*مفتی محمد خالد ملی (نظام پورہ، مالیگاؤں)*
(جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء کھڑکی وڑگاؤں یونٹ و رکن مجلس منتظمہ وعاملہ جمعیۃ علماء ضلع ناسک)
آج سے تقریباً ۱۰۴ سال قبل ریشمی رومال تحریک کے روح رواں، اسیر مالٹا، دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانی شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒکی ہدایت پر انگریزوں سے ملک کی آزادی کے لئے ہندوستانی علماء نے ایک مؤثر ومضبوط تنظیم کے قیام کا فیصلہ کیا جس کا مقصد ملک کی آزادی کے لئے مشترکہ جد وجہد کے ساتھ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہندوستانی مسلمانوں کے دینی وسماجی وسیاسی مسائل کا حل تلاش کرنا تھا۔ نومبر ۱۹۱۹ء کو قائم ہوئی اس تنظیم کا نام *”جمعیت علماء ہند“* رکھا گیا، جس کے پہلے صدر مفتی اعظم *حضرت مولانا کفایت اللہ دہلوی ؒ* منتخب ہوئے۔ اور اس تنظیم کے بانیین میں حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلی، حضرت مولانا حسین احمد مدنی، حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری سمیت دیگر اکابر علمائے کرام کی ایک جماعت شامل رہی۔ جس وقت جمعیۃ علماء ہند کا وجود عمل میں آیا اس وقت انگریز سامراج کا دور اقتدار تھا جسمیں بشمول مسلمانوں کےباشندگان ہند پر مظالم عام تھے ایسے وقت میں جمعیت کے قیام کا مقصد ہی ملک ہندوستان کو قید اور مظالم سے آزاد کراناتھا جس کےلیے اکابر جمعیت کو ہر قسم کے مشکل حالات کا سامنا رہا حتی کہ قید و بند کی صعوبتوں سے بھی وہ دوچار رہیں۔ بالآخر ان کی اور ان جیسے دیگر مخلصین کی قربانیوں اور محنتوں کے صلے میں باشندگان ہند کو آزادی میسر آئی۔
جمعیۃ علماء ہند اس ملک کی سب سے قدیم دستوری جماعت ہے جس کا اپنا آئین ہے اور جمعیت اپنے آئین اور دستور کے عین موافق ہر دور میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی پسماندگی اور مسائل کے حل کےلیے سرگرم عمل رہتی ہے، جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ مسلمانان ہند کو زندگی کے ہر میدان میں پیش قدمی کا حوصلے بخشے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے ہر دور میں مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لے کر انھیں زندگی کے مختلف شعبوں میں اہم رول ادا کرنے نیز اپنی مذہبی انفرادیت اور اسلامی تشخص کی حفاظت کےلیے ہمت واستقلال کےساتھ تعلیمات اسلامی پر جمے رہنے کی تلقین کی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے ملک وملت اور اسلامی تشخص کی حفاظت کےلیے جو وسیع تر خدمات انجام دیے ہیں و تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے سیاسی، سماجی، اخلاقی، اقتصادی، اور تعلیمی مسائل میں جس قدر ملک ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کا واحد مقصد آئین ہند کو مضبوط کرنا اور مذہب، زبان، علاقے، اور تہذیب کیے نام پر جاری امتیاز وتعصب کو ختم کرکے رواداری اخوت اور آپسی بھائی چارگی کے ساتھ ملک ہندوستان کو ترقیات کے منازل طئے کرانا رہا ہے۔
لیکن! آج ہمارا ملک مختلف مسائل سے دوچار ہے، جہاں بے روزگاری، مہنگائی اور کسادبازاری سے ملک کی اقتصادی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، وہیں مسلمانوں کے آپسی اختلافات کی وجہ سے امت مسلمہ کا شیرازہ بکھرا جارہا ہے، جس سے مسلم مخالف طاقتیں ہی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک جس کا آئین ہر باشندے کو برابری کے حقوق دیتا ہے۔ مذہب، زبان اور علاقے کی بنیاد پر کسی بھی شہری کے ساتھ امتیاز اور تعصب ملک ہندوستان کے جمہوری آئین کے خلاف ہیں۔ لیکن ادھر کچھ سالوں سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں ملک کی سالمیت کےلیے خطرہ بن چکی ہیں، باطل طاقتیں اقلیتوں پر مظالم کا سلسلہ دراز کیے ہوئے ہیں، ارباب اقتدار نت نئے طریقوں سے مسلمانوں کو حراساں کیے جانے کا کام انجام دے رہے ہیں، بے قصور مسلم نوجوانوں کو برسہابرس قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار کیا جارہاہے۔ مسلمانان ہند ایک طرف باطل قوتوں سے نبرد آزما ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کا آپسی انتشار اور خلفشاری باطل قوتوں کو اسلامی تعلیمات میں دخل اندازی کا موقعہ فراہم کررہی ہے۔
ایسے پر آشوب دور میں جمعیۃ علماء ہی وہ واحد جماعت ہے جو مسلمانوں کا اسلامی تشخص برقرار رکھنے کےلیے سینہ سپر ہے، مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، اخلاقی، اقتصادی، تعلیمی، ومعاشی پسماندگی کو دور کرنے کےلیے مسلسل کوشاں ہے۔ بلاشبہ ملک میں بڑھتی نفرت اور فرقہ واریت کو پیار محبت، امن آشتی، بھائی چارگی اور خدمت خلق جیسی اسلامی روایتوں سے شکست دیا جاسکتا ہے اور اس سے ملک میں امن وامان کی بحالی کی امید کی جاسکتی ہے۔
ان مقاصد کو بروئے کار لانے کےلئے اور مناسب ومؤثر لائحۂ عمل تیار کرنے کےلیے جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ منعقدہ ۶ جنوری ۲۰۲۳ ء نے جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس مجلس منتظمہ کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔
اور خدا کا فضل شامل حال رہا کہ مذکورہ اجلاس کی میزبانی صوبۂ مہاراشٹر کے ذمہ آئی اور ۲۸/۲۹/۳۰ شوال المکرم۱۴۴۴ھج مطابق 19/20/21 مئی 2023ء بروز جمعہ سنیچر اتوار کو عروس البلاد ممبئی میں اجلاس مجلس منتظمہ کے انعقاد کا فیصلہ کیا کیا گیا۔ جس کی صدارت خودجانشین شیخ الاسلام صدرالمدرسین دارلعلوم دیوبند *حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم* (صدر جمعیۃ علماء ہند) فرمائیں گے۔ جس میں مرکزی، صوبائی، ضلعی وشہری جمعیتوں اور یونٹس کے اراکین کی مختلف نشستیں ہوگی اور مندرجہ ذیل امور پر غور وخوض کیا جائے گا!
۱) ملک کی موجودہ صورت حال اور فرقہ وارانہ فسادات کی وجوہات۔
۲) یکساں سول کوڈ اور شریعت میں حکومتی مداخلت۔
۳) جدید تعلیمی پالیسی کے مدارس پر مرتب ہونے والے اثرات۔
۴) دینی ماحول میں عصری تعلیم کا نظام ۔
۵) ہجومی تشدد (ماب لنچنگ) کے بڑھتے واقعات پر روک۔
۶) مسلمانوں کو مختلف شعبوں میں درپیش مسائل کا حل۔
۷) اسلامی اوقاف کے مسائل۔
۸) اسلام اور شعائر اسلام اور مسلمانوں کے مآثر ومعابد کے تحفظ پر غور۔
تین روزہ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس میں مذکورہ امور پر غوروخوض کیے جانے کے ساتھ ساتھ ترکیے میں زلزلے سے شہید ہونے والوں سے اظہار تعزیت بھی کی جائے گی اور بھی مسلمانوں کو درپیش دیگر مسائل کے اسباب اور سدباب پر غور کیے جانے کے ساتھ مضبوط اور منظم لائحۂ عمل بھی تیار کیا جائے گا۔
آخری نشست جو کہ 21 مئی بروز اتوار شام 5 بجے تا رات 10 بجے ممبئی کے آزاد میدان میں ایک کھلے اجلاس کی شکل میں ہوگی جسمیں جانشین شیخ الاسلام صدرالمدرسین دارلعلوم دیوبند *حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم* (صدر جمعیۃ علماء ہند) مسند صدارت پر جلوہ افروز ہوں گے نیز اپنے بیباک خطاب کے ذریعے مسلمانان ہند کو پیغام دینے کے ساتھ ساتھ درپیش چیلنجز سے نمٹنے کےلیے مسلمانان ہند کی بھرپور رہنمائی فرمائیں گے۔ نیز مذکورہ پروگرام میں دیگر مقررین کی جانب سے ماضی کی کارکردگی اور مستقبل کی منصوبہ بندی جیسے اہم عناوین پر خطابات سننے کو ملیں گے۔
جمعیۃ علماء ہند کیے مذکورہ اجلاس عام کے سلسلے میں چند اہم گذارشات ہے اس امید پر کہ عملی جامہ پہنایا جائے گا۔
۱) جو احباب مرکزیہ یا مہاراشٹر منتظمہ کے رکن ہیں وہ دو روز اپنی مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام نشستوں میں ضرور شریک ہوں۔
۲) عوام الناس بھی بروز اتوار کو آزاد میدان کے ہونے والے عمومی اجلاس میں اپنی شرکت کو یقینی بنائے۔
۳) جمعیۃ علماء کے کاز کو سمجھنے کا یہ انمول موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیں۔
۴) جو حضرات واقعتاً کسی عذر کی بناء پر شریک نہیں ہوسکتے وہ لائیو جلسہ کی ضرور سماعت فرمائیں۔
۵) دو روزہ اجلاس میں شرکت کرنے والے اپنی آمد کی اطلاع دفتر جمعیۃ علماء مہاراشٹر کو ضرور دیں۔
۶) ٹرین سے آنے والے حضرات واپسی کی منصوبہ بندی کے ساتھ تشریف لائیں۔
۷) بذریعہ ٹووہیلر اور تھری وہیلر ممبئی آنے کی زحمت نہ فرمائیں (بالخصوص اہلیان مالیگاؤں)۔
۸) مختلف ادارے اور کلبوں کے ذمہ داران اپنے علاقے میں اجلاس میں شرکت کے متمنی احباب کےلیے سواری کا نظم معقول کرایہ کے ساتھ کرانے کی کوشش کریں۔
۹) مقررین کی مخاطبت نہ صرف سنے بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کریں۔
۱۰) اجلاس کی کامیابی کےلیے دعاؤں کا اہتمام فرمائیں۔