کرتے ہیں۔زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ پلوں نے بھی ترقی کی ہے۔اڑان پل اور عرشی پل( اسکائی واک) وغیرہ پل کی نئی قسمیں ہیں۔پہلے ہم"ہاوڑا بریج"اور "لندن بریج"کا نام سنتے تھے۔اب انجنیئرنگ کے کمال نے ایسے ایسے پل تعمیر کر دئیے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی۔دنیا میں نت نئے ڈیزائن کے بے شمار پل موجود ہیں۔ انجنئیرنگ کے کرشموں میں ایک "مالیگاؤں کا اڑان پل" بھی ہے۔کہتےہیں کہ دنیا کی سب سے بلند و بالا عمارت "برج خلیفہ" کو مکمل کرنے میں کم و بیش ساڑھے تین برس لگ گئے۔ہمارے" مالیگاؤں کا اڑان پل" گذشتہ پانچ برسوں سے زیر تعمیر ہے اور اب بھی مکمل نہیں ہوسکا جس سے اس کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔وہ عمارت ہی کیا جو تین برس میں مکمل ہوجائے۔اس میں کون سی کمال کی بات ہے۔اب انجنیئرنگ کے شعبے میں ایسی حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے کہ کم سے کم وقت میں بڑی بڑی عمارت بنائی جاسکتی ہے۔مگر اتنی ترقی کے بعد بھی ایک چھوٹا سا پل تعمیر نا کر پانا،اصل کمال یہ ہے۔نہ جانے یہ "ڈسکوری چینل" والے کہاں غائب گئے ہیں کہ اتنے عظیم کارنامے کا آج تک کوئی کوریج نہیں کیا۔
ایک مرتبہ پل کی تعمیر مکمل ہو جائے ، پھر ہم دنیا کو بتائیں گے کہ شاہکار کس طرح تعمیر کیئے جاتے ہیں۔وہ دن دور نہیں جب دنیا میں پل بنانے کے لئے "مالیگاؤں پیٹرن" رائج ہوگا۔ یقیناً اس وقت یہ ڈسکوری چینل والوں کو ہمارے در پر ناک رگڑنی ہی پڑے گی۔
سنا ہے کہ بہت سے لوگ اسے" بڑی جسامت کا ڈھاپا "کہتے ہیں۔ان بے وقوفوں کو "ڈھاپے "اور "اڑان پل" میں فرق کیا معلوم۔کہتے ہیں کہ اس اڑان پل کے گرم توے پر کئی لیڈروں نے سیاسی روٹیاں سینکی ہیں جن بعض کی روٹیاں تو جل گئیں اور بعض نے تو پراٹھے بھی تل لئیے۔اس اڑان پل کی تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ بہت سے لیڈروں نے اس کی تعمیر کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں۔جس کے سبب پل لیت ولعل میں پڑ کر التواء کا شکار ہو گیا ہے۔
ھم تو کہتے ہیں کہ یہ روڑے اگر جمع کر لیے جاتے تو ایک اور نیا پل تعمیر ہوسکتا تھا۔ویسے بھی مالیگاؤں میں ایک پل سے کام چلنے والا نہیں، یہاں تو مستقبل میں پلوں کا جال بچھانا پڑے گا مگر جال بچھاتے وقت یہ دھیان رکھنا ضروری ہے کہ کہیں چوہے اسے کتر نہ ڈالیں۔
پل کی تعمیر کے بعد پل کے اوپر اور نیچے کا منظر سوچ کر دل خوشی سے پاگل ہو جاتا ہے۔پل پر دونوں جانب نوجوانوں کو ٹائم پاس کے لئے اور موبائل میں وقت برباد کرنے کے لئے فٹ پاتھ ہوگا۔ بچوں کی تفریح کے لیے پل کار آمد ہوگا۔پل کے نیچے پہلے سے زیادہ بے ہنگم ٹریفک،جسے پار کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔پل کے نیچے اتی کرمن کا سیلاب بلا ہوگا جو پل کی رونق دوبالا نہیں بلکہ سہ بالا (شادی والا نہیں) کر دے گا۔پل کے نیچے ٹکیہ،بھجیہ،سیخ کلیجی،مٹھائی،چائے اور سوڈے کی دکانیں اور ان سے اٹھنے والی بھینی بھینی خوشبو اور دھواں ایک الگ ہی سماں پیدا کر دیں گی۔جن کے سبب دہلی کے "چاندنی چوک" کی رونق بھی ماند پڑ جائےگی۔
مستقبل میں پل دھرنا آندولن کے لئے بھی کارآمد ثابت ہوگا۔اپنے مطالبات منوانے کے لیے شہر سے باہر جاکر راستہ روکنے کی محتاجی ختم ہوجائے گی۔ راستہ روکنے کے لئے پل ہی کافی ہوگا۔
اڑان پل پر آنے والے خرچ کا مقابلہ دنیا کے بڑے بڑے،عالیشان اور مہنگے پل اور میگا اسٹرکچر بھی نہیں کر پائیں گے۔پھر ہر برس اس کی درستی پر ہونے والا خرچ تو تاج محل کی درستی کے تخمینے کو بھی شرما دے گا۔اس طرح یہ اڑان پل نہ صرف چھوٹا موٹا دھندہ بیوپار کرنے والے بلکہ نیتاؤں کی ترقی کو بھی ایک نئی اڑان عطا کرے گا۔