یاتو مرکزی وزارت داخلہ سچ ہے یا پھر وویک اگنی ہوتری ۔ دونوں ہی توسچ نہیں ہوسکتے۔ بات کشمیر میں پنڈتوں کی ہلاکت کے اعدادوشمار کے حوالے سے ہورہی ہے۔ انگریزی کے معروف اخبار روزنامہ ٹائمز آف انڈیا نے ایک ڈاٹا شائع کیا ہے، جو ۱۹۸۹ سے لے کر اب تک کشمیر میں مارے گئے پنڈتوں کی تعداد پر مشتمل ہے۔ تعداد چار حوالوں سے حاصل کی گئی ہیں، مرکزی وزیر داخلہ کے راجیہ سبھا میں دئیے گئے بیان سے، جس میں مرنے والے پنڈتوں کی تعداد ۲۱۹ بتائی گئی ہے۔ دوسرا حوالہ آر ایس ایس کے ذریعہ شائع ایک انگریزی کتاب ’کشمیر میں ہندوئوں کا قتل عام‘ سے ہے اس میں تعداد ۶۰۰ بتائی گئی ہے۔ یہ کتاب ۱۹۹۱ میں شائع کی گئی تھی۔ ایک حوالہ ’کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی‘ کا ہے جو کشمیر ی پنڈتوں کی ایک تنظیم ہے، یہ تنظیم کشمیری پنڈتوں کی باز آبادکاری کےلیے جدوجہد کررہی ہے، اس میں تعداد ۶۵۰ بتائی گئی ہے اور چوتھا حوالہ فلم پروڈیوسر وڈائریکٹر وویک اگنی ہوتری کی فلم ’کشمیر فائلس‘ کا ہے جس میں مرنے و الے پنڈتوں کی تعداد چار ہزار بتائی گئی ہے۔ وویک اگنی ہوتری کی تعداد وزارت داخلہ کی تعداد سے ۳۷۸۱ اور آر ایس ایس کے ذریعہ شائع کتاب سے ۳۴۰۰، نیز کشمیری پنڈتوں کی تنظیم کی تعداد سے ۳۳۵۰، زیادہ ہے! سوال یہ ہے کہ حکومت ہند کی مرکزی وزارت داخلہ کو وہ اعدادوشمار کیوں دستیاب نہیں ہوسکے جو وویک اگنی ہوتری نے ’کشمیر فائلس‘ میں پیش کیے ہیں، یا جو آر ایس ایس کی کتاب اور کشمیری پنڈتوں کی تنظیم نے بتائے ہیں۔؟؟ اگر وویک اگنی ہوتری کی فلم میں مہلوکین کی جو تعداد بتائی گئی ہے وہ سچ ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ، آر ایس ایس اور کشمیری پنڈتوں کی تنظیم نے مہلوکین کی تعداد چھپائی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بھلا مرکزی وزارت داخلہ یا آر ایس ایس اور کشمیری پنڈتوں کی تنظیم کو تعداد چھپانے کی کیا ضرورت تھی، وہ تعداد جس قدر بڑھا چڑھا کر دکھاتے اسی قدر ان کا آج کا بیانیہ کہ ’’کشمیری پنڈتوں کی نسل کشی ‘‘کی گئی ہے، سچ ثابت ہوتا؟ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ۱۹۸۹ کے بعد پنڈتوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، کیوں کہ مذکورہ سن میں جموں کشمیر کے گورنر جگموہن نے کشمیر کو پنڈتوں سے تقریباً خالی کرالیا تھا، بس گنتی ہی کے پنڈت رہ گئے تھے، اوروہ آج بھی کشمیر میں رہ رہے ہیں۔ تو کیا یہ ’کشمیر فائلس‘ میں جو اضافی تعداد مہلوک پنڈتوں کی بتائی گئی ہے، وہ جموں کشمیر سے باہر کی ہے؟ کہیں اور یہ مارے گئے ہیں؟ کسی اور ملک میں؟ پورا یقین ہے کہ وویک اگنی ہوتری اس سوال کا جواب نہیں دے سکیں گے کیو ںکہ ان کی تعداد اسی قدر فرضی اور غیر حقیقی ہے جس قدر فرضی اور غیر حقیقی فلم ’کشمیر فائلس‘ ہے۔ سرکاری اعدادوشمار میں کچھ کمی بیشی ہوسکتی ہے مگر اتنی نہیں کہ سرکاری تعداد کے مقابلے غیر سرکاری تعداد میں ۳۷۸۱ مہلوکین کے اضافے کو سچ مان لیاجائے۔ پنڈتوں کی تنظیم بھی کیوں کوئی غیر حقیقی یا فرضی تعداد بتا کر اپنے موقف کو کمزور کرے گی۔ رہا آر ایس ایس تو پروپیگنڈہ تو اس کی فطرت ہے لیکن اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے وہ کچھ تو ہوش کے ناخن لیتی ہے۔ لہذا وویک اگنی ہوتری کی پیش کی ہوئی تعداد فرضی اور فیک ہے ، اسی لیے ان کی فلم ’کشمیر فائلس‘ بھی فرضی اور فیک ہے، اور اس کے وہ ناظرین بھی جو فلم دیکھ کر روتے بلکتے نظر آرہے ہیں، فیک اور فرضی ہیں۔ اور یہ سارا ہائوس فل اور بزنس کا شور بھی ۔ اس فلم کو چونکہ مودی اینڈ کمپنی چلا رہی ہے، اس لیے اس کا شور ہے، ورنہ یہ ایک اوسط درجے کی کمزور اداکاری والی اور بغیر کسی کہانی کی فلم ہے۔ اسے صرف ایک نام دیاجاسکتا ہے ’پروپیگنڈہ فائلس بس
مکالماتی مائکروف ایونٹ
مائکروف # 39
مصنفہ: کوثر بیگ
الفاظ : 593
||||||||||||||||||||| جھیل کی ناف میں اُگا کنول |||||||||||||||||||||
آنس:
تمہاری نظریں اس روشن چاند پر ٹکی تو ہیں مگر شفاف ریت پر تمہارے پاؤں کی مسلسل جنبش تمہاری بیقراری کا بھی مظہر ہیں۔ چاندنی سے نتھرا ہوا حسن، قلانچیں بھرتی غزال سی آنکھیں ۔۔۔۔ تمہارے لبوں پر برف کا جمود اور تمہاری خاموشی نقش فریادی کی طرح اپنا مدعا بیان کر رہی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ تم مجھے اپنے مضطرب آنچل سے باندھ لینا چاہتی ہو؟ تمہیں یاد تو ہوگا یہ فیصلہ ہمارا مشترکہ تھا نا؟
ثمرین:
ہاں مجھے سب یاد ہے۔
آنس:
تو پھر یوں چپ سی کیوں لگی ہے؟
ثمرین:
کبھی کبھی الفاظ ہمارا ساتھ نہیں دیتے، گنگ ہوجاتے ہیں۔
بلکہ یوں سمجھو مجھے مافوق الفطرت طاقت نے اپنی سحر انگیزی میں جکڑ لیا ہے۔
آنس:
آؤ ہم اس گل مہر کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر دھول جمی ان یادوں کو دھو لیتے ہیں۔
ثمرین:
جس طرح ان پتوں کے خمار میں زندگی کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے ۔جیسے شجر حیات سے منکوں کی طرح شاخ بدن سے گوندھے ہوئے پتے ۔۔۔۔ میں اور تم بھی اسی شاخ شجر سے جڑے ہوئے ہیں۔
آنس:
حسن کی چاندنی برقرار رہے نہ رہے۔ عشق کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے میری محبت ابد تک رہے گی ۔
ثمرین:
عشق کے بیل سے لپٹا ہوا حسن بہار و خزاں کے فلسفے پر یقین نہیں رکھتا۔ عشق میں صبر و ضبط و استقلال کے جذبے ہی اس قلبی وارفتگی کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں۔
آنس:
تمہارا ایک شعوری ہاں کافی ہے۔ میں فکرِ دنیا سے بے نیاز تمہارے پہلو میں اس ہائسِنتھ [hycinth] کی طرح پڑا رہونگا۔
ہمارا یہ فیصلہ تیز دھار تلوار کی نوک کی طرح دل میں چبھ رہا ہے ……… میں تمہارا ساتھ چاہتا ہوں جانِ من…… عشق کی بیل سے لپٹ کر امر بیل بننا چاہتاہوں!
ثمرین:
امید کے گھنگھرو انتظار کے پاؤں میں اس وقت سے بندھے ہیں جب گل مہر نے اپنا پیرہن اتار دیا تھا۔
آنس:
تمہاری آواز کی تھرتھراہٹ مجھے اپنے فیصلے سے متزلزل کررہی ہے۔ تم نے گل مہر کے ان پتوں کو شاخ گل سے جدا ہوکر زمین پر تڑپتے مچلتے دیکھا ہے؟ کیا ہم ایک دوسرے کے بِنا رہ پائیں گے؟؟
ثمرین:
یاد ہے تمہیں، تم نے کہا تھا ، میں تمہارے وجود کا حصؔہ ہوں ۔
آنس:
ہاں اور یہ بھی کہا تھا کہ جب تم مجھے اپنے قریب نہ پاؤگی تو دُکھی ہوجاؤگی ڈئیر ۔
ثمرین:
لیکن اب میں خود کو تم سے الگ محسوس نہیں کرتی؛ تم میرے دل کی آنکھ میں کسی پتلی کی طرح ہو۔ اب تمہارا ہر خواب میرا ہے ۔
آنس:
تم فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وقت اندمال کردیتا ہے۔
ثمرین:
میں اپنی محبت میں گرفتار کرنے سے زیادہ تمہارے منصوبوں، خوابوں، ارادوں میں حصؔہ دار بننا چاہتی ہوں۔ میں تم کو ہر رشتہ میں سرخ رو دیکھنا چاہتی ہوں ۔ چونکہ تمہارا ہر خواب میرا ہے تو اب تمہاری ماں کا علاج ، بہن کی شادی ، بھائی کی اعلیٰ تعلیم اور ایک جدید گھر کی تعمیر یہ سب بھی میری ضرورتیں اور خواب بن گئے ہیں۔
آنس:
ہم پاس ہوں یا دور، ایک ہیں، ایک رہیں گے۔ ہمارے ملنے کی تمنا ہر روز اس زندگی کو تابانی بخشتی رہے گی۔ پھر ایک دن یہ فاصلہ مٹ ہی جائےگا۔
ثمرین:
جاناں! بس اتنا کردو کہ اپنے مضبوط ہاتھوں سے میرا ہاتھ تھام کر مجھے سینے سے لگا کر اس طویل فسوی بھری خاموشی کو ایک نئی آواز دو تاکہ شاخ گل کی کلی کھل اٹھے، اس کی افسردگی دور ہو۔ دیکھو! دور جھیل کی ناف میں اُگے سبز پتوں کے گرد پاکیزہ کنول مسکرارہے ہیں۔
*عبدالسلام اظہر اور عکس*
*🖊️طارق اسلم*
*اردو گگن* نام سے ایک وہاٹس ایپ گروپ ہے جس میں روزانہ کچھ نا کچھ مخصوص سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے- اسی طرح کی ایک سرگرمی ہے *لفظ پر اشعار* آج کا لفظ تھا *عکس*- اتفاق سے جب سرگرمی شروع ہوئی اس وقت *عبدالسلام اظہر کی انا البحر* ہاتھوں میں تھی اور پھر پوری کتاب سے ایسے اشعار تلاش کرکے اسے اردو گگن کی سرگرمی میں پیش کردیا- عبدالسلام اظہر کے ایسے اشعار جن میں لفظ *عکس* استعمال ہوا ہے درج ذیل ہیں - آپ بھی پڑھئے اور داد دیجئے کہ موصوف نے کیا ہے شاندار اشعار کہے ہیں
آئینہ توڑنے کو اچھالا گیا مگر
خود اپنا *عکس* دیکھ کے پتھر ہےآب آب
*عبدالسلام اظہر*
میں *عکسِ* آرزوئے شبِ ہجر ہوں یہاں
کاغذ پہ لفظ لفظ جسے لکھ رہا ہے وہ
*عبدالسلام اظہر*
کترا رہے ہیں لوگ اب اپنے ہی *عکس* سے
ہرآئینہ ہو جیسے شباہت کا مرثیہ
*عبدالسلام اظہر*
کس طرح دیکھو گے اظہر اپنے چہرے کے نقوش
*عکسِ* دشمن یہ ہَوا جب آئینہ لے جائے گی
*عبدالسلام اظہر*
" کرب" بینائی کا میں الفاظ میں رکھ دوں مگر
شیشہءالفاظ میں *عکسِ* نظر دیکھے گا کون
*عبدالسلام اظہر*
. کھو جائے گا نشان تک آغوش ِخاک میں
*عکسِ* تہہِ وجود ابھارے گا جب یہاں
*عبدالسلام اظہر*
حیراں ہیں آئینے کہ نہیں *عکس* مستقل
ہر لمحہ اپنا چہرہ بدلتی ہے یہ صدی
*عبدالسلام اظہر*
زرد ہو پائے نہ جو اپنے ہی زہرِ *عکس* سے
آئینے کے سامنے ایسا کوئی چہرہ نہ تھا
*عبدالسلام اظہر*
آئینوں سے *عکس* لے جائے گی اک اندھی بلا
چہرہ چہرہ جب نقابوں کا ہنر رکھ دے گا وہ
*عبدالسلام اظہر*
اے دوست *عکس* ہے ترے رنگیں لباس کا
یہ کائنات ِرنگ جو تتلی کے پر میں ہے
*عبدالسلام اظہر*
میں *عکسِ* رنگ ہوں موسم کا آئینہ اظہر
چھپا کے سینے میں صدیوں سے پالتا ہے مجھے
*عبدالسلام اظہر*
نہیں ہے مشکل ہمارے دستِ ہنر کے آگے
سیہ چٹانوں پہ *عکس* کوئی ابھار دینا
*عبدالسلام اظہر*
غزل
انیس اظہرؔ
بات دریا سے جب چلی ہوگی
میرے ہونٹوں پہ تشنگی ہوگی
کب کوئی ساتھ دن گزارے گا
کب کوئی رات شبنمی ہوگی
وہ مرے ساتھ چل رہا ہے مگر
اس کو تنہائی کھل رہی ہوگی
اس نے یونہی نہیں مجھےچھوڑا
میرے اندر ہی کچھ کمی ہوگی
اور کتنے عذاب اتریں گے
اور اب کتنی دل لگی ہوگی
مجھ کو جانے دے گردشِ دوراں
ماں مری راہ دیکھتی ہو گی
تھک کے مت بیٹھنا انیس اظہرؔ
زندگی راہ میں کھڑی ہوگی