو قبولیت کی منزل سے سرفراز فرمائے آمین بجاہ حبیبہٖ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم-