ہمارے پڑوس میں ایک ڈاکٹر رہتے تھے۔انھوں نے ایک" کتیا" اور اس کے چار پانچ پلوں کو پال رکھا تھا۔انھوں نےاس " کتیا "کو پالا نہیں تھا بلکہ وہ یونہی پل گئے تھے۔وہ "کتیا" کو پیار سے"لوسی"کہہ کر پکارتے تھے۔ہوا یہ تھا کہ ان کے مکان سے تھوڑا آگے ایک ٹوٹا ہوا مکان تھا جہاں اس "لوسی" نے بچوں کو جنم دے دیا تھا۔کھانے کی تلاش میں" لوسی" جب گلی میں نکلتی تو ڈاکٹر صاحب کے مکان کے باہر پڑا ہوا کھانا دیکھ کر کھانے لگتی۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ منظر دیکھا تو گھر والوں کو تاکید کی کہ روزانہ" لوسی "کے لئے بچا کچا کھانا ضرور ڈال دیا کریں۔اس طرح "لوسی" کے رزق کا مستقل انتظام ہوگیا تھا۔"لوسی " روزانہ آتی اور کھانا کھا کر چلی جاتی۔اس کے ساتھ اس کے بچے بھی ہوتے۔اکثر گھر کے افراد تازہ کھانا اور دودھ بھی ایک پیالے میں رکھ دیتے۔آہستہ آہستہ "لوسی" اور اس کے بچے اکثر ڈاکٹر صاحب کے گھر کے باہر پڑے رہتے۔"لوسی "اور اس کے بچے ڈاکٹر صاحب سے اس درجہ مانوس ہو گئے تھے کہ جب ڈاکٹر صاحب کام پر باہر جاتے اور رات دیر گہے واپس آتے تو "لوسی" اپنے بچوں کے ساتھ گلی کے کونے پر ڈاکٹر صاحب کے انتظار میں بیٹھی رہتی۔جب ڈاکٹر صاحب آتے تو ان کی موٹر سائیکل کے پیچھے پیچھے گھر تک آتی۔گویا وہ ان کی احسان مند ہے اور اس کا اظہار کر رہی ہے۔ڈاکٹر صاحب اکثر رات دو تین بجے آتے مگر"لوسی" کے معمول میں فرق نہ پڑتا۔جب "لوسی "ڈاکٹر صاحب کے گھر کے باہر پڑی رہتی تو گلی کے بچے شرارت کرتے اور اسے چھیڑتے۔اپنے دفاع میں لوسی کاٹنے دوڑتی۔جب کبھی لوسی کو خطرہ محسوس ہوتا،وہ بھونکتی اور کاٹنے کو دوڑتی۔سچ ہے انسان کو بھی جب کبھی خطرہ محسوس ہوگا،وہ اپنا دفاع ضرور کرے گا۔ان حالات کے سبب گلی کے لوگوں نے ڈاکٹر صاحب سے شکایت کی اور "لوسی"کو گلی سے باہر نکالنے کا مطالبہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ میں نےانھیں پالا نہیں ہے بس یونہی بے ارادہ پل گئے ہیں ،میں کیا کرسکتا ہوں۔جب گلی والوں کا اصرار دھمکی تک پہنچ گیا تو ڈاکٹر صاحب نے "لوسی "اور اس کے بچوں کا انتظام کرنے کا فیصلہ کیا۔ڈاکٹر صاحب انھیں یونہی چھوڑنا نہیں چاہتےتھے۔انھوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے کتوں کو پالنے والے اداروں کی معلومات حاصل کی۔ناسک کے ایک ادارے سے رابطہ کیا۔تمام کاروائی مکمل کی۔ ادارے کے مطلوبہ اخراجات پیشگی ادا کیئے۔
ایک روز ایک کتا گاڑی وارد ہوئی۔ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے بعد" لوسی" اور اس کے پلوں کو گاڑی میں بٹھا کر گاڑی روانہ ہو گئی۔جاتے وقت" لوسی" جالی سے ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر اشکبار تھی،اس کی آنکھوں میں شاید شکر گذاری کے آنسو تھے۔ادھر ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کی قطار جاری تھی۔ان کی آنکھوں میں شاید اطمینان کے آنسو تھے۔ڈاکٹر صاحب کو "لوسی "اور اس کے بچوں کے جانے کا غم ضرورتھا مگر دل مطمئن تھا کہ انھوں نے" لوسی" اور اس کے بچوں کو بے یارومددگار نہیں چھوڑا ہے۔
دور کھڑا میں بھی اشکبار آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔آج جب برسوں بعد یہ واقعہ قلمبند کر رہا ہوں تو اب بھی آنکھیں اشکبار ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ اس رات ڈاکٹر صاحب کو نیند نہیں آئی ہوگی۔...۔۔۔