آج ٹیپو سلطان کی برسی کے موقع پہ انڈیا کے ٹاپ کے کرٹکس ترن آدرش اور سمیت کاڈیل صاحب کی جانب سے ایک پروموشنل ویڈیو جاری کی گئی جس میں ٹیپو سلطان پہ مبنی فلم کی جھلکیاں تھی۔ اور یہ ویڈیو دیکھ کر میں شاک کی کیفیت میں بیٹھا رہا کیوں کہ مودی زدہ ڈائریکٹر نے تاریخ سے اتنا سفاک کھلواڑ کیا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس قدر اس ویڈیو میں ایسا کیا تھا آئیے جانتے ہیں۔
"ٹیپو سلطان نے 800 مندر اور 27 چرچ توڑے تھے۔ چالیس لاکھ ہندوؤں کو زبردستی مسلمان کیا گیا تھا۔ ایک لاکھ سے زائد ہندوؤں کو غلام بناکر میسور کی سلطنت میں رکھا گیا تھا۔ دو ہزار سے زائد براہمن فیملیز کو غائب کردیا گیا تھا"
یہ سب چیزیں پڑھ کر آپ بیک وقت ہنسیں گے بھی اور روئیں گے بھی۔ تاریخ سے نا بلد ڈائریکٹر کا دعویٰ ہے اس نے یہ سب تاریخ سے نکالا ہے۔ اگر ڈائریکٹر صاحب زرا بھی مطالعہ کے شوقین ہوتے تو علم ہوتا کہ میسور کی ریاست قائم کرنے میں سلطان حیدر علی کے دوست ایک براہمن پنڈت نے اس کی مدد کی تھی۔ جب کہ ٹیپو سلطان نے خود کئی مندر بنائے تھے ہندوؤں کے لیے جن میں سے لکشمی کانتا مندر اور نارائن سوامی مندر آج بھی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ اب سب سے اہم بات یہ سن لیں کہ ٹیپو سلطان کے خلاف لڑائی میں انگریزوں کا ساتھ مرہٹوں نے دیا تھا۔ لیکن ہندو راجپوتوں نے ٹیپو سلطان کا ساتھ دیا تھا اور سلطان کی فوج میں بیس فیصد ہندو شامل تھے۔ اور خاص صلاح کاروں میں شری نواس راؤ اور اپاجی رام جیسے زیرک کمانڈر شامل تھے۔ ایسے میں ڈائریکٹر کا یہ مزہبی بغض دیکھ کر میں حیران ہوں۔ ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ٹیپو سلطان کے دور میں 156 مندروں کو حکومت کی طرف سے وظیفہ بھی ملتا تھا۔ اور اس بات کو آپ کسی بھی ہسٹورین سے کنفرم کرسکتے ہیں۔
میرا غصہ نا اس فلم کی کہانی پہ اور نا ہی کسی اور چیز پہ۔ بس مجھے غصہ اس بات کا ہے کہ کیا سوچ کر ڈائریکٹر نے پوسٹر پہ ٹیپو سلطان کے چہرے پہ کالک ملی ہے؟؟؟؟ بھئی ایک مووی بنا رہے ہیں آپ جس میں آپ اپنی مرضی کی تاریخ گھسانا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی اپ کر بھی سکتے ہیں۔ پر کسی تاریخی شخصیت کے چہرے پہ یوں کالک مل کر کم سے کم اپنی پروپیگنڈا ویڈیو کو فلم کا نام تو نا دیں۔
خیر کشمیر فاٸلز جیسی خطرناک فلم کے ہٹ ھو جانے کے بعد ایسی فلموں کا بننا تعجب کی بات نہیں۔ فلم ہٹ کروانے کا آسان ٹوٹکا جو ہاتھ لگ چکا ھے۔ بالی ووڈ بڑی تیزی سے مودی ووڈ بنتا جا رہا ھے۔ ہم اس معاملے میں اپنے پڑوسیوں سے بہت بہتر ہیں کہ ھمارے ہاں ایسی چیزیں نہ تو تھوک کے حساب سے بنتی ہیں اور نہ بکتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال ھمارے ”نامور صحافی“ کامران شاہد صاحب کی فلم ھے جس کا حشر کچھ اچھا نہیں ھوا۔
فلم کم سے کم میرے نزدیک ایک مقدس شے ہے جسے کسی فاشسٹ نظریات کے حامل شخص کی بھینٹ نہیں چڑھنے دینا چاہیئے۔ باقی آپ مجھ سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔ بہت شکریہ
فلم کی پروموشنل ویڈیو ترن آدرش کے ٹویٹر پیج پر دیکھی جا سکتی ھے۔