ہم اسکول میں داخل ہوئے تو ابتدائی جماعتوں میں سلیٹ اور پیم کا رواج تھا۔ آج بھی ہے۔ تھوڑا آگے بڑھے تو پینسل اور کاپی سے سابقہ پڑھا۔ تیسری,چوتھی جماعت تک پینسل ہی استعما ل کرتے رہے۔ ہاتھوں میں گرپ آگئی ، املا نویسی اور نقل نویسی آنے لگی تو فونٹین پین سے سابقہ پڑا۔ ہم جب ہائی اسکول میں داخل ہوئے تو قلم دوات کا دور رخصت ہوچکا تھا۔ فونٹین پین کا دور آچکا تھا۔ پانچویں جماعت میں داخل ہوئے تو فونٹین پین ہی استعمال کرتے تھے۔ فونٹین پین کی بات ہی عجب تھی۔ فونٹین پین محض پین نہیں تھا بلکہ ایک تہذیب کی علامت تھا۔ اس کے ساتھ ایک تہذیب بھی جڑی ہوئی تھی۔اس زمانے میں ’ ٹائٹس ‘اور کالج کمپنی کی قلم مشہور تھی۔ اس کے علاوہ عام کمپنیوں کی فونٹین پین بھی دستیاب ہوتی تھی۔ غریب طلبہ عام کمپینیوں کی فونٹین پین استعمال کرتے تھے۔ متوسط طبقے کے طلبہ ’ ٹائٹس‘ کمپنی کے فونٹین پین استعمال کرتے تھے۔ ’ کالج‘کمپنی کی فونٹین پین ایسے چند طلبہ کے پاس میسر
ہوتی تھی جن کا شمار امیروں میں ہوتا تھا۔ہم بڑی حسرت سے ایسے طلبہ کی پین دیکھتے تھے۔"کالج پین" ہم غریب طلبہ کاسپنا ہوا کرتا تھا۔ ’ کالج پین" تو بعض اساتذہ کے پاس بھی نہیں ہوتی تھی۔ بعض مرتبہ اساتذہ بھی کالج پین طلبہ سے ادھار مانگ کر لکھتے تھے۔ فونٹین پین کی اپنی شان تھی۔ اس میں سیاہی بھری جاتی تھی۔ اتوار چھٹی کا دن ہوتا ، اس روز قلم کے ناز اٹھائے جاتے۔ہم فونٹین پین کے پرزے الگ الگ کرکے گرم پانی میں ڈبو کر رکھتے اور بڑے چاؤ سے اس کی صفائی کرتے اس وقت وہی ہماری دولت تھی۔ سیاہی بھرنے کے لیے ہم اپنے مکان سے قریب ایک دکان پر سیاہی بھروانے جاتے تھے۔ نیلی، سرخ اور کالی سیاہی دستیاب ہوتی تھی۔ بعد میں ’ جامنی ‘ رنگ کی بھی سیاہی دستیاب ہوگئی۔ نیلے رنگ کی سیاہی سے لکھتے تھے۔ سرخی، سرخ رنگ کی سیاہی سے لکھی جاتی تھی۔ کم ہی طلبہ ایسے ہوتے جن کے پاس نیلے اور سرخ دونوں رنگ کی سیاہی کے قلم دستیاب ہوتے۔ ہم اپنے دوستوں سے سرخ رنگ کی سیاہی کی قلم ادھار مانگ کر سرخی لکھتے تھے۔ اساتذہ سرخ رنگ کی سیاہی سے بیاضیں چیک کرتے تھے۔ فونٹین پین چلتے چلتے رک جاتی تو اسے جھٹک دینے سےدوبارہ رواں ہوجاتی۔ جھٹکنے سے جب مسئلہ حل نہیں ہوتا تو نِب کی دراڑ میں بلیڈ چلاتے تو پین رواں ہوجاتی۔ اگر لکھتے وقت سیاہی ختم ہوجاتی تو بڑا مسئلہ پید اہوجاتا۔ اگر کسی کے پاس شلک پین موجود ہوتی تو اس کی منت سماجت کرکے ادھار لیتے۔ دینے والا بھی بڑے رعب سے تاکید کرکے دیتا کہ پین خراب نہیں ہونی چاہیے۔ بعض مرتبہ ہم ساتھی
طلبہ کی پین سے سیاہی ادھار لیتے اور دوسرے روز اسے پین کے ذریعے ہی سیاہی واپس کر دیتے۔ فونٹین پین کے ساتھ ایک صافی ( کپڑے کا ٹکڑا) کمپاس میں رکھنا ضروری ہوتا۔ بوقت ضرورت اس سے پین یا ہاتھ میں لگی سیاہی صاف کرتے۔ فونٹین پین کی گرپ کی جگہ میں جب دراڑ آجاتی تو اس میں اسے سیاہی بہہ نکلتی۔ لکھتے وقت انگلیوں پر جو نشان آجاتا اس کا نقش آج بھی ذہن پر موجود ہے۔ ایسے وقت صافی کا کام لگتا تھا۔ اکثر قلم کو سر پر رگڑ کر سیاہی صاف کرلیتے۔کبھی کبھی اس کام کے لئے دوستوں کے سر کو بھی استعمال کر لیتے۔ قلم چلتے چلتے جب نِب خراب ہوجاتی یا ٹوٹ جاتی تو ہم اسٹیشنری کی دکان پر جا کر نئی نِب لگوالیتے ، یوں ایک پین کم از کم سال بھر استعمال کرتے۔ سال بھر میں پین سے جو محبت پیدا ہوجاتی وہ آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ فونٹین پین جھٹکنے سے اس میں سے سیاہی کی ایک پھوار نکلتی۔ اکثر شریر طلبہ دوسرے بچوں کے یونیفارم پر سیاہی چھڑک دیتے جو کبھی کبھار جھگڑے کا سبب بن جاتا۔ فونٹین پین مختلف رنگوں اور ڈیزائن میں دستیاب ہوتے ۔ ہم وہی پین پسند کرتے جس میں گِرپ کی جگہ سے سیاہی نظر آتی تاکہ سیاہی ختم ہونے کا اندازا لگایا جاسکے۔ فونٹین پین خراب ہونے پر جیب میں رکھنے سے جیب خراب ہوجاتا جس کا اثر کئی دنوں تک جیب پر محسوس ہوتا۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم دسویں جماعت میں تھے اس وقت والد صاحب نے بڑی محبت سے پانچ قندیل پر موجود ’ آدرش پستکالیہ ‘ سے" کالج پین دلوادی" تھا۔ دراصل کالج پین عام دکانوں پر دستیاب نہیں ہوتی تھا۔ "کالج پین" پا کر وہی خوشی محسوس ہوئی جو ایک بچے کو عید کے کپڑے خریدنے پر ہوتی ہے۔ کالج پین کا خمار کئی مہینوں تک رہا۔ میرے ساتھی بڑی حسرت سے دیکھتے تھے کہ اس کے پاس تو کالج پین ہے۔ اس وقت "کالج پین"
پچیس روپے کا ہوا کرتا تھا۔
ہمارے ہائی اسکول کے زمانے میں ہی بال پین نے دستک دے دی تھی۔ مگر ہم بال پین کے استعمال کو مکروہ سمجھتے تھے۔ اساتذہ بھی بال پین کو ذرہ برابر بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ خوشخطی کے مداح تو بال پین کو حقارت سے دیکھتے تھے، کیوں کہ یہ تحریر کو خراب کرنے کا سب سے آسان اور سستا ذریعہ تھا۔ بال پین کے استعمال کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اساتذہ ہمیشہ سیاہی پین ہی استعمال کرنے کی صلاح دیتے ۔ بال پین میں سیاہی نا بھرنے کی آسانی ، کپڑے خراب نا ہونا وغیرہ فائدوں کے سبب بال پین نے آہستہ آہستہ سیاہی پین کی جگہ لے لی۔ ابتدا میں جو بال پین آئے۔ اس میں رِفل ہو کرتی تھی۔ آج بھی رِفل والے بال پین دستاب ہیں۔ جب رِفل ختم ہوجاتی تو ہم اسٹیشنری کی دکان پر جا کر نئی رِفل لگوالیتے۔ پھر آہستہ سے ایسے بال پین آئے جو ایک طرف سے نیلی سیاہی اور دوسری طرف سے سرخ سیاہی کے ہوتے تھے۔ پھر ایسے پین بھی آگئے جس میں نیلی اور سرخ سیاہی کی رِفل ایک ساتھ بازو بازو میں ہوا کرتی تھی۔ ہم بڑے شوق سے دو رنگوں کابال پین خریدتے تھے۔ پھر بال پین نےترقی کرلی ایسے بال پین آگئے جس میں ایک ہی پین میں نیلی، سرخ، کالی اور ہرے رنگ کی سیاہی کی رِفل ایک ساتھ ہوا کرتی تھی۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے،ہم جب دسویں جماعت میں تھے، اس وقت ہمارے ایک عزیز دوست کے پاس" پائلیٹ پین"تھی جو اس کے ایک رشتے دار نے بیرون ملک سے بھیجی تھی۔اس وقت"پائلیٹ پین" ملک میں دستیاب نہیں تھی۔ ہم بڑی حسرت سے وہ پین ہاتھوں لے کر دیکھتے۔آہستہ آہستہ "پائلیٹ پین"بھی عام ہو گئی۔
"ہیرو"پین اس وقت حج سے آنے کے بعد تحفے میں دی جاتی تھی۔کم ہی لوگوں کے پاس ہیرو پین ہوتی تھی جس میں پمپ کے ذریعے سیاہی بھری جاتی ہے۔ابتدا میں کالی،سبز اور لال رنگ کی ہیرو پین دستیاب تھی،اب تو بہت سے کلر ڈیزائن میں دستیاب ہے۔
اس کے بعد زمانہ اس قدر تیزی سے بدلا کہ مختلف کمپنیوں کی پین بازار میں دستیاب ہونے لگی۔رینالڈ، ایڈ،سیلو،روٹو میک وغیرہ کمپنیوں کے بال پین اور جیل پین آگئے۔چائنہ کی"یوز اینڈ تھرو"پین نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔قلم اور اس جڑی تہذیب کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔
پین کی تہذیب اب بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔اب بھی پین کے شوقین پائے جاتے ہیں مگر دال میں نمک کے برابر۔پین کا سفر اب بھی جاری ہے۔پارکر،پیری کارڈن وغیرہ پین اب
بھی"اسٹیٹس سمبل" مانے جاتے ہیں۔سچ ہے کروڑوں روپے کے چیک پر چائنہ پین سے دستخط کرنا نری بد ذوقی اور چیک کی بے عزتی کے مترادف ہی ہے۔
پین کا سفر جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا۔ مگر خوشخطی،خوشنویسی اور خطاطی کی پوری دنیا اجڑ گئی ہے جسے پھر سے آباد کرنے کی ضرورت ہے۔