"قربانی سے مقصود گوشت پوست نہیں! بلکہ اس جذبۂ اخلاص کو بیدار کرنا ہے جو کائناتِ گیتی کے دل کی دھڑکن اور انسانیت کی آبرو ہے....."
تحریر: علامہ ارشدالقادری
تلخیص: غلام مصطفیٰ رضوی
(نوری مشن مالیگاؤں)
ایک دن مناجاتِ سحر کے وقت بڑے ہی رقت انگیز کیف کے ساتھ سیدنا ابراہیم علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنے رب کے حضور یہ دُعا مانگی:’’پروردگار! مجھے نیکو کار فرزند عطا فرما۔‘‘ (۱)لب ہاے خلیل سے نکلی ہوئی دُعا فوراً ہی بارگاہِ عزت میں شرفِ قبول سے سرفراز ہوئی۔ عالمِ قدس سے آواز آئی: ’’ہم نے ایک سمجھ دار لڑکے کی انھیں خوش خبری دی۔‘‘(۲)کچھ ہی عرصے کے بعد ایک سُہانی صبح کو نسیمِ صبا نے اکنافِ عالم میں مژدۂ جاں فزا سُنایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر چمنستانِ قدس کا ایک پھول کھِلا؛ یعنی جگر گوشۂ خلیل حضرت اسماعیل علیہ السلام پردۂ غیب سے خاک دانِ گیتی پر جلوہ افروز ہوئے ۔
ملک شام کا سرسبز و شاداب علاقہ جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے؛ ابھی کچھ ہی دن گزرنے پائے تھےکہ ایک دن ہاتفِ غیب کے خاموش اشارے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی رفیقۂ حیات حضرت ہاجرہ اور اپنے شیٖر خوار شہزادے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اپنے ہم راہ لے کر چل پڑے۔ تین افراد پر مشتمل یہ نورانی قافلہ شب و روز چلتا رہا۔ آخر ایک دن پہاڑیوں کے ایک وسیع دامن میں ٹھہر گیا۔ کچھ ہی فاصلے پر ٹوٹی ہوئی دیواروں کے کچھ نشان نظر آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرطِ ادب سے اپنا سر جھکا لیا اور اپنی رفیقۂ حیات حضرت ہاجرہ سے کہا کہ دیکھو! روئے زمین پر بھی خداے ذوالجلال کا محترم گھر خانۂ کعبہ ہے، یہی کائناتِ ارضی کا مرکزِ تنظیم ہے، یہی ابن آدم کی معزز پیشانیوں کی سجدہ گاہ ہے، اور پھر یہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انتہائی عجز و نیاز کے ساتھ ٹوٹی ہوئی دیواروں کے سامنے ہاتھ اُٹھا کر یہ رقت انگیز دُعا مانگی:
رَبّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ لا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَرْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ۔ (۳)
’’اے پروردگار! تیرے محترم گھر کے قریب ایک بے آب و گیا وادی میں اپنا کنبہ آباد کر رہا ہوں، اے پروردگار! تا کہ وہ نماز پڑھیں اور تیرے گھر کو سجدوں سے بسائیں۔ پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ ان کی طرف مائل ہو جائیں اور انھیں پھلوں کا رزق عطا کر کہ وہ تیرا شکر ادا کریں۔‘‘
برستے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دُعا مانگی اور اپنا یہ کنبہ خدا کی امان میں چھوڑ کر بیت المقدس چلے گئے۔
اِدھر حضرت ابراہیم بادیدۂ پُرنم رُخصت ہوئے اور اُدھرخداے کارساز نے غیبی تائیدوں کے دروازے کھول دیے۔ ریگزار کے سینے سے زم زم کا چشمۂ صافی پھوٹ پڑا۔ اس خموش وادی کو انسانوں کی چہل پہل سے آباد کرنے کا یہ انتظام ہوا کہ قبیلہ بنی جُرھم کا خانہ بدوش کارواں صحراؤں کی خاک اُڑاتے کہیں سے آپہنچا، اور اس چشمۂ سیال کے کنارے آباد ہوگیا۔ اور چند ہی دنوں میں خدا کے محترم گھر کے قریب غم گُسار پڑوسیوں کا جیتا جاگتا شہر بس گیا۔
وہیں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اپنی شفیق ماں کی آغوش میں پروان چڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ جب عنفوانِ شباب کی منزل میں قدم رکھا تو ان کے مقدس باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام ملک شام سے مکہ چلے آئے۔ اور یہیں بود و باش اختیار کر لی۔ ایک خوش گوار صبح کو آسمانوں کے دروازے کھل گئے۔ اور عالم قدس کے فرشتے مکہ کی نورانی فضاؤں میں تیرنے لگے۔ اسی عالمِ کیف بار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اپنے قریب بُلایا اور بڑے ہی پیار بھرے انداز میں کہا:
’’میرے لاڈلے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں بتاؤ اس کے متعلق کیا رائے ہے۔ ارجمند بیٹے نے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ جواب دیا: میرے شفیق باپ! خواب کے ذریعہ آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے آپ بغیر کسی پس و پیش کے اُسے کر گزریے۔ خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر و شاکر پائیں گے۔‘‘(۴)
سروش صفت بیٹے کا یہ جواب سُن کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا دل جوشِ محبت سے بھر گیا۔ ایک نئے عزم کے ساتھ اُٹھے اور کائناتِ گیتی پر تسلیم و رضا کا ایک نرالا امتحان دینے کے لیے اپنے اکلوتے بیٹے کو ہمراہ لے کر منیٰ کی وادی کی طرف چل پڑے۔ قربان گاہ پر پہنچ کر چھری نکالی۔ اور آنکھوں پر پٹی باندھی کہ مبادا شفقتِ پدری کا ہاتھ کہیں کانپ نہ جائے۔(۵)
’’پھر جب دونوں نے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دیا اور ابراہیم نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بَل پچھاڑا تا کہ ذبح کرے۔‘‘
ٹھہر جائیے! ذرا کئی ہزار برس پیچھے پلٹ کر یہ رقت انگیز منظر نگاہوں کے سامنے لائیے کہ ایک سنسان وادی میں نوے سال کا بوڑھا باپ ہے؛ جسے مناجاتِ سحر کے بعد خاندان کا چشم و چراغ عطا ہوا ہے، جو ساری دُنیا سے بڑھ کر اُس کی نگاہوں کا محبوب ہے، اب اسی محبوب کے ذبح کے لیے اُس کی آستین چڑھ چکی ہے اور ہاتھ میں تیز خنجر ہے۔ دوسری طرف نوجوان بیٹا ہے۔ جس نے بچپن سے آج تک باپ کی محبت آمیز نگاہوں کی گود میں پرورش پائی ہے اور باپ ہی کا مہر پرور ہاتھ اس کی گردن پر نظر آتا ہے۔
ملائکۂ قدس فضائے آسمانی اور عالم کائنات یہ حیرت انگیز تماشا دیکھ ہی رہے تھے کہ دفعتاً شہپرِ جبریل کی جھنکار سے منیٰ کی خموش وادی کا سکوت ٹوٹا۔ اور عالم قدس سے آواز آئی:
’’اور ہم نے انھیں آواز دی کہ اے ابراہیم! بلاشبہہ تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم اپنے نیکوکار بندوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں یقیناً یہ کھلی ہوئی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اسماعیل کے اوپر سے نثار کر دیا۔ اور آنے والی نسلوں میں ہم نے اس کی یادگار قائم کر دی۔ سلام ہو ابراہیم (جیسے مخلص دوست) پر۔‘‘(۶)
تاریخ شاہد ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر بیٹے کے حلقوم پر پوری طاقت کے ساتھ چھری چلائی لیکن مشیتِ یزدانی درمیان میں حائل ہو گئی اور حضرت جبریل علیہ السلام نے نہایت سُرعت کے ساتھ بیٹے کو سرکا کر اُس کی جگہ ایک بہشتی دنبہ رکھ دیا۔ خدا کے نام پر یہ پہلا خون تھا جس سے منیٰ کی وادی ’’لالہ زار‘‘ ہوئی۔
فیروز بخت پیمبر زادے نے جس استقلال، جس عزم اور جس حیرت خیز ایثار سے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کیا اُس کا صلہ یہی تھا کہ رسمِ قربانی قیامت تک اُس کے نام کی یادگار بن جائے۔ اسی حقیقت کی طرف سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں اشارہ فرمایا ہے: ھٰذہٖ سُنَّۃ اَبِیکُم ابراھیم۔ ’’یہ رسم قربانی تمہا رے باپ ابراہیم کی سنّت ہے۔‘‘
ذرا سوچیے! اس درد ناک واقعہ کو کتنے ہزار سال بیت گئے؛ لیکن اکناف عالم میں اس کی یاد کا ہنگامۂ شوق آج بھی کچھ اس طرح برپا ہے جیسے کل ہی کا یہ کوئی تازہ واقعہ ہو۔
اس سرائے فانی میں نقش جاوید قربانی کی مخصوص ترین جزا ہے۔ نوشتۂ الٰہی کے مطابق صفحۂ خاک پر انھیں لوگوں کے لیے سرفرازی ہے جو ایثار و قربانی کو اپنا شریکِ حیات بنا لیتے ہیں۔ اور اپنی متاعِ جسم و جان خدا کی ملک سمجھتے ہیں۔ آج ذرا اپنا حالِ زار دیکھیے کہ خود غرضی، پست ہمتی اور آخرت فراموشی نے ہمارے قومی وجود کا سارا اعزاز ذلتوں کی خاک میں دفن کر دیا ہے۔ ہماری غیرتوں کا جنازہ شاہراہوں پر پامال ہو رہا ہے۔ اور ہمارے چہروں پر ذرا بھی پشیمانی نہیں ہے۔ ہم اپنی ذاتی آسائشوں اور نام و نمود کی خواہش پر انتہائی فراخ دلی کے ساتھ اپنا سارا اَثاثہ لُٹا دیتے ہیں۔ لیکن ملت کی آبرو اور خوشنودیِ حق کے نام پر ایک تنکا بھی ہمارے احساس پر گراں بار بن جاتا ہے۔ کیا یہی ہے ایک سرفروش قوم کی زندگی کا نقشہ؟
ہر سال عید قرباں کے موسم میں ہم خدا کی زمین کو خون کے قطروں سے لالہ زار بناتے ہیں؛ لیکن اس حقیقت پر کبھی غور نہیں کرتے کہ قربانی سے مقصود گوشت پوست نہیں! بلکہ اس جذبۂ اخلاص کو بیدار کرنا ہے جو کائناتِ گیتی کے دل کی دھڑکن اور انسانیت کی آبرو ہے۔ ؎
لالہ و گل تو حسیں سے بھی حسیں تر ہیں مگر
دیکھنا یہ ہے کوئی خار حسیں ہے کہ نہیں
مآخذ: (۱)سورۃ الصّٰفٰت: ۳۷ ۱۰۰/ (۲) سورۃ الصّٰفٰت: / ۳۷ ۱۰۱ (۳)سورۃ ابراہیم: ۳۷/ ۱۴ (۴)سورۃ الصّٰفٰت:/ ۳۷ ۱۰۲ (۵)سورۃ الصّٰفٰت:/ ۳۷ ۱۰۳ (۶)سورۃ الصّٰفٰت: / ۳۷ - ۱۰۴ ۱۰۹
+91 9325028586
gmrazvi92@gmail.com