رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی۔
بچے میری انگلی تھامے دھیرے دھیرے چلتے تھے،پھر وہ آگے دوڑ گئے میں پیچھے چھوٹ گیا۔
میں جیسے ہی مولانا کے پاس سے باہر آیا تو مولانا کے چھوٹے بیٹے بسم اللہ کو تلاش کیا جس کی عمر غالباً 6/7 سال ہوگی، مگر دکھائی نہ دیا ، ہمارے مکتب کے معلم مولانا رضوان صاحب اشرفی نے بتایا کہ ابھی بسم اللہ مجھے دیکھ کر کہہ رہاتھا ،کہ تم ہمارے گھر پے کیوں آئیں حافظ صاحب ، مولانا اس کا یہ جملہ سن کر پانی پانی ہوگئے، آج بھی بسم اللہ کی نظریں مسجد میں اپنے والد کو تلاش کرتی دکھائی دے رہی ہیں ، مگر وہ کسی سے سوال نہیں کرپارہاہے ، چونکہ بسم اللہ سلمہ کو ہمیشہ مولانا کے ساتھ انگلی پکڑکر مسجد میں آتے دیکھا ہے ، عاجز نے کئی مرتبہ دیکھا کہ مولانا اگر تلاوت میں مصروف ہوتے، توبسم اللہ آکر مولانا کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتا ، اور مولانا اپنی تلاوت میں مصروف رہتے ، مولانا نے بسم اللہ کو مسجد میں رہنے کا اتنا عادی بنا دیا تھا کہ، رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں میرے پاس آکر کہنے لگا حافظ صاحب مجھے بھی اعتکاف میں بیٹھنا ہے ، میں نے کہا ٹھیک ہے ، پھر یہ جذبہ دیکھ کر میں نے اسے مسجد کے ذمہ دار سلیمان بھائی کے پاس بھیجا کہ ان سے کہو، وہ ان کے پاس بھی گیا اور کہا مجھے اعتکاف میں بیٹھنا ہے، وہ میری طرف دیکھ کر مسکراۓ اور کہا ٹھیک ہے ،پھر یہ سن کر بسم اللہ مولانا کی طرف گیا ، اور ان سے کہنے لگا، ہم اعتکاف میں بیٹھیں گے، مولانا نے ہاں میں جواب دیا، مگر آج مولانا زبان حال سے گویا کہ کہہ رہے ہیں ،
بچے میری انگلی تھامے دھیرے دھیرے چلتے تھے،پھر وہ آگے دوڑ گئے میں پیچھے چھوٹ گیا۔
مولانا نے اپنی زندگی میں ایک زبردست انقلاب پیدا کیا تھا جسے دیکھ کر عملی جذبہ پیدا ہوتا تھا ، اسی رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کی بات ہے ، ہم کچھ ساتھی مسنون اعتکاف میں تھے ،تو کبھی رات ڈھائی بجے تو کبھی تین بجے مسجد آپ کاآنا تہجد اور دعاؤں میں آہ و زاری کرنا روزانہ کا معمول دیکھنے کو ملا ، نیز رمضان المبارک کے تیسرے دن ملاقات ہوئی عید کاسلام وکلام ہوا ، اخیر میں کہنے لگے کہ ، مولانا ١/شوال سے یومیہ تین پارے پڑھنے کی ترتیب بنایا ہوں ، استقامت کے لیے دعا کریں اسطرح کہہ کر مجھے بھی اشارہ دیدیا کہ یومیہ تین پارے کا اہتمام ہونا چاہیے ۔ جس وقت آپ تین پاروں کی تلاوت کے لیے بیٹھتے تھے ، اسی وقت بسم اللہ مسجد آجاتا تھا ، گذشتہ دو روز پہلے کی بات ہے مسجد کے ساتھی کہنے لگے ، مولانا مولانا کا بیٹا برابر تلاوت کے وقت مولانا کو تلاش کرنے کے لیے آرہا ہے ، ذرا غور کریں وہ معصوم کس جذبہ کے ساتھ آرہا ہوں گا مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک صاحب نے بتایا کہ مولانا کے انتقال کے بعد جب آپ کو گھر میں لٹا دیا گیا ، تو یہ معصوم بسم اللہ بار بار یہ کہہ کر مجھے ابو کے پاس سونا ہے ، اٹھتا اور مولانا کی بغل سے چمٹ کر سوجاتا پھر باہر جاتا اور واپس آکر مولانا کی بغل سے چمٹ کر سوجاتا ،جسے دیکھ کر ، اہل خانہ کا دکھ ودرد مزید دو بالا ہوجاتا ۔
درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی
موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی ۔
مولانا موصوف گوناگوں خصوصیات اور اوصاف وکمالات کے حامل تھے ، مجھے ان کے ماضی کے احوال نہیں معلوم ،مگر میں نے اپنے تین سالہ خدماتی دور میں محلے کے سنجیدہ اور سمجھ دار عالم دین کی شکل میں ان کو پایا ، ہمیشہ حوصلہ افزائی ، مفید مشوروں سے نوازنا، آپ کی عادت تھی ، ہم جس دور میں ہیں، اس میں خردوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے اگر کہوں توشاید غلط نہیں ہوگا ، خصوصاً قدیم فضلاء جدید فضلاء کو حوصلہ افزائی کے ذریعے آگے بڑھا رہے ہو ایسی مثال شاذ و نادر دکھائی دیتی ہے ، مولانا کا شمار بھی انہیں میں تھا ، شروع دن سے وہ میرے ساتھ کھڑے تھے، کبھی حوصلہ شکنی نہیں فرماتے ، ہمیشہ حوصلہ دیتے ، آپ سے میری پہلی ملاقات مسجد عائشہ ہی میں حضرت مولانا صادق صاحب تونڈاپوری زید فیضہ (استاذ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا) کے توسط ہوئی تھی ، مولانا ہی نے آپ کا تعارف کرایا تھا ، کہ مولانا ہمارے عنبڑ کے زمانہ تدریس کے ساتھی ہیں ، اور حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کے ہم درس ہیں، آپ کی فراغت 2002/میں ہوئی ہے ،ابھی تجارت وغیرہ کی مصروفیات ہیں ،یہ پہلی ملاقات تھی ، پھر اس کے بعد تعلقات میں اضافہ ہوتا گیا ، ایک دوسرے سے اہم باتوں میں اظہار خیال بھی ہوتا رہا ، اخیر عشرہ میں غالباً ٢٢/شب کو کئی چیزوں پر رات دیر تک گفتگو بھی ہوئی تھی جس کے ذریعے مولانا کے مزید حالات سے آگاہی ہوئی، آپ گھر کے ایک ذمہ دار تھے، آپ کا فیصلہ گھر میں آخری فیصلہ کی حیثیت رکھتا تھا ، آپ مسجد کے ہر کام میں مالی تعاون فرماتے تھے ، صوم و صلوٰۃ ذکر واذکار کے بہت پابند تھے ، اخیر ایام میں تو آپ پر گویا کہ ایک حال طاری تھا ، لکھنے کی بہت سی باتیں ہیں مگر اسی پر اب اکتفا کرتا ہوں اس فقرہ کے ساتھ کہ ،کسی قریبی شخص کے انتقال کے صدمے سے دو چار ہونا ایک ایسا تکلیف دہ تجربہ ہے جس سے جلد یا بدیر ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے۔